بحیثیت مسلمان ہمیں مساوات پر عمل پیرا ہونا چاہیے جہاں
کسی کو کسی پر فوقیت نہ ہو یہی اسلام کی اصل روح ہے مگر جیسےجیسےزمانہ ترقی
کرتا چلاگیاویسے ویسےہم طبقات میں تقسیم ہوتےچلے گئے۔آج ہم سندھی،
بلوچی،پٹھان، مہاجر ،پنجابی اورمیمن تو ہیں لیکن آج ہم میں کوئی مسلمان
نہیں۔پاکستان جس کو ہم نےاسلام کے نام پر حاصل کیا مگر اپنےقیام کے ابتدائی
سالوں میں ہی ہم نے اس تصور کولپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور ہر اس برائی کو
اختیار کرلیا جس کوختم کرنے کیلئے ہمارے قائد نے ایک بھرپورجدوجہدکی تھی۔
قائداعظم جو ہر ادارے کو اصول پرچلانے کے خواں تھے۔ان کے خوابوں کو ہم نے
ایک دیوانےکا خواب سمجھا اور پاکستانی افسر شاہی جو برطانوی حکومت کے زیر
سایہ رہی تھی۔ اس کے لئے ملک کو چلانے کےلئے وہی ہتھکنڈے استعمال کرناشروع
کئے جوان کےمفاد کے لئے بہترین تھے۔ایک ایسا ملک جیسے ایک فلاحی ریاست
بنایاجانا تھا۔جہاں پر انسان کو بلا امتیازمتعددحقوق کی فراہمی ہونا تھی
مگرہوا اس کے برعکس یوں آہستہ آہستہ ہر ادارہ اپنی ساکھ کھوتا گیا چاہے وہ
نیب ہو یا کراچی الیکٹرک سپلائی، واپڈا ہو یا واٹر بورڈہر ادارہ ایک مخصوص
طبقے کا ترجمان بنتا گیا جہاں صرف اس مخصوس طبقے کے لئے تو ترقی کے موقع
موجود ہیں مگر اگر کسی اور طبقے کا فرد اس اداے میں جدوجہد کر کےاور محنت
کر کےآگے بڑھنے کی کوشش کرے تواس کی راہ میں روڑے اتکائے جاتے ہیں اگر وہ
معمولی پوسٹ کے علاوہ کسی اعلیٰ پوسٹ پر پہنچ نہیں پاتا۔نسلی امتیاز کا
سامنا یوں تو مختلف طبقات کو مختلف مقامات پر کرنا ہی پڑتا ہے۔مثلاً ساؤتھ
افریقہ میں ہمیں اُس نسلی امتیاز کی مثال ملتی ہے۔جہاں پر کالے لوگوں کو
گورے لوگوں کے مقابلے میں کسی بھی طرح کی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔مگر اس
نسلی امتیاز کا سامنا پاکستان میں بہت سےاداروں میں بھی ہے ۔اسکول کسی بھی
بچے کی زندگی کا بنیادی ادارہ ہوتا ہےجہاں ایک بچہ زندگی کے مختلف اسباق
اوراصول مثلاً جھوٹ سے نفرت، مساوات کی اہمیت، دھوکہ دہی سے بچنااور ہر
انسان کوجیسا سمجھا جیسے اوصاف شامل ہیں۔
مثلاً کوئی اسکول جہاں پر مختلف طبقات جیسے پشتو، بلوچی، سندھی، پنجابی اور
مہاجرطبقات زیر تعلیم ہیں۔ مگر ایک اردو بولنے علاقےمیں ہونے کی وجہ سے اور
علاقائی طبقات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور پھر چاہے وہ اول آنے کا مسئلہ ہو
یا نعت خوانی انھیں ہر میدان میں پیچھا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس طرح
مختلف ادارے جہاں ملازمت حاصل کر نے کا معیار میرٹ نہیں بلکہ کوٹہ سسٹم ہو
جہاں وہ لوگ جو کسی بھی ڈگری کو حاصل کرنے کے لیئے اپنے دن رات ایک کرتے
ہوں جن کا خواب ایک اچھے اور نمایاں مقام کاحصول ہو مگر کیونکہ اس ادارے
میں کسی اس شخص کو رکھا جائےجس کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے کسی سیاسی
پارٹی ہو جو اس کے لئے اس ملازمت کے دروازےکھول دیتی ہے اور کوالیفائد لوگ
جوتیاں ناپتے رہ جاتے ہیں۔ اداروں میں یہ نسلی امتیاز جہاں میرٹ کی بجائے
ملازمت کاحصول کسی خاص طبقے سے تعلق ہو۔پاکستان کو معاشی پسماندگی کی طرف
لے جارہاہے۔کیونکہ معاشی پالیسی بنانے والے لوگ اس کے اب سے بھی واقف نہیں
مگر صرف کسی مخصوص جماعت سے وابستگی ہی ان کاسب سے بڑا میرٹ ہے۔ پاکستان اس
وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک ملک کی اور اداروں کی بھاگ
دوڑ واقعی ان لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو جو اس کے اہل ہوں۔کیونکہ وہی لوگ
پاکستان کیلئے ایسی ترتیب دے سکتے ہیں۔ جو پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں شامل
کر سکیں۔ کیونہ ان لوگوں نے یہ ڈگریاں کسی سفارش کے اہل ہونے پر حاصل نہیں
کی بلکہ اس کے پیچھے اس کی طویل جدوجہد اور اہداف ہوتے ہیں اور ان افراد کی
کسی بھی ادارے میں موجودگی اس ادارے کے ساخت کو بحال کرنےمیں مدد فراہم کرے
گی گویا نسلی امتیاز ایک ایسا عقیدہ ہےجو اداروں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ
ہے ۔لہذا اس کا دور کیا جانا بہت ضروری ہے۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو۔۔
سبھی کچھ ہو یہ تو بتاؤ مسلمان بھی ہو
|