جاوید ایک آٹھ سالہ بچہ تھا اور ایک چھوٹے سے گاؤں کا
رہائشی تھا۔ جاوید اپنے گھر میں سب سے بڑا تھااور اس کے پانچ بہن بھائی تھے
۔باپ کوئ کام نہی کرتا تھا سارا دن چارپائی پہ نشے میں دھت پڑا رہتا
تھا۔ماں سارا دن بہن بھائوں کو سنبھالتی تھی , جب کبھی تین تین گزر جاتے
اور گھر کے چولہے میں آگ نہی جلتی، تو ماں کسی کے گھر میں جھاڑوں اور کسی
کے کپڑے دھوتی ،کچھ دن اچھے گزر جاتے ۔جاوید کا باپ اکثر اس کے منہ کو
چانٹوں سے سرخ کردیتا ،جب وہ باپ کو اس کی زمہ داریوں کا احساس دلاتا۔تنگ
آکر جاوید نے خود مزدوری کی ٹھانی ۔
جاوید ایک نیک بس ڈرائیور اللہ دتہ کو جانتا تھا جس نے اس کی پریشانی سن کر
مدد کرنے کا وعدہ کیا ،وہ اس کو روزانہ اپنے ساتھ شہر لے جاتا اور شام کو
واپس لے آتا تھا۔ جاوید سارا دن شہر میں مارا مارا پھرتