”بارش بہت تیز تھی“ بادل تھے، جو گرج گرج کر اپنا غصہ
زمین پر اتار رہے تھے، خدا جانے، آج کی رات کتنی قیامتیں گزری ہوں، بے بسوں
پر ،کتنوں کی آواز ان، بادلوں کی گرج میں دب گئی ہوں، کتنوں کی قسمت پر یہ
بجلی گری ہو گی، کتنوں کے مقدر جل گئے ہوں گے، وہ سر جھکائے کھڑکی کے پار
دیکھ کر سوچ رہی تھی،
” بکھرے بال “اس کے چہرے کو اڑتے اڑتے ڈہانپے کی کوشش میں تھے ،کھڑکی پار
سے بے رحم ہوا آتی ،اور بالوں کو اڑا دیتی ،
،اسکی قسمت“ پر بھی بجلی گری تھی ،مقدر جل گئے تھے ،ٹھیک ویسے کہ جب درختوں
پر گرتی ہے، تو کبھی ھرے نہیں ہوتے ،جلے ہوئے بھلا ھرے ہوتے ہیں، نہیں ۔۔۔نہیں
ہوتے، وہ شاید خود سے سوال و جواب کر رہی تھی،
” رات کے تین بج رہے تھے ،اور وہ خود پر ماتم کناں تھی، جسکی دنیا لٹی ہو
،وہ کیسے سو سکتا ہے، اسکی آنکھوں سے کاجل بہہ بہہ کر، اسکے چہرے پر لکیریں
کھینچ رہا تھا،
تھک ہار کر ،اس نے صوفے پر خود کو گرا دیا ،وہ اب نگاہ بیڈ پر لاپروہ سے
وجود پر جمائے تھی، جو اس بھیڑیے کیطرح تھا ،جو اک عرصے سے بھوکا تھا، اور
جیسے ہی شکار ملا، اسے بھنبھوڑ ڈالا ہو ،بوٹیاں نوچ نوچ کر ۔۔۔۔۔ہڈیوں سے
گوشت اتار کھایا ہو،
وہ اس کی چیخ و پکار اگنور کر کے اپنے پیٹ کی دوزخ بھرتا رہا ہو ۔
” ھالے نور “بھی ایسا ہی شکار تھی، وہ جس پر بھروسہ کرتی تھی، اسی نے اس کے
دل میں دھوکے کا خنجر پیوست کر دیا تھا ۔
”ایاز کمال “جس سے وہ بے پناہ محبت کرتی تھی، اسی نے اسکے اعتبار کا شیشہ
چکنا چور کر دیا تھا، اور وہ اپنی زات کی کرچیاں سمیٹتے سمیٹے تھک رہی تھی
۔
”بارش تھم گئی تھی“ طوفان گزر گیا، اب تباھی کے آثار نظر آ رہے تھے ،بیڈ پر
پڑے وجود میں حرکت ہوئی، اور وہ آنکھیں کھولے چھت کو دیکھتے ہوئے آھستگی سے
بولا:۔
کہاں ہوں میں۔۔۔۔اسنے سر پکڑکر آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں، تو جیسے
ہوش میں آیا ہو ،وہ جھٹکے سے اٹھا ۔
اسکی نظر سامنے صوفے پر نڈہال سی ھالے پر پڑی، جو بکھرے بالوں کی جالیوں سے
اسے دیکھ رہی تھی ،پھٹے کپڑے زخمی وجود لئیے وہ صوفے پر لیٽی تھی۔
”وہ جلدی سے اس کے قریب آیا ،اور اسے ہلاتے ہوئے بولا: ۔
ھالے؟ ۔۔۔۔۔ھالے کیا ھوا ہے تمہیں؟ ۔۔۔۔وہ اب اسکا زخمی ہونٹ جس خون بہہ
بہہ کر جم چکا تھا دیکھتے ہوئے بولا؟؟؟
اور ھالے پتھرائی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔
”ایاز کے زہن کی کھڑکیاں کھلنے لگیں،
اور وہ اپنے منہ پر ھاتھ رکھ کر، اسی کے پاس بیٹھتا چلا گیا۔
★★★
اسلام و علیکم۔۔۔۔۔۔ یہاں نوشابہ ملک رہتیں ہیں ،
آپ بتا سکتے ہیں؟ کونسا گھر ہے؟
وہ اپنا بیگ سنبھالتی گلی میں کھڑے، ایاز کمال سے پوچھ رہی تھی، جو فون پر
بات کر رہا تھا، چوکتے ہوئے بولا:۔
چلتی جائیں آگے سبز رنگ کا گیٹ ہے ۔
”جی شکریہ “ھالے شکریہ ادا کر کے چلتی گئی، اور گلی کے اینڈ پر اسے سبز گیٹ
نظر آ گیا ۔
اس نے ڈور بیل بجائی، تھوڑی دیر کےبعد نوشابہ آنٹی باہر آئیں ،وہ مسکراتے
ہوئے اس سے لپٹ گؠیں..,.میری بچی ۔ کیسی ہو کتنے دنوں بعد ملی ہو میں تو
بہت مس کر رہی تھی۔
جی ،جی بلکل تبھی آپ مجھ سے ملنے آؠؠئیں ہیں نا ؟ اب دیکھیں میں خود ہی چلی
آئی، ہالے نے شکایتی لہجے میں کہا۔
”اچھا اچھا “ناراض نہ ہو ،ساری باتیں گلے شکوے اندر چل کر کر لینا ،نوشابہ
اسکا ھاتھ پکڑ کر کھلے گیٹ میں اندر لے گئیں ۔
”سچ میں میں بہت یاد کرتی تھی“ تمہیں تمہارے خالو بھی بہت یاد کرتے ہیں! ہم
تمہاری شرارتوں کو یاد کر کے ہنس ہنس کے پاگل ہو جاتے ہیں،
نوشابہ اپنی دھن میں بولے جارہیں تھیں ،
اور وہ مسکرا کر انکے پیچھے چلتے ہوئے گھر کا جائزہ لے رہی تھی۔
” یہ کوئی پندرہ مرلے کا پلاٹ ہو گا، اور بہت اچھا نقشہ بنا کر تعمیر کیا
گیا، گھر کی چار دیواری کی اندرونی طرف کچھ فٹ ہٹا کر رومز بناؠئے گئے تھے،
یوں چاروں طرف اک راہداری سی بن گئی تھی، چھوٹا سا لان تھا جہاں رنگ برنگے
پھول کھلے تھے، بوگن ویلیا کے پھول جا بجا بکھرے تھے، جو شاید ہوا نے
بکھراؠئے تھے، لان مؠیں کرسیاں پڑیں تھیں،جن کے سامنے میز تھا ،جس پر گلدان
رکھا تھا، اور اس میں گلاب کے پھول پڑے تھے، اندر کی طرف جانے والے راستے
پر ایک بڑا گملہ پڑا تھا، جس میں شاید قیمتی پودا لگا ہوا تھا ،”جس کے بڑے
بڑے پتے تھے، اور دو شیڈز میں تھے، وہ انکے پیچھے چلتی چلتی ادھر ادھر دیکھ
رہی تھی، آ جاو آ جاو ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آنٹی کی آواز پر چونکی،
” جو اندر“ داخل ہوتے ہوئے، اس سے مخاطب تھیں۔
وہ اندر داخل ہوئی ، سامنے ہال تھا جہاں صوفے رکھے تھے، بیگز رکھتے ہوئے وہ
بیٹھ گئی ۔
”تم بیٹھو میں پانی لاتی ہوں ،
نوشابہ آنٹی یہ کہتے اندر چلی گئیں ،اور وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔
وہ سامنے لگے بڑے سے شییشے میں اپنا جائزہ لینے لگی، اور اپنے بال سیٹ کرنے
لگی۔
”یہ لو بیٹا“ نوشابہ نے ہالے کو گلاس تھما کر بیٹھتے ہوئے کہا :۔
”آنے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی نا بیٹا؟
”نہیں آنی “بس ادھر گلی میں آ کر بھول گئی تھی، کہ کدھر جانا ہے ،لیکن !
پھر پوچھ لیا، تو گھر مل گیا۔
”ہاں اتنا کچھ بدل گیا، نئے گھر بن گئے ہیں، کافی چینج ہو گیا ہے” آنی نے
بھی وضاحت دی۔
اچھا ۔۔۔۔۔۔تم اندر روم میں چلی جاؤ ،آرام کرو میں کھانا بنا لوں ۔
”جی بہت تھک گئی ہوں“ پیر سوج گؠئے ہیں بیٹھے بیٹھے، لوکل پر ہی آنا پڑا،
مجھے سیٹ نہی ملی تھی ،اسنے پیچارگی سے کہا۔
”اوہو ۔۔۔۔۔۔لوکل پر تو نری زلالت ہے بھؠؠئی، اچھا تم جاؤ آرام کرو میری
جان ،آنی نے اس پر پیار لٹاتے ہوئے کہا: ۔
اور وہ سامان اٹھاتی ،اندر روم کی طرف چل پڑی۔
اندر آ کر اس نے لائٹ آن کی اور سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی، بیگ کو اس نے نیچے
بیڈ کے پاس رکھا ،اور خود بییڈ پر لیٹ گؠئی ،وہ آکھیں بند کیے سونے کی کوشش
کرنے لگی ، وہ نیند کی وادیوں میں کھونے لگی۔
★★★
( پچھے پچھے اوندا میری چال وے نا آئی
پچھے پچھے اوندا میری چال وے نا آئی
چیرے والیا ویکھدا آئی وے میرا لونگ گواچا
نگاہ ماردا آئی وے میرا لونگ گواچا )
اوئے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ہالے گہری نیند میں تھی ،جب وہ شور سن کر اٹھی، اس نے گانے
کی آواز سن کر ایک بار اٹھ کر بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ،سماعتوں سے آواز کا
غائبانہ پیچھا کیا۔
”پھر“دوپٹہ ہاتھ میں لیئے، وہ کمرے سے باہر آ گؠئی، جہاں ایک لڑکی دوپٹہ
لئے ڈانس کر رہی تھی، اور ایک لڑکا اسکا ساتھ دے رہا تھا۔
”عشق نے میرے یہ کیسا کام کر دیا
میرا عاشقوں میں اونچا نام کر دیا
لٹ گیا وہ جس کو بھی ہنس کے سلام کر دیا
دیکھو میری ادا بھی آج کیا کر گئی
دیکھو ، میری ادا بھی آج کیا کر گئی
یہاں جتنے بھی دل ہیں ، تباہ کر گئی
میری ادا بھی آج کیا کر گئی
اب لڑکا لڑکی سے دوپٹہ لیکر ناچنے لگا۔
وہ حیرت سے دوپٹ مفلر سٹائل گلے میں ڈالتی، دونوں ہاتھ باندھے ،آنی سے
سوالیہ نظروں میں پوچھ رہی تھی ۔۔کہ یہ سب کیا ہے؟
اور آنی مسکرا کر اپنی” کنپٹی “کے پاس انگلی گھما کر اشارہ کر رہیں تھیں
،کہ یہ پاگل ہیں۔۔۔۔۔ہالے نے نہ سمجھ کر اپنا بائیاں ابرو چڑھاتے ہوئے
اثبات میں سر ہلایا۔
”اچھا“ اب میری باری ،لڑکی نے دوپٹہ کھنچا۔
ارے یہ وہی ہے ،جس سے میں نے پتہ پوچھا تھا، ہالے نے دل میں سوچا۔
رسیا نمبوں لیا دے وے میرے اٹھی کلیجے پیڑ۔۔۔۔۔
”نہ بھؠئی“ بس بس لڑکے نے بیٹھتے ہوؠے کہا۔
ہار گئے نا بچو!!، لڑکی نے بھی صوفے پر بیٹھ کر کہا ۔
ہالے بھی چلتی چلتی وہیں آ گئی۔
اسلام علیکم لڑکے نے کھڑے ہو کر کہا۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔۔ہالے نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
”بچو“ چلو کھانا لگاتی ہوں ،آ جاؤ سبھی ہالے بیٹا آ جاؤ۔
آنی نے ہالے کو پیار سے پکڑ لیا۔
”واہ آج تو سپیشل لگ رہا، سب کچھ لڑکے نے سامنے پڑی ڈشز کی خوشبو کو محسوس
کر کے سونگھتے ہوئے کہا۔
” ہاں جی “سب سپشل ہے، آج میری پیاری سی بھانجی آئی ہیں تو سپیشل ہی ہو گا
نا۔
آنی نے خوشی سے تعارف کرایا۔ ۔۔۔۔۔یہ میری بھانجی ہیں ہالے نور۔
اور ہالے یہ ایاز کمال ہیں میری فرینڈ کے اکلوتے بیٹے۔
اور یہ ہیں ۔۔۔۔
ماہی۔۔۔۔ماہین ارشد نام ہے میرا ،
ماہی نے آنی کی بات کاٹتے ہوئے اپنا تعارف خود کرایا۔
اور ہالے نے ھاتھ بڑھا دیا،آپ دونوں سے مل کر اچھا لگا، کافی اچھی دوستی ہے
آپکی،ہالے نے مسکرا کر کہا۔
جی بالکل! آپ بھی ہمیں جوائن کر لیں، اور ماہی نے زبان دانتوں تلے دبا لی،
جیسے کچھ غلط کہہ دیا ہو۔۔
ایاز تم بھی بولو نا!
ماھی نے ایاز کو گھورا۔۔۔
تم بولنے کا موقع دو گی تب نا !ایاز نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
ویسے ہم اکثر یہیں پاؠئے جاتے ہیں، گھر تو بس نام کا ہی ہے، ایاز نے آنی کو
دیکھ کر مسکرا کر کہا۔
آنی نے پیار سے بال بکھیر کر مسکرا دیں۔
اچھا جی میں چلا ،مجھے زرا بازار جانا ہے کوئی چیز منگوانی ہے تو بتا دیں،
ایاز نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
ارے نہیں ابھی کچھ نہیں لینا ہے،آنی نے نفی میں سر ہلا دیا،ایاز خدا حافظ
کہتا باہر نکل گیا۔
”اچھا آنٹی“ میں بھی چلتی ہوں، ابھی سارا کام پڑا ہے، پھر آونگی، اور ہالے
تم سے تو گپ شپ رہے گی، بائے۔۔۔۔۔ماہی ہاتھ ہلاتی باہر نکل گئی۔
ہالے بیٹا سب ٹھیک تو ہےنا! تم یوں اچانک ۔۔۔۔خیریت؟؟؟
ہالے نے کھانا چھوڑ کر سنجیدگی سے کہا :۔
اب میں وہاں سے آ گئؠی ہوں تو خیریت ہی ہو گی، میرے۔۔۔ہونے سے ہی تو
پریشانیاں تھیں، اور میں نے وہ پریشانیاں وقتی طور پر ختم کی ہیں، میں کچھ
دن یہیں رہنا چاہتی ہوں آنی،
”اچھا اچھا“ پریشان نہ ہو ،کھانا کھاؤ ،
آنی نے اسے کھانا چھوڑتے دیکھ کر کہا۔
★★★
”میرے خدا“ یہ کیا ہو گیا ،ایاز اپنے بال نوچتا سر جھکائے، گھٹنوں پہ
کہنیاں جمائے، دانت پیس کر رو رہا تھا،
”میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا “ہالے مجھے نہیں معلوم یہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔
”ہاں تم ایسا ہی کہو گے“ بھلا مجرم اپنا جرم کیوں مانے گا، ہالے نے اسکی
بات کاٹتے ہوؠئے کہا :۔
وہ صوفے پر لیٹی اسے دیکھتے ہوئے بولی:۔
” ننگے پیر“ تم نے مجھے انگاروں پر چلایا ہے، دیکھو میرے پیر جل چکے ہیں،
کانٹوں کے بستر پر سلایا ہے تم نے مجھے، جسم کیا ،میری” روح“ بھی زخمی ہے
ایاز، میری آنکھوں میں، کانچ کے ٹکڑے چبھوئے ہیں، میں دیکھ نہیں پا رہی،
ایاز تم نے مجھے بار بار دار پر چڑہایا ہے، میں جی نہیں پا رہی مجھے تو
۔۔۔۔۔۔۔۔
”خدا کے واسطے“ مجھے معاف کر دو، انجانے میں غلطی ہو گئی مجھ سے ۔۔۔۔
میں ازالہ کروں گا ،میں سب ٹھیک کر دوں گا ،ہم شادی۔۔۔۔۔
انجانے میں۔۔۔۔۔۔ اور تم کیا ٹھیک کرو گے،ہالے اٹھتے ہوئے درشت لہجے میں
بولی:۔
” کیا ٹھیک کرو گے“ بتاو مجھے، میری زات کا، کردار کا ،شیشہ توڑ دیا ہے،
جوڑ سکو گے، میری آنکھوں سے خواب نوچ پھینکے تم نے، لہو لہوہان کر دیا ہے،
میری سانس گھٹ رہی ہے ،نہیں لے پا رہی میں سانس، دیکھو مجھے ۔۔۔۔
”ایاز اسکے قدموں میں سر جھکائے بیٹھا رو رہاتھا۔۔۔۔
کیا؟ کیا ٹھیک کرو گے تم ۔۔۔۔۔؟؟؟
کچھ بھی نہیں ٹھیک ہو سکتا ،سب برباد کر دیا تم نے سب ۔۔۔۔۔۔
وہ اب ٹوٹ کے رو رہی تھی، مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں، کہ میں تمہارے منہ پر
تھپڑ ہی جڑ دوں ،انتہا ہے میری بے بسی کی، جاۏ یہاں سے،۔۔۔۔۔۔۔۔ چلے
جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہالے کے لہجے میں نفرت تھی۔
“اور ایاز“ لب بھینچتا اٹھ کھڑا ہوا ،ساؠئیڈ ٹیبل کے پاس موبائل گرا پڑا
تھا، اس نے جاتے ہوئے اٹھایا، اور ایک نظر ہالے پر ڈالتا، روم سے نکل گیا۔
ہالے کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ صوفے کی بیک سے سر ٹکائے تھی۔
★★★
ہالے بیٹا !مجھے پوری بات بتاؤ کیا ہوا ہے، آنی نے فکر مندی سے کہا۔
ہالے جو چائے کا سپ لیتے رکی اور بولی:۔
آنی کو دیکھنے لگی، کیوں؟ آپ کو میرا آنا اچھا نہیں لگا؟ تو چلی جاتی ہوں۔
ہالے۔۔۔۔۔بات کو مت گھماؤ، بتاؤ کیا بات ہے، آنی نے باقاعدہ اسے ڈانٹ پلائی
۔
”کیا بتاؤں آنی“ وہاں بہت مسائل تھے، اک میرے ہونے سے وہاں سبھی خائف تھے،
ماما کے جاتے ہی بابا نے شادی کر لی، اور احسان میرے کھاتے میں ڈال دیا، کہ
تم اکیلی تھیں، اس وجہ سے میں نے شادی کر لی، شادی کے بعد دوسری ماما جی نے
خوب رنگ دکھایا ،ان کے سامنے لاڈ جتاتیں، اور انکے جانے کے بعد اپنے رنگ
میں آ جاتیں، بہت برداشت کیا انکا سرد رویہ ،انکی باتیں ،اب وہ انسکیور فیل
کرتی ہیں، جیسے میں انکے بچوں کا حق کھا رہی ہوں۔۔۔۔
”میرے باپ کو “میں نظر ہی نہیں آتی، کبھی حال نہیں پوچھا ۔۔۔۔۔کبھی دست
شفقت میرے سر پر نہیں رکھا، کبھی پوچھا نہیں،
ہالے ۔۔۔۔۔۔زندہ بھی ہو کہ مر گؠئی، دس سال۔۔۔۔۔۔ دس سال گزر گؠئے
اور۔۔۔۔۔لہجہ بھیگ گیا ۔۔۔۔۔انکو میں کبھی نظر نہیں آئی ۔۔۔صبر اور برداشت
کا مادہ ختم ہو گیا آنی، تھک گئی میں، اسی لئیے آپکے پاس آ گئی ،اسکی
آنکھوں میں آنسو امڈتے چلے آئے۔۔۔اس نے منہ پھیر لیا، شاید وہ آنسو چپھانے
کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
“اچھا بس“ بچی نہیں ہو تم، جو اسطرح رونے لگو۔۔۔۔۔
آنی نے کرسی سے اٹھ کر اسے سینے سے لگا لیا، تم تو میری بہادر بچی ہو، تیری
ماما بھی بڑی بہادر تھی ،شوہر کی ہر ناانصافی کا جواب محبت لٹا کر دیا، پتہ
نہیں کونسی باتیں اندر لئیے چل بسی۔
ہالے آنی سے لپٹ کر اپنے دل کا غبار نکالتی رہی۔
★★★
صبح نثار ( ہالے کے بابا) کا بابا کا فون آیا۔
نثار صاحب ۔ تمہیں نے بلایا ہے ناں اسے؟
نوشابہ۔ بھائی صاحب میں کیوں بلاؤں گی اسے، بلانا ہوتا تو بہت پہلے بلا
لیتی ۔۔۔
نثار صاحب۔ بہرحال گھر بھیجو اسے۔
نوشابہ۔ آپ اسے کال کر لیں، اگر مانتی ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ اپنی خالہ کے
گھر آؠئی ہے، بیشک رہے، جب تک چاہے وہ یہاں رہ سکتی ہے۔
نثار صاحب نے کال کاٹ دی۔
”نوشابہ پریشان سی“ سوچ میں پڑ گئی ،بھائی صاحب بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں
،جوان بچی اپنا گھر کیسے چھوڑ سکتی ۔۔۔
سمجھا بجھا کر ہالے کو ضرور بھیجوں گی، دنیا داری بھی تو رکھنی ہوتی ہے،
آخر کیا جواب دیں گے۔
آنی آنی ۔۔۔۔۔آنی ہالے نے نوشابہ کے ھاتھ چھو کر بلایا، کیا بات ہے، کب سے
بلا رہی ہوں ،کیوں پریشان ہیں ،کیا ہوا ہے؟ کوئی پریشانی ہے۔؟
نہیں ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔” بچی“ کوؠئی پریشانی نہیں بھلا میں کیوں پریشان ہوں گی،
تم آ گؠئی ہو نا !سب اچھا ہے میری جان۔۔۔۔آنی نے چونک کر دیکھتے ہوئے اسے
کہا۔
”کچھ “تو ہے آنی ۔۔۔۔ بتائیں مجھے، بابا نے کچھ کہا:۔
tell me ہالے نے نرمی سے پوچھا
بچے کچھ نہیں ۔۔۔
”آنی پلیز “بتائیے۔۔۔ہالے نے آنی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
ہاں کال کی تھی انہوں نے، آنی نے لب بھنچ کر گویا اعتراف کیا۔۔
ہمممممم میں نہیں جانے والی ۔۔۔۔۔۔۔
ہالے نے درشتگی سے کہا:۔
اگر مجبور کیا گیا ،تو میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔۔۔.
ضد اور ہٹ دھرمی اسکے لہجے سے عیاں تھی،سمجھیں آپ ۔؟
اچھا مت جانا! سر میں شدید درد ہے،ایک کپ چائے بنادو گی؟ آنی نے بات ٹالنا
چاہی۔
ٹھیک ہے بناتی ہوں ۔۔۔مگر میں نے بھی کچھ کہا ہے، آپ سے ۔۔۔۔کہ ،میں نہیں
جاؤں گی،
ہالے نے دکھی لہجے میں کہا۔
آنی نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
★★★
ہالے نے خود کو سنبھال لیا تھا، اس نے خود پر بیتنے والی قیامت کا زکر کسی
سے نہیں کیا تھا ،وہ خاموش ہو گئی تھی، سوچیں تھیں جو اسے گھیرے رہتیں ، وہ
دن اسکی زندگی سے نکل جاتا اے کاش پوری زندگی اک طرف اور اسکی بربادی کا وہ
ایک دن پوری زنزگی پر بھاری تھا کاش اسدن آنی کے ساتھ چلی جاتی؛ ۔
ہالے بیٹا !تم بھی ساتھ چلو ناں ۔۔آنی نے اصرار کرتے ہوئے کہا :۔
نہیں آنی، آپکی تو وہاں دوستیں ہوں گی، میرا وہاں کوئی موڈ بھی نہیں جانے
کا ،آپ جائیں، انجواؠئے کریں، میں اور ایاز ماہی، ہم نے دریا پہ جانے کا
پروگرام بنایا ہے ،اور ماہی ناراض ہو جائے گی، ہالے نے جیسے اپنا پلان
بتایا ہو۔
ہمممممم، اچھا جی، تو یہ وجہ ہے نہ آنے کی، پتہ ہے، میرا بھی بہت ارمان ہے
،میں بھی تمہاری شادی بہت دھوم دھام سے کروں، یا اللہ کب آئے گا وہ دن، آنی
نے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ہالے نے شرماتے ہوئے مسکرا کر کہا:۔
” ابھی تو نہ آئے“ مجھے اپنی آنی کے پاس ہی رہنا ہے بس۔۔۔۔
ہالے آنی کے گرد بانہوں کا حصار کرتے ہوئے کہا۔
”ھائے اللہ نہ کرے“ اپنے گھر خوش رہو، آباد رہو، اچھا اچھا بولا کرو
بچہ،آنی نے ہولتے ہوئے کہا۔
اچھا جی، معاف کر دیں، بہت پیاری لگ رہیں ہیں،
ہالے نے پیار سے کہا ۔۔۔۔جلدی آئیے گا شادی سے، اور کہیں نہیں جانا ہے آپ
نے ،شادی سے سیدھا گھر آنا ہے ،اور فکر نہیں کرئیے گا میری، ماہی ہے میرے
پاس۔۔۔۔۔
ہالے نے مسکراتے ہوئے کہا:۔
”اوکے باس“ آنی نے جیسے آڈر مانتے ہوئؠے کہا۔
نوشابہ (ہالے کی آنی) اپنی دوست کی بیٹی کی شادی میں جا رہی تھیں،انہوں نے
ماہی سے کہا :۔
وہ دو دن ہالے کے پاس رک جائے، اور وہ تیار بھی ہو گئی ،ماہین کی امی بھی
مان گیئں اور یوں وہ اسلام آباد روانہ ہو گئیں۔
★★★
ہالے کی دوستی ہو گئی تھی، ماہین سے اور ایاز سے، تینوں ہی ایکدوسرے سے گھل
مل گئے تھے، ایاز بہت جلد امریکہ جا رہا تھا، جاب کے سلسلے میں، مگر، ابھی
کچھ پیپرز میں گڑ بڑ ہو رہی تھی۔
ماہین ایاز کو بہت پسند کرتی تھی، لیکن ایاز اس بات سے انجان تھا، جبکہ
ہالے نے بھی اس بات کو کافی محسوس کیا ۔
ایاز ہالے کی طرف کھینچتا جا رہا تھا ”دھیما لہجہ اسکا سٹائل، اسکی شخصیت
سے کب وہ متاثر ہوا، کب وہ اسکی محبت میں گرفتار ہو گیا۔
ایاز کو دریا بہت پسند تھا ،کئی بار وہ ماہی آنی اور اپنے پیرنٹس کے ساتھ
جاتا تھا ،سبھی اس بات سے واقف تھے۔
ہالے پانی سے ڈرتی تھی ،یہی وجہ تھی نہ وہ سمندر پہ جاتی، اور نہ ہی وہاں
جاتی جہاں پانی زیادہ ہو ۔
آنی کے جانے کے بعد وہ لوگ دریا پہ آئے، خوب انجوائے کیا ،ہالے نے پہلی بار
دریا کی ریت پر پاۏں رکھے، عجیب سا احساس تھا، جیسے ریت نے اسکے پاؤں کے
تلوؤں پر گدگدی کی ہو ،وہ اب ریت پر چلتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی، کچھ تو
پانی میں اترے تھے ،ہر اک خود میں مگن تھا، ایاز اور ماہی بھی پانی مییں
اترے تھے ،اور وہ پانی سے دور کھڑے انکو دیکھ رہی تھی، ایاز اور ماہی اسے
بلا رہے تھے ،مگر وہ نہیں گئی، اور کپڑا بچھا کر کھانا لگانے لگی ،کچھ
کھانے کی چیزیں وہ ساتھ لائے تھے ،اتنے میں وہ دونوں بھی آ گؠیے۔
ہالے تم پانی سے ڈرتی ہو؟ ایاز نے ہالے سے پوچھا۔
ہاں میں ڈرتی ہوں ہالے نے کچھ یاد آنے پہ کہا :۔
مجھے لگتا ہے پانی اپنے پاس بلاتا ہے مجھے، کھینچتا ہے اپنی طرف ۔۔۔
ایک دفعہ بابا کے ساتھ گئی تھی، انجانے میں پانی میں اتری تھی ، کہیں سے
ایکدم چھل آؠئی اور بہا لے گئی۔۔۔۔اک پیراک نے جان بچائی ۔۔۔ہالے نے جھر
جھری لی،وہ کھانا لگانے لگی،
یہ جو اوپر پتھر ہیں ناں ،اس سے اوپر پانی نہیں جاتا، نیچے ہی رہتا ہے ،اور
جہاں ہم بیٹھے ہیں نا! یہ گہرائی دریا کی ہی ہے،اب تو دریا پیچھے ہے، جب
چڑھے گا تو پانی ہی پانی ہو گا، دیکھو کس قدر پر سکون ہے ،ایاز اسے بتا رہا
تھا، اور وہ غور سے سن رہی تھی۔
ماہی تو کھانے میں مصروف تھی، اتنے میں ایاز کا موباؠئل بج اٹھا، وعلیکم
السلام کیا حال چال ہیں، ”اچھا“۔۔۔۔۔۔نہیں یار میں نہیں آ سکتا،
میں۔۔۔۔۔۔یار۔۔۔۔ فون رکھدیا گیا۔
اب کیا ہوا ماہی نے پوچھا ؟
دوستوں نے پارٹی رکھی ہے، اور مجھے بھی بلا رہے ہیں،کس خوشی میں۔۔۔ہالے نے
بے دلی سے پوچھا۔
”تمہاری اور میری“ انگیجمنٹ کی خوشی میں۔۔۔
ایاز نے مسکرا کر کر اسکا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔۔۔
ماہی فورا اٹھ کر ریت پر ننگے پاؤں چلنے لگی۔۔۔
کتنی خوش قسمت ہو نا تم ہالے ۔۔۔
میں اک عرصے سے، ایاز کے دل میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی، اور نہیں
بنا پائی، برسوں کا ساتھ تھا،پاس رہتے ہوئے بھی وہ میری پہنچ سے دور
تھا۔۔۔۔
ماہی اب پانی میں اتر گئی، آنسو تھے، جو مسلسل بہہ رہے تھے، اس نے مڑ کر
دیکھا، وہ دونوں اسے بلا رہے تھے۔۔۔
اس نے منہ پھیر لیا ،اپنے آنچل سے آنکھیں صاف کر کے وہ انکی طرف چلدی ،
پاس آ کر وہ بیٹھ گئی ،ہاں جی چلیں ۔۔۔
”تم دونوں چلو، میں درویش بابا کے پاس حاضری دے کر آیا ،ساتھ اس نے قدم
بڑھا دیئے۔۔۔۔ایاز نے گلاسسز لگاتے ہوئے کہا۔
درویش بابا؟ ہالے نے حیرانگی سے کہا ۔
ہاں وہ اکثر آتا رہتا ہے، یہاں جاتے ہوئے دکھاوں گی، ماہی نے ادھر ادھر
دیکھکر کہا:۔
کافی لوگ جا چکے تھے۔
ہممم ہالے نے اٹھکر سامان اٹھایا، اور دونوں گاڑی کی طرف چل پڑیں۔۔۔۔
★★★
ارے میمونہ آپا! آئیں آئیں آج بڑے دنوں بعد آئی ہیں، نوشابہ نے اچانک آئیں
میمونہ کو گلے لگاتے ہوئے کہا :۔
بیٹھیں انہوں نے میمونہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ہالے۔۔۔۔۔۔بیٹا ایاز کی مما آئیں ہیں، زرا چائے لے آنا۔۔۔۔۔
نوشابہ نے ہالے کو جیسے بتایا ہو ،
کئی دونوں سے سوچ رہی تھی، تمھاری طرف آنے کا گھٹنوں کے درد کی وجہ سے چلنا
پھرنا دوبھر ہو گیا ہے،
ایاز بھی کئی بار کہہ چکا ہے کہ، مما جائیں بس آنا ہی نہیں ہوا، اور تم بھی
میرا پتہ لینے نہیں آئی، بھلا ایسی ہوتیں ہیں دوستیں؟؟
میمونہ بیگم نے نوشابہ کو آڑے ھاتھوں لیا۔
آپا ناراض نہ ہوں ہالے جب سے آئی ہے، رونق سی لگ گئی ہے، کچھ نہ کچھ کرتی
رہتی ہے، اور میں ۔۔۔۔
ائے بیبی بس کر دو، بزی تو ہر کوؠی ہوتا ہے ،سارا ملبہ بیچاری بچی پر نہ
ڈالو تم، میمونہ بیگم مصنوعی خفگی جتاتے ہوئے بولیں۔
اتنے میں ہالے چائے لے آئی ۔۔۔۔ اسلام علیکم آنٹی جی ،ہالے نے احترام سے
سلام کیا۔
”ماشاءاللہ“ بہت پیاری لگ رہی ہو ہالے۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک نگاہ ھالے پر ڈالی
،بلیک پرنٹ سوٹ میں وہ بہت نکھری سی لگ رہی تھی، اونچی پونی ٹیل لگائے گلے
میں مفلر سٹائل دوپٹہ ڈالے وہ منفرد سی لگ رہی تھی،
بھئ میں تو آج بڑے خاص کام سے آئی ہوں، بڑی امید ،بڑی آس، لیکر تمہارے در
پر آئی ہوں۔۔۔۔۔
نوشابہ اور ہالے نے نا سمجھنےکے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا،
میمونہ نے بات جاری رکھتےہوئے کہا۔
نوشابہ تم میری دوست ہو آج میں تم سے کچھ مانگنے آئی ہالے کو میں بہو بنانا
چاہتی ہوں۔ ایازتمہارے ہاتھوں میں پلا بڑہا ہے، تمہارا اپنا بچہ ہے،
”الحمد لللہ“ میرے بیٹے میں کوئی عیب نہیں فرمان بردار ہے۔۔۔۔۔
اتنی بڑی بات انہوں نے سیدہے اور صاف لفظوں میں کہہ ڈالی۔
ہالے اٹھ کر اندر چلی گئی ۔۔۔۔آنی نے اسے بغور دیکھا کہیں اسے برا تو نہیں
لگا ۔
دیکھیں آپا، ہالے مستقل طور پر یہاں رہنے کے لئیے نہیں آئی ہے اور اس فیصلے
کا اختیار بھی میرے پاس نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ مجھے کچھ وقت دیجئے تا کہ میں ہالے
کے بابا اور خالو سے بات کر سکوں،اور ہالے سے بھی بات کر سکوں ،
نوشابہ نے گھبرائے سے لہجے میں کہا۔
ہاں ہاں بلکل بات کرو اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔؟۔۔۔۔میمونہ نے اسکی پریشانی
بھانپ لی۔کیا ایاز میں کوؠئی کمی ہے؟۔۔۔یا میرا سوال کرنا اچھا نہیں
لگا؟۔۔۔میمونہ فکر مندی سے بولیں۔۔۔۔
”نہیں نہیں آپا“ ایسا کچھ بھی نہیں ہے پلیز ایسا مت کہیں ایاز میرا اپنا
بچہ ہے ،بھلا میں کیوں اعتراض کروں گی ، لیکن آپا ،بات تو کرنا پڑے گی نا!
اب دیکھیں کہ ہالے کے بابا کیا کہتے ہیں۔۔اور آپ کو بھی وہاں جانا پڑے گا ۔
ہاں چلے چلیں گے ، بس جلدی سے بات کر لو ،میں اب انتظار نہیں کر سکتی
۔۔۔۔میمونہ نے سامنے پڑی ٹرے سے چائے کی پیالی اٹھا کر چائے کا سپ لیتے
ہوئے کہا۔
نوشابہ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا :۔
جی بہتر اور انہوں نے بھی چائے کی پیالی اٹھا لی۔
★★★
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں اور ایاز کا انتظار کرنے لگیں ۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر
بعد ایاز کمال آ گیا۔۔۔۔ بور تو نہیں ہوئے تم لوگ؟ ایاز نے گاڑی سٹارٹ کرتے
ہوئے ایک نظر ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہالے اور ماہین نے بیک وقت بولتے ہوئے کہا :۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔اور دونوں ایکدوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیں۔
”ہالے۔۔۔۔۔ہالے وہ دیکھو، وہ ہے درویش بابا کی کٹیا، وہیں وہ رہتے
ہیں۔۔۔ماہین نے چلتی گاڑی میں ھاتھ کا اشارہ کرتے ہوتے ہالے کو دکھایا۔
ہالے نے ماہین کے ہاتھ کے اشارے کی سمت دیکھ کر کہا ۔اچھا۔۔۔۔
بہت اچھے ہیں درویش بابا، ان کےپاس بندہ جائے نا! تو اٹھنے کا دل نہیں کرتا
،سکون ملتا ہے، ان سے بات کرکے ،میں تو اکثر آتا رہتا ہوں، وہ بھی میرا
انتظار کرتے ہیں، پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔میں جب جاتا ہوں تو مجھے دیکھ کر اکثر
رو پڑتے ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے مجھ پانی پلاتے ہیں،ایاز کھوئے کھؠوئے سے
لہجے میں بول رہا تھا۔۔۔۔۔اور وہ دونوں اسکی باتیں غور سے سن رہی تھیں۔
باتوں باتوں میں وہ گھر پہنچ گئے۔۔۔۔سنو ! ہالے تم ماہی کے پاس رک جانا،
اکیلی ہو گی نا رات میں،
” نہیں ایاز میں گھر ہی رہوں گی“ بابا کی کال آنی اور کچھ کام بھی ہے ،مجھے
تو میں بزی ہوں گی، ہالے نے صاف انکار کر دیا ۔
ماہین اپنے گھر چلی گئی، اور ہالے نے پلٹ کر گیٹ پر پڑا تالا کھولنے لگی،
ایاز نے گاڑی سٹارٹ کی اور چلا گیا ۔
★★★
بھائی صاحب! اچھا رشتہ ہے، میں چاہ رہی تھی آپ لڑکے اور اسکے گھر والوں سے
مل لیتے ۔۔۔۔
نوشابہ ابھی تو میں بزنس کے سلسے میں دبئی جارہا ہوں بچے بھی جا رہے ہیں،
تو فری ہو کہ اس معاملے کو بھی دیکھ لیتے ہیں، نثار صاحب نے نوشابہ کی بات
کاٹتے ہوئے کہا۔
کیا مطلب ہے آپ کا، ہالے بھی جا رہی ہے نوشابہ نے حیرانگی سے کہا۔
نہیں،،، نوشابہ ابھی ہالے تمہارے پاس ہی رکے گی، بعد میں بلا لیں گے، فون
رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
کیا گزرے گی ہالے پر ۔۔۔۔کیا سوچے گی بچی ۔۔۔کوؠئی فکر نہیں اس کی، نوشابہ
دکھ سے سوچ رہیں تھیں۔
”نثار صاحب“ اپنی فیملی کے ساتھ دبئی چلے گئے، کچھ دن ہالے بھی اپ سیٹ رہی
،اور پھر اپنے آپ کو مصروف کرنے لئیے اس نے جاب کے لئیے کوشش شروع کر دی ۔
”میمونہ بیگم“ کا اصرار بڑہتا جا رہا تھا ،مگر نثار صاحب ہر دفعہ بات ٹال
دیتے، اس بات سے نوشابہ بھی بہت پریشان تھیں ۔۔۔نہ وہ ہالے کو بلا رہے تھے؛
اور نہ ہی وہ اسکے لئیے کوئی فیصلہ کر پا رہے تھے ۔
”پھر ایکدن“ اچانک نثار صاحب کا فون آیا ،کہ انہیں اس رشتے سے کوئی اعتراض
نہیں لہذا! انگیجمنٹ کر دی جاؠئے،گرین سگنل ملنے کی دیر تھی، چند دنوں میں
ہالے اور ایاز کی منگنی کر دی گئی۔
ماہین پر جو قیامت گزر رہی تھی ،سب اس سے بےخبر تھے، وہ آنکھوں میں آنسو
لئیے، سب سے مسکرا کرا ملتی ہر ممکن کوشش کرتی، وہ پہلے جیسی ہی رہے، اور
شاید کسی نے محسوس کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ،کتنے ہی دن وہ روتی رہی، ہر
چیز ہر کام سے جی اکتانے لگا ، زیادہ دکھ تو اس بات کا ہوا، کہ اسکی غیر
موجودگی کو محسوس بھی نہیں کیا گیا۔لیکن! وقت سب سے بڑا مسیحا ہے، آہستہ
آہستہ اس کے بھی زخم بھرنے لگے، دیر سے ہی سہی، لیکن! اس نے اس حقیقت کو
تسلیم کر لیا کہ ایاز اس کا نہیں ہو سکتا۔
★★★
آپ نے بابا سے بات کی، ہالے نے افسردگی سے پوچھا! آنی،،،، انہوں نے میرے
لئیے دوسری شادی کی تھی ، ایسا بابا کہتے ہیں، ہالے اور آنی لان میں بیٹھیں
تھیں ، دیکھیے انکا گھر بس گیا ،اور میں بے گھر ہو گئی ،
ہالے کی آواز بھرا گئی، اور نوشابہ اسے دیکھ کر بولیں:۔ کیوں ۔۔۔۔کیوں ہو
گی بے گھر، ”بہت جلد“ تمہارا بھی گھر بس جائے گا، کتنا چاہتا ہے تمہیں ایاز
اور فضول نہ سوچا کرو ،آنے والی زندگی کے بارے میں سوچو ۔
کچھ چیزیں ادھوری رہتی ہیں آنی، میں بابا کو مس کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں گھر نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، ہالے۔۔۔۔۔ آنی نے ادھر ادھر دیکھ کر
کہا:۔ جیسے یہ بات اسکی آنکھوں میں دیکھ کر نہیں کہہ سکتیں تھیں، ہالے نے
سوالیہ نظروں سے آنی کو دیکھا۔
صیحح کہہ رہی ہوں میں، نہ تم گھر چھوڑتیں نہ۔۔۔۔۔۔
آنی؟ یہ میری غلطی ہے؟ میں اگر خفا ہوئی ہوں تو وہ مجھے چھوڑ دیں گے؟
ہالے نے آنی کی بات کاٹتے ہوئیے کہا۔
نہیں بیٹا۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ نوشابہ کچھ کہتؠیں ہالے اٹھ کر چلی گئی۔
نوشابہ اسے بے بسی سے جاتا دیکھتی رہیں۔
★★★
کافی دن ہو گئے تھے، ماہین ہالے کی طرف نہیں آئی، تو وہ خود ہی اسکی طرف
چلی آئی،
اسلام علیکم! آنٹی۔۔۔۔۔۔ماھین کی امی اسے دروازے میں ہی مل گئیں ۔
وعلیکم السلام ! جیتی رہو آؤ آؤ اندر آ جاؤ۔۔۔۔۔
ماہین کی امی نے خوشدلی سے مسکرا کر ھالے کے لئیے رستہ چھوڑ کر ایکطرف کھڑی
ہو گئیں،
”جوابا“ وہ بھی مسکراتے ہوؠئے اندر داخل ہو گئی ۔
ارے ہالے کچن سے نکلتے ہوئے ماہین نے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
پیچھے۔۔۔۔۔۔ہالے نے مصنوعی خفگی جتاتے ہوئے ماہی کو دور خود سے دور ہٹانے
کی کوشش کرتے ہوؠئے کہا:۔
ماہین کی امی محبت سے دیکھر مسکراتے ہوئے بولیں: تم لوگ کمرے میں بیٹھو میں
چائے لاتی ہوں۔۔۔
ماہین اسکا ہاتھ پکڑکر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔
★★★
ایاز اپنے کمرے میں بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک جا رہا تھا، کئی راتوں سے
وہ سے وہ سو نہیں پایا تھا، نہ گھر سے باہر نکلا مسلسل خود سے الجھ الجھ کر
بے حال ہو گیا۔
زہن میں احساس ندامت و پشیمانی کے ہتھوڑے برستے رہتے ۔۔۔۔۔۔۔کسی طرح بھی
سکون نہیں مل رہا تھا ھالے کا سامنا نہیں کر سکتا تھا ،اسی لئیے میسج کرتا
رہتا،
”معافیاں“ مانگتا رہتا ،اپنے جرم کی سزا مانگتا رہتا، ،محبت کے واسطے دیتا
رہتا ،مگر دوسری طرف سے کوئی رپلاؠئی نہ ملتا ،آخر اس نے تھک کر خود سے
فیصلہ کر لیا،اور اسی فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے، وہ تیار ہو کر بازار
چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
★★★
اب بتاؤ کدھر غائب ہو ،ہالے نے صوفے پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
”میرے رشتے کے لئیے“ کچھ لوگ، آنے والے ہیں، بس انہیں تیاریوں میں لگی رہی،
اور آ نہ سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہی نے آنکھوں میں آئے آنسو چھپاتے ہوئے کہا:۔
”اے۔۔۔۔۔ماہی۔۔۔۔۔۔ہالے نے اسکی آنکھوں میں آئے آنسو دیکھ لیئے ”پلیز“ روؤ
مت، یہ ہی حقیقت ہے، اور قسمت والی ہو ماہی۔۔۔۔۔۔۔۔
”پتہ ہے“ ایاز سے پہلے میں بھی ایسا ہی سوچتی تھی، کہ ایک دن سب چھوٹ جائے
گا، سوچ سوچ کر روتی تھی ،خدا جانے کیسے لوگ ہوں اور وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا ہو
گا۔
لیکن! تمام خدشات، میرے وہم، بے معنی نکلے۔۔۔۔۔ایاز بہت اچھی شخصیت کا مالک
ہے، سلجھا ہوا کئیؠرنگ ۔۔۔۔۔۔ پیار کرنے والا ۔۔۔۔میں اس کے ساتھ بہت خوش
ہوں۔۔۔۔۔
”ہالے اپنی سوچ کے مطابق“ اسے بہلا رہی تھی، اب وہ کیا جانے کہ اسے کیا غم
تھا ،برسوں کی محبت جسکا پھل کسی اور کی جھولی میں جا گرا ، وہ معصوم سی”
محبت “ جسکا احساس بھی نہ دلا سکی ، ہر دن اس انتظار میں گزرتا کہ آج وہ
دشمن جاں اقرار کرے گا،
” محبت کے صحرا “میں وہ برسوں سے انتظار میں رہی، جہاں بے نام چاہت نے صرف
