بازار، شاپنگ مالز، سپر مارکٹیں یا تفریح گاہوں جیسے بہت
سے مقامات پر پارکنگ کی پرچیاں تو عام ملتی ہیں، کہیں دس تو کہیں بیس روپے
پرچی پر لکھے ہی ہوتے ہیں اور جو بندہ وہاں اس ڈیوٹی پر مامور ہوتا ہے وہ
اس طرح گاڑی رکتے ہی پیسے مانگتا ہے جیسے انکم ٹیکس مانگ رہا ہو اور نہ دو
تو پھر بحث بازی بلا بلا یہ وہ۔۔۔۔۔۔
بیماری کی شدید حالت میں ایک نجی اسپتال جانا ہوا تو وہاں کھڑا ہوا پارکنگ
کے پیسے لینے والا ایک شخص معمول کے مطابق پارکنگ کے پیسے مانگ رہا تھا اور
یہاں بیماری کے باعث نیم بے ہوشی کی حالت میں اس وقت سب سے زیادہ اس سے ہی
نفرت ہوئی، پر سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے بھی مافیا ہے وہ تو محض ایک چھوٹا
سا سہولت کار کے طور پر اور اپنا گھر چلانے کیلئے سب سے پارکنگ کے نام پر
پیسے اکٹھا کرتا ہے۔
فلم منا بھائی ایم بی بی ایس کا سب سے مزاحیہ منظر ایک وہ بھی تھا جب فلم
کے مرکزی کردار سنجے دت اپنے ایم بی بی ایس کے داخلے کے پہلے روز کلاس کے
دوران اپنے ڈین سے پوچھتے ہیں کہ ایمرجنسی میں بیماری کی حالات میں پڑے شخص
کو فارم بھرنا لازمی ہے کیا؟، جس پر پوری کلاس کے طالب علم قہقہ لگا دیتے
ہیں۔
یہ تو فلم کا ایک منظر تھا جس نے سب کو بہت ہنسایا تھا لیکن اس کے پیچھے
چھپی تلخ حقیقت کو میں بذات خود اس وقت تھوڑا سا محسوس کرسکی جب میں شدید
بیماری میں کھڑی اسپتال کے باہر شوہر کا انتظار کر رہی تھی اور پارکنگ کی
پرچی دینے والا بضد تھا کہ پرچی لے لو، پرچی لے لو۔۔۔
یہ مافیا ہے یا قانون؟، یہ کوئی پالیسی ہے یا حکم، یہ غنڈہ گردی ہے یا دیدہ
دلیری، یہ آخر ہے کیا، سب ہی اپنے قانون بنائے پھر رہے ہیں اور ان پر عمل
پیرا ہونے پر ایسے کہتے ہیں کہ جیسے نہ کریں گے تو نہ جانے کون سا گناہ یا
قانون کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔
اپنا جنگل اپنا قانون تو بڑا پرانا مقولہ ہے، لیکن جب حقیقت میں اس کو
دیکھا تو احساس ہوا کہ موت کے منہ میں جو مریض اسپتال لائے جاتے ہیں ان پر
دراصل کیا بیتتی ہوگی اور انہیں لانے والوں پر کیا بیتتی ہوگی۔ اسپتال کے
بلوں کی فکر، دوائیوں کی فکر، مریض کی طبیعت کی فکر، گھر پر موجود دیگر
لوگوں کی فکر، آنے والے کل کی فکر اور وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں ایسے بہت سے سسٹم بنائے گئے ہیں جن کے پیچھے کون ہے، اور کون
اس مافیا جیسے سسٹم کو منظم طریقے سے بہت ہی عمدہ انداز سے چلا رہا ہوتا
ہے، معلوم نہیں ہوتا۔
ایسے کتنے ہی سسٹم ہیں جن کو ہم برا بھلا کہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے
ہمیں چھٹکارا مل جائے مگر مصلحتاً اس کو نظر انداز کرکے زندگی کو آگے رواں
دواں رکھتے ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ اس گلے سڑے ہوئے سسٹم کو بدلنے میں
تو صدیاں لگ جائیں گی ہم اکیلے کیسے کرسکتے ہیں۔ |