تحریر: فائزہ خالد
گرمیوں کی دوپہر کا وقت تھا اور وہ اپنے مخصوص انداز میں بچوں کو پڑھانے
میں مصروف تھی۔ اس کی عادت تھی کہ وہ بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ نصیحت
بھی کیا کرتی۔ وہ سوچتی تھی کہ اگر ان بچوں میں سے ایک بچہ بھی اس کی نصیحت
پر عمل کر لے گا تو یہ اس کے لیے یہ صدقہ جاریہ بن جائے گا۔ آج وہ بچوں کو
عزت نفس اور خود داری کے بارے میں بتا رہی تھی۔پیارے بچو! عزت نفس کسے کہتے
ہیں یہ بات سمجھنے کے لیے پہلے میں آپ کو نفس کے بارے میں بتاؤں گی۔’’نفس
ہماری ذات میں پایا جانے والا ایک ایسا عنصر ہے جو ہمارے اندر خواہش پیدا
کرتا ہے‘‘۔ خواہش اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔
نفس کے تین درجات ہیں۔نفسِ امارہ،نفسِ لوّامہ،نفسِ مطمئنہ۔جب ہم کوئی برا
کام کریں اور اس کو کرنے کے بعد ہمیں احساسِ ندامت نہ ہو تو ایسی صورتحال
کا تعلق نفسِ امارہ سے ہوتا ہے۔ جب شر کا کام کرنے کے بعد احساسِ ندامت ہو
تو ایسی صورتحال نفسِ لوّامہ کہلائے گی جبکہ خیر کے کاموں کی طرف رجحان نفسِ
مطمئنہ کہلاتا ہے۔عزت نفس کا تعلق اپنے نفس کی عزت کرنے سے ہے یعنی کوئی
بھی ایسا کام کرنے سے گریز کرنا جو تضحیک آمیز ہو۔عزت نفس کا تعلق اپنی ذات
پر یقین سے ہوتا ہے یعنی انسان اپنی حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے اﷲ کے سوا کسی
دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتا ہے تو یہ عزت نفس کی ایک مثال ہے۔
بچو !شاید آپ کو ابھی میری باتیں ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آئیں مگر وقت آنے پر
یہ باتیں آپ کے بہت کام ائیں گی۔اپنی بات مکمل کرتے ہی اس نے بچوں کو
کتابیں کھول کر پڑھنے کی تلقین کی۔ابھی بچے اپنی کتابیں نکال ہی رہے تھے کہ
باہر سے کسی کے رونے کی آواز آنے لگی۔ آواز کسی بچی کے رونے کی تھی۔ وہ اس
قدر عجیب اور اونچی آواز میں رو رہی تھی کہ اس کا دل بے چین سا ہوا اور وہ
دیکھنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھی۔ جب وہ دروازے کے قریب پہنچی تو عین اس
کے گھر کے دروازے کے سامنے ایک بچی جو عمر میں تقریباََ دس گیارہ سال کی لگ
رہی تھی، گلی میں زمین پر اوندھے منہ لیٹ کر رو رہی تھی۔
اس کے کپڑے مکمل طور پر مٹی سے اٹے ہوئے تھے اور اس کے کھلے بال بھی گرد
آلود تھے۔ اس کے ایک پاؤں میں چپل تھی جبکہ دوسرے پاؤں کی چپل اس سے کچھ
فاصلے پر زمین پر پڑی ہوئی تھی۔ اس بچی کو اس قدر تکلیف دہ حالت میں دیکھ
کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ بس اس بچی کی اس حالت کی وجہ جاننا چاہتی
تھی۔ وہ اسی کشمکش میں تھی کہ اس کی ماں بھی چادر اوڑھے دروازے کی طرف
بڑھیں۔ اس کی ماں نے اس بچی سے اس کے رونے کی وجہ دریافت کی۔ بچی نے تو
کوئی جواب نہ
نہ دیا مگر اس بچی سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک عورت نے جواب دیا کہ اس کے پیٹ
میں شدید درد ہے جس کی وجہ سے یہ اس قدر تکلیف میں ہے۔ وہ عورت شاید اس بچی
کی ماں تھی۔ اس عورت کا جواب سن کر گھر کے اندر پردے کی اوٹ میں کھڑی لڑکی
جو پہلے ہی بچی کی حالت دیکھ کر افسردہ ہو رہی تھی اس کی افسردگی اور تکلیف
میں مزید اضافہ ہوا۔ وہ چاہ رہی تھی کہ وہ جلدی سے اس بچی کو اٹھا کر
ہاسپیٹل لے جائے۔ باہر سے ایک مردانہ آواز اس کے کان میں گونجی۔ کوئی کہہ
رہا تھا کہ یہ مولوی صاحب ابھی دم کر دیتے ہیں اور دوا دیتے ہیں جس سے درد
میں افاقہ ہو گا۔
ابھی اس آدمی کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ وہ بچی تقریباََ چلاتے ہوئے
بولی ،’’مجھے پیٹ میں درد نہیں ہے، میں نے بھیک مانگ کر اپنے لیے پیسے جمع
کیے تھے جو میری ماں نے مجھ سے چھین لیے ہیں، مجھے میرے پیسے چاہئیں‘‘۔ یہ
سن کر پردے کی اوٹ میں کھڑی اس لڑکی کی ماں اپنے کمرے میں پڑے پرس میں سے
کچھ رقم نکال کر لائیں اور اس بچی کو دینے لگیں جبکہ پردے کی اوٹ میں کھڑی
لڑکی کے پیروں تلے جیسے زمین ہی نہ رہی ہو۔ چند لمحے اپنی جگہ ساکت کھڑے
رہنے کے بعد وہ واپس صوفہ پر آ کر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد بچی کے رونے کی
آواز آنا بند ہو گئی۔
وہ بچے جنہیں وہ پڑھا رہی تھی وہ بھی سارا واقعہ دیکھ چکے تھے۔ ایک بچے نے
اس سے سوال کیا ،’’ٹیچر وہ بچی اپنے نفس کی عزت نہیں کرتی نا، وہ خود دار
نہیں جبھی تو وہ لوگوں سے پیسے مانگتی ہے اور پیسوں کے لیے بری طرح رو رہی
تھی‘‘۔وہ تو خود اس واقعہ کی وجہ سے عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھی ایسے میں
وہ بچوں کو کیا جواب دیتی۔ بحرحال وہ تھوڑا سنبھلتے ہوئے انداز میں
بولی،’’بیٹا ایسا نہیں کہتے کیونکہ اس میں اس بچی کا کوئی قصور نہیں۔اس بچی
کے لیے پیسے اس کے اپنے وجود سے بھی زیادہ اہم اس لیے ہیں کیونکہ وہ اپنی
ذات سے نا واقف ہے۔ اس کو اس بات کا شعور کسی نے دیا ہی نہیں۔ پیدا ہوتے ہی
اس بیچاری کو بھیک مانگنے بیٹھا دیا گیا۔ بیٹا اس بچی کی خود داری کا قتل
اس کے بچپن میں ہی کر دیا گیا تھا‘‘۔
ایک اور بچہ بولا، ’’ٹیچر اس کی خود داری کا قتل کس نے کیا‘‘؟اس بچے نے
ایسا سوال کیا جس کا جواب شاید اس ٹیچر کے پاس بھی نہیں تھا۔وہ اس سوال کا
جواب دینے کے لیے الفاظ تلاش کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک نے اس کا دھیان
اپنی طرف مبذول کروایا۔اس نے جب دروازے کی طرف دیکھا تو اس ہی بچی کو
دروازے میں پردے کے پاس کھڑے پایا۔وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس بچی کے پاس
جا کر گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس نے مٹی میں اٹے اس بچی کے
دونوں ہاتھوں کو تھاما اور اسے شفقت بھرے انداز میں مخاطب کیا،’’بیٹا
تمہارا نام کیا ہے‘‘؟اس سوال کے جواب میں اس بچی نے کہا ،’’میں وہ پیسے
لینے آئی ہوں‘‘۔
اس نے اس بچی کے ہاتھوں پر اپنی گرفت مظبوط کرتے ہوئے اس کو دوبارہ مخاطب
کیا،’’بیٹا یہ جو تم باہر کر رہی تھی یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اچھے بچے ایسے
نہیں کرتے اور یہ امر اﷲ تعالی کو بھی پسند نہیں‘‘۔ابھی اسکی بات مکمل نہیں
ہوئی تھی کہ اس بچی نے ایک مرتبہ پھر سے بولا،’’ اے باجی کیا کہہ رہی ہو،
مجھے پیسے دو میں نے جانا ہے‘‘۔اس سے پہلے کہ وہ مزید اس بچی کو کچھ کہہ
پاتی، اس کا طالبعلم اس کے پاس آ کر بولا ،’’ٹیچر آپ کی ماما نے اس بچی کے
لیے یہ پیسے بھیجے ہیں‘‘۔اس کی گرفت بچی کے ہاتھوں پر ڈھیلی پڑ چکی تھی۔
بچی نے پیسے لیے اور چلی گئی اور اس ٹیچر کو ایک ایسے سوال میں مبتلا کر
گئی جس کا کوئی مناسب جواب نہ مل سکا۔آخر اس طرح کے بچوں کی اس حالت کا ذمہ
دار کون ہے؟ |