مسافتیں دے کر اسکے پاؤں ہی جلائے، وہ کبھی منزل تک تو پہنچ نہ سکی ، رستے
میں ہی منزل کا نشاں کھو بیٹھی کوؠئی طوفان آیا ،اور سارے رستے کھو گئے، وہ
تو صرف اندازے لگاتی رہی، اور چلتی رہی۔۔۔۔۔۔۔
ماہی؟۔۔۔۔۔۔۔ہالے نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ چونکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ
خود پر قابو پاتے ہوئے بولی: میں چائے لاتی ہوں ،
اور وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ہالے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
★★★
کاششش ! ”تم میری“ زندگی میں کبھی نہ آتے ،کس قدر بد قسمت ہوں میں ،میرا ہر
فیصلہ غلط ہی ہوتا ہے ،
آنسو بہاتی ہالے بیڈ پر نیم دراز سی سوچ رہی تھی،
” نیند تو“ آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔میسج ٹون کی آواز پر وہ چونکی اور
موبائل دیکھا :تو ایاز کا میسج تھا ،اس نے میسج اوپن کیا۔
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﯾﻮﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﭼﻞ ﺩﯾﻨﺎ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﭘﺮ
،ﻣﻨﮧ ﻣﻮﮌ ﮐﮯ ﭼﻞ ﺩﯾﻨﺎ
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ؟
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﮨﮯ؟
ﺍﮔﺮ ﭘﺎﺱ ﻭﻓﺎ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﺗﻢ ﻣﺎﻥ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺘﮯ
ﺑﮯ ﻟﻮﺙ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﭘﺮ
ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺘﮯ
ﻣﯿﮟ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺘﺎ
ﺗﻢ ﺟﺎﻥ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﮨﻮ
ﺗﻢ ﺑﺎﺏ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﮨﻮ
ﯾﮧ ﺳﺐ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ
ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ
ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺷﮑﻮﺍ ﮨﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ
ﺑﺲ ﺗﻢ ﺳﮯ "ﻣﺤﺒﺖ" ﺗﮭﯽ
ﺑﺲ ﺗﻢ ﺳﮯ "ﻣﺤﺒﺖ" ﮨﮯ۔
اسنے نفرت سے موبائل ایک طرف بیڈ پر پھینک دیا اور سختی سے آنکھیں موند
لیں۔ کالز پہ کالز آتی رہیں مگر اسے کوؠئی پرواہ نہ تھی ۔
★★★
آ رہی ہوں کون ہے ۔۔۔۔۔۔؟ ڈور بیل بجانے والا شاید ہاتھ ہٹانا بھول گیا تھا
وہ تیزی سے قدم اٹھاتی گیٹ کی طرف بڑھی ۔۔۔۔۔۔ کون ہے؟
ایاز۔۔۔۔ایاز ہوں ۔۔۔۔۔۔ہالے نے گیٹ کھول کر حیرانگی سے کہا تم اسوقت؟
ہاں میں! ایاز نے اپنا چہرا ہالے کے قریب کر کے کہا۔
ہالے نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: یہ کیسی بو ہے؟شر۔۔۔۔۔شراب؟ ایاز شراب
پی ہے تم نے؟
ایاز اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے گھورتے ہوئے بولا: ہاں !میں نے شراب پی ہے،
اور وہ اس لئیے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر پایا اور لڑکھڑانے لگا تھا
،
بارش شروع ہو گئی تھی ہالے بمشکل اسے سہارا دے کر اندر لے آئی اور اپنے روم
میں بیڈ پر بٹھایا اسے غصہ آ رہا تھا ،ایاز نے یہ کیا حرکت کی ہے،
۔۔۔۔۔۔۔وہ بیڈ پر گرا تھا ۔۔۔اور اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”ہالے اپنے گیلے کپڑے دیکھ کر بولی:۔
آتی ہوں، میں چینج کر لوں۔۔۔۔۔۔۔۔
ایاز تیزی سے اٹھا اور اسکے سامنے آ کر بولا:۔ ۔۔نہیں ایسے ہی پیاری لگ رہی
ہو، اس نے ہالے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا ،اور وہ پوری اس کے سینے
سے جا لگی ۔۔۔۔۔
چھوڑو ۔۔۔۔۔ایاز کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔چھوڑو مجھے وہ اسکی گرفت میں مثل ماہی
بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی اسکی گرفت اور مضبوط ہوتی جا رہی تھی،
وہ سفاک قاتل کیطرح لگ رہا تھا، جس کا مقصد صرف قتل تھا ۔۔۔۔محبت کا قتل
خوبصورت جذبوں کا قتل حسین خوابوں کا قتل قتل قتل اور بس قتل ۔۔۔۔
ایاز پر تو جنون طاری تھا، لگتا وہ سماعتوں سے محروم شخص تھا، جسے ہالے کی
چیخ و پکار سنائی نہیں دے رہی تھی ،اس کے آہنی شکنجے سے
ہالے نکل نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔۔درد اور ازیت نے ہالے کو بے حال
کردیا،بادلوں کے گرجنے سے لگ رہا تھا ، ہر چیز لرز کر زمیں بوس ہو جائے گی،
تیز ہوائیں کھڑکیوں کے بند شیشیوں سے سر پھوڑ رہیں تھیں،
جیسے آنے والے طوفان کو دور لے جائیں مگر! طوفان اس قدر زور آور تھا، کہ
اپنی لپیٹ میں ہر چیز کو ریزہ ریزہ کرتا چلا گیا ، اور بے بس سی ہالے اپنے
بکھرے ہوئے زات کے ریزے بھی اٹھانے کے قابل نہ تھی، خوابوں کے ٹوٹتے شیشے
آنکھوں میں چھبنے لگے ،محبت کی چھری نے اسی کا دل کاٹ ڈالا تھا ،۔
اسے اپنی روح کرب و ازیت میں مبتلا جسم چھوڑتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالے چیخوں کی آواز سن کر جاگی تھی ۔
”آنکھیں کھلیں“ تو چھت کو دیکھ کر جلدی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی ”سامنے
ڈریسنگ ٹیبل“ کے شیشے میں اپنا عکس دیکھ کر، اس نے اپنی بہتی آنکھوں کی
دراز پلکوں کو بے دردی سے رگڑ ڈالا ، وہ اٹھی اور شیشے پر نظریں جمائے اس
نےشیشے میں غور سے اپنے ہی ابھرنے والے عکس کو دیکھا: کاجل پھیل کر حسین
رخساروں پر کالک مل چکا تھا، اس نے ہاتھ کی پشت سے اسے سارے چہرے پر مل
دیا۔
”ابھی وہ شاید مزید کچھ کرنے کا سوچتی کہ دروازے پر دستک ہوئی” اس نے چونک
کر دیکھا : اور دروازے کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد دروازہ کھلتا چلا
گیا” سامنے ایاز کھڑا تھا” اجڑا اجڑا، بکھرے، بے ترتیب بال، سرخ آنکھیں
،لئیے ملگجے کپڑوں میں، وہ تو کوؠئی اور ہی ایاز تھا۔۔۔۔۔۔
”وہ آہستہ آہستہ “چلتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل تک آیا، اور ایک شاپنگ بیگ رکھا۔
ہالے ڈری سہمی سی، پیچھے ہٹنے لگی، یہاں تک کہ دیوار سے جا لگی،
ایاز اس کے قریب آ کر اس کے قدموں میں بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا، اور وہ خوف
سے کانپ رہی تھی۔
میں جی نہیں پا رہا۔۔۔۔۔۔۔سانس نہیں آ رہی۔۔۔۔۔۔۔ایاز اسکی آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے بولا:۔
دم گھٹتا ہے میرا،وہ اب اسکی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑکر اس سے لپٹ کر
خاموشی سے آنسو بہا رہا تھا، وہ اس سے اپنا آپ چھڑانے لگی ، مگر وہ اسی
پوزیشن میں بیٹھا رہا،
”مجھے“ معاف نہ کرنا میں ۔۔۔۔۔۔۔۔تم سے چاہے کتنی معافیاں مانگتا
رہوں۔۔۔۔۔۔۔۔مت معاف کرنامیرا یہ جرم ناقابل معافی ہے ہالے۔۔۔۔۔۔۔وہ بھیگے
لہجے میں بول رہا تھا میں تم سے معافی مانگ رہا ہوں یہ میرا فرض ہے مجرم
ہوں کسی کمزور لمحے میں۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت بڑی خطا کردی۔۔۔۔۔۔سب کچھ ختم کر
دیا ،اپنی دنیا کو میں نے اپنے ہاتھوں آگ لگا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مضبوط ہاتھوں کی
گرفت اب کمر کے گرد ڈھیلی پڑنے لگی ۔۔۔۔لیکن میں تمہارے بنا جی نہیں سکتا
اس لیؠئے اپنے جرم کی سزا میں نے خود تجویز کر لی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ
چھوٹ گئیے اور ہالے کو لگا، اس کے جسم کا کوئی حصہ گرا ہو، اس نے نیچے
دیکھا تو تو ایاز سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔۔
میں تمہارے لئیے کچھ لایا ہوں ، قبول کرو تو زندگی۔۔۔۔۔۔ایاز کھڑے ہوتے
ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ کرو تو موت۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاس کل کا دن ہے ، کل شام
چار بجے فیصلہ ہو جائے گا، تمہارے مجرم کا۔۔۔۔۔۔
ایاز اب اسکی جانب پشت کرتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہا تھا ،پہلی بار ہم چار
بج کر نو منٹ پر ملے تھے، یہی ٹائم جدائی کا ہو گا، اور وہ تیزی سے باہر
نکل گیا۔
وہ تھکے تھکے قدموں سے چلتی بیڈ پہ آ بیٹھی دونوں ہاتھوں سے گدے کو پکڑے وہ
اپنی مٹھیاں بھینچے رو رہی تھی اسی وقت آنی کی کال آیی ۔ ”اسلام علیکم!
بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔وعلیکم السلام! آنی ۔۔۔۔۔۔ کیسا ہے میرا بچہ ۔۔۔۔۔۔آنی نے پیار
بھرے لہجے میں کہا ۔
پتہ نہیں آنی ۔۔۔۔۔۔بس آپ آ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہالے نے بھرائے لہجہے میں
کہا۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے تم مس کر رہی ہو مجھے، میں کل رات تک آ رہی ہوں بچے پریشان
نہیں ہونا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہالے نے فون رکھدیا ۔
★★★
” اس نے ایک نظر شاپنگ بیگ پر ڈالی، جو ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا تھا ،اور پھر سے
بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گئی ،کب نیند کے رتھ پہ سوار ہو کر جانے کن
سوچوں کی گلیوں میں دور نکل گئی، کچھ پتہ نہ چلا ۔
فون کی رنگ ٹون بجتی جا رہی تھی، وہ آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی اور کال اٹھائی
۔۔۔۔۔۔
ابھی سو رہی ہو ہالے نو بج گئے ہیں میں دروازے پر کھڑی ہوں ۔۔۔۔۔ دروازہ
کھولو بھئ ۔۔
ہالے بکھرے بالوں میں ہاتھ سے جوڑا بناتی، دروازے کی طرف بھاگنے والے انداز
میں چلتی گئی، اس نے گیٹ کھولا اور ایکطرف ہو گئی، ماہی اندر آ بولی تم
ٹھیک ہو؟
ہاں میں ٹھیک ہوں “ہالے نے سر ہلاتے ہوئے کہا وہ ”دونوں روم میں آ گئیں۔
ماہی نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا شاپنگ بیگ میں جھانکا اور اس میں پڑا سرخ عروسی
لہنگا جس پہ نفاست سے کیا گیا بیٹس کا کام جھلملا رہا تھا باہر نکال
لیا۔۔۔۔۔ ہائے ہالے کتنا پیارا ہے ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔۔ایاز کی پسند کی
تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔۔۔ماہی کے حلق میں بات اٹک گئی۔۔۔۔۔۔
تو تمیہں سب پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ہالے دکھ سے کہتے ہوئے اسے حیرت سے دیکھ رہی
تھی۔۔۔۔۔۔
ماہی لب بھینچے بے بسی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
بولو؟ تمہیں پتہ ہے نا؟ جانتی ہو ناں اس نے کیا کیا میرے ساتھ جانتی ہو
ناں؟ ھالے ماہی کو جنجھوڑ رہی تھی۔۔۔منتظر سی سوالیہ نظروں سے اسے دونوں
ہاتھوں سے پکڑے وہ ماہی کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔
مجھے رات ہی ایاز نے بتایا تھا اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اس نے
ھالے۔۔۔۔۔۔اور سب سے پہلے تمہارے پاس آئی ہوں ۔۔۔۔۔۔وکالت کرنے؟ ھالے نے
اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
”نہیں ہالے“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز اسے سمجھنے کی کوشش کرو ،وہ ایسا نہیں ہے، ماہی
نے صفائی دینا چاہی۔
ہاں وہ ایسا نہیں ہے، وہ واقعی ایسا نہیں ہے۔
وہ۔۔۔۔۔۔ہالے نفرت سے دانت پیستے ہوئے بول رہی تھی۔ وہ انسانی کھال میں
چھپا بھیڑیا ہے،موقع ملتے ہی چیر پھاڑ دیتا ہے وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ ہے ماہی گھن
آتی ہے ۔۔۔۔نفرت ہو گئی ہے مجھے اپنے آپ سے ۔۔۔۔شکر کرو ۔۔۔۔۔۔ماہی شکرو تم
اس بھیڑیے سے بچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اب سر پہ ہاتھ رکھے مسلسل کمرے میں چکر لگا
رہی تھی ۔
”ہالے جو غلطی تسلیم کرتے ہیں، وہ لوگ بہتر ہوتے ہیں ،غلطی کو تسلیم کرنے
کے لئیے بڑی ہمت اور حوصل چاہیے، اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہے ہالے۔
کہیں ایسا نہ ہو ،سب ختم ہو جائے۔۔۔۔۔ماہی اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کر
رہی تھی۔
”بہت محبت ہے نا !تمہیں ایاز کمال سے ماہی؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالے کھوؠئی کھوئی سی ماہی کو دیکھ کر بولی ۔۔
نن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ہالے!ماہی نے گھبراتے ہوئے کہا۔
” جھوٹ مت بولو ماہی“۔۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں ،لیکن! میں سوچ رہی تھی کہ جب
تمہیں اسکی اصلیت کا پتہ چلا تو کتنا دکھ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔مگر
میں غلط تھی تم تو اسکی وکیل بن کر آ گئی ایک دوست کی نظر سے تم نے دیکھا
ہی نہیں میرے درد کو سمجھا ہی نہیں ھالے گھٹنوں میں سر دیئے اب رو رہی تھی
اس نے چلتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل سے لہنگا اٹھا کر اس کے پاس رکھتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔۔ھالے آج وہ تمارا انتظار کرے گا، درویش بابا کے پاس،
آج نکاح ہے تمہارا، تیار ہو جاؤ بس کچھ گھنٹے ہی بچے ہیں ،ایسا نہ ہو ،سب
ختم ہو جائے، وہ فیصلہ کر چکا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں کہنا بس ڈر لگ
رہا ہے۔
”ماہی انجانے خوف سے گھبرا رہی تھی، اس نے اسے اپنے ساتھ لگا کر اسکے بال
سنوارنے لگی۔۔۔۔۔وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹ کر بولی :
لے جاؤ میں نہیں آؤنگی اور شادی کا جوڑا اٹھا کر دور پھینک دیا ۔
ماہی نے بے بسی سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔اور جوڑا اٹھا کر ٹیبل پر رکھ کر چلی
گئی۔۔۔۔۔
کافی دیر وہ اپنے کمرے میں خود پر محو ماتم کناں رہی آنسو خشک ہو گئے، کوئی
درد کا قصیدہ تھا، کہ اسکی روح، اسی درد میں محو و مست ہو گئی، ”اسکی
سوچیں“ ختم ہو گئیں ، خالی خالی نظریں سے غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔
”دل بغاوت پہ آمادہ تھا “کہتا رہا ہالے بھول جا سب، اسکے بنا کیسے رہے گی
،معاف کردو اسے، دھڑک دھڑک کر سینے کی دیواریں ہلاتا رہا ،پر ہالے ایک
مجسمے کی طرح تھی بے جان ۔۔۔۔۔۔۔پھر ایک جھماکا سا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
آئی لو یو ہالے۔۔۔۔۔۔۔۔لو یو۔۔۔۔۔ایاز کا ہسنتا مسکراتا چہرا اس کے سامنے
تھا ،کچھ دن پہلے ہی تو اس نے یہ الفاظ دہرائے تھے، اس نے مو بائل دیکھا،
کوئی میسج ،کوئی کال نہ تھی، ایک دہڑکا سا لگا تھا ،اسے اب بے چینی ہو رہی
تھی، ٹائم دیکھا تو دوپہر کے دو بج رہے تھے، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی، کیا
کرے عجیب سی کیفیت عجیب سی بےچینی۔۔۔۔۔۔۔
”یہ ہی حالت ماہین کی تھی“ وہ بار بار ٹائم دیکھ رہی تھی، کتنی بار ایاز کا
نمبر ملایا، مگر اٹھا نہیں رہا تھا، وہ ایاز کو یاد کر کے روئے جا رہی تھی
، بالآخر تھک کر ھالے کے پاس جانے کا فیصلہ کر کے وہ ھالے کے گھر کی طرف
نکل پڑی۔۔۔۔۔۔۔
”ہالے نے ٹائم دیکھا تو چار بجنے والے تھے، وہ اٹھی اور ایاز کا لایا جوڑا
زیب تن کیا، وہ کانپتے ہاتھوں سے جوڑا سیٹ کر رہی تھی، جب ماہی آ گئی ،وہ
فورا اس کے پاس آ کر مدد کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔جلدی کرنا ہوگا، ہالے نے دھیرے سے
سرگوشی کی،ماہی نے رک کر اسے دیکھا:۔
اور پن لگا کر بولی ہو گیا ”چلو گاڑی نکالو، اور دونوں درویش بابا کی طرف
نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گاڑی کی سپیڈ بڑہاتی جا رہی تھی، اور ماہی ٹائم دیکھ کر ہول رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔ہالے چار بج گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ماہی نے بھرائے لہجے میں کہا:۔
آ گئے پیچھے ہے روکو گاڑی، ماہی نے اسے رکنے کو کہا: پہنچتے ہی دونوں
بھاگتیں ہوئیں درویش بابا کے پاس پہنچیں ۔
دونوں نے ادھر ادھر دیکھا سوائے درویش بابا کے اور کوؠئی نہ تھا، وہ سجدے
میں تھے ،دونوں نے فکرمندی سے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔
”بابا نے سجدے سے سر اٹھایا، اور دعا کے لئیے ہاتھ بلند کیے، دعا کر کہ وہ
بھیگی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھنے لگے، ماہی بیٹھتے بولی : بابا ایاز
نہیں آیا؟
”بابا نے مٹی کے پیالے کو اٹھاتے ہوئے کہا :۔
آیا تھا، بیٹھا رہا ،کہتا تھا ،سینے میں جلن ہے، بار بار پانی پیتا رہا،
بہت پانی پیا بہت۔۔۔۔۔
”ٹائم دیکھا چار بجکر دس منٹ ہو چکے تھے۔
“ ہالے باہر آ کر دریا کی طرف دوڑنے لگی، دریا کے پاس پہنچ کر وہ نیچے
اتری، جہاں گیلی ریت تھی، چاوروں طرف نظر دوڑاؠئی، مگر وہ کہیں نہ تھا،
ایکطرف اسے پاؤں کے نشان نظر آؠئے وہ انہی پر چلتی چلی گئی، اسے اب اپنے دل
کی دھڑکن رکتی محسوس ہو رہی تھی ،وہ ایاز کو پکارنے لگی، چلتے چلتے وہ دریا
میں اترنے لگی، آج اسے ڈر نہیں لگ رہا تھا، وہ بے خوف و خطر آگے بڑھ رہی
تھی۔
ایاز اسے اب دکھنے لگا تھا ،جو اچانک پانی میں غائب ہو رہا تھا ،اسی کے
تعاقب میں آگے بڑہتی جا رہی تھی، ایک تیز لہر آؠئی، اس بہا کر لے گئی، تیز
لہروں نے ہالے کا سرخ دوپٹہ کنارے پر اچھال دیا۔ |