کہانی: لائبہ بشیر، پشاور
اوہ! یہ تم نے کیا کردیا۔ تمہیں پتا ہے یہ گملا دادی کا تھا، جب انہیں پتا
چلے گا تو وہ بہت ناراض ہوں گی ، اور ڈانٹ بھی الگ پڑے گی، علی کے ہاتھ سے
گملا ٹوٹنے خالد نے بھڑکتے ہوئے کہا۔
غلطی سے گر گیا، ہم انہیں کوئی بھی جھوٹ بول دیں گے اور بچ جائیں گے، علی
نے سوچتے ہوئے کہا اور گملے کے ٹکڑے اٹھانے لگا۔ چلو پھر جلدی کرو، اگر
دادی آگئی تو ہماری خیر نہیں ہوگی۔ سارہ گند ہوگیا ہے، یہ بھی صاف کرنا ہے،
خالد نے بھی علی کا ساتھ دیا۔
علی اور خالد مٹی اور گملے کے ٹکڑے اٹھا ہی رہے تھے کہ کسی کے چلنے کی آواز
آئی ، خالد گھبرا کر کہنے لگا، مجھے پتا ہے یہ دادی ہی ہوں گی، جو ہماری
طرف آرہی ہیں۔مجھے بھی ایسا لگتا ہے، علی نے ڈرتے ہوئے کہا۔
مٹی اٹھاتے ہوئے اچانک علی کی چیخ نکلی ، خالد نے دیکھا تو علی کی انگلی سے
خون نکل رہا تھا۔ مٹی میں پڑی سوئی اس کی انگلی میں چھپی تھی۔ چیخ کی آواز
سن کر امی بھی آگئیں۔ علی کے ہاتھ سے خون نکلتا دیکھ کر انہوں نے فورا ہی
اس کی انگلی پر پٹی باندھی اور پھر ان سے پوچھا کہ تم لوگ آخر کر کیا رہے
تھے۔
خالد نے امی کو سارا واقعہ سنایا، امی نے کہا ’’اگر تم دادی کو سب کچھ سچ
سچ بتا دیتے تو کچھ نہ کہتیں، بیٹا کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ہوسکتا
ہے یہ تمہیں اس بات کی سزا ملی ہو کہ تم نے دادی کو جھوٹ بولنے کا ارادہ کر
لیا تھا۔ جب کوئی غلط ارادہ کرتا ہے تو اﷲ میاں اسے اس کی سزا ضرور دیتا ہے۔
اس لیے اب کے بعد اگر غلطی ہو بھی جائے تو جھوٹ نہیں بولنا بلکہ سچ سچ کہہ
دینا ہے، اس طرح اﷲ بھی خوش ہوگا اور پھر جو غلطی ہوئی ہے اس کا ازالہ بھی
کیا جاسکے گا۔
کچھ ہی دیر میں دادی بھی کمرے میں آگئیں۔ انہیں جب سب باتوں کا معلوم ہوا
تو انہوں نے علی اور خالد کو اپنے پاس بیٹھا کر سمجھایا کہ غلطی تو سب سے
ہوتی ہے، مگر اچھے بچے وہ ہوتے ہیں جو اپنی غلطی کو مان کر اس پر معافی
مانگ لیں اور دوبارہ وہ شرارت نہیں کریں۔ دادی نے دونوں کو کچھ نہیں کہا۔
علی نے خالد کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا۔ مگر علی کی انگلی پر اب پٹی
بندھی ہوئی تھی۔
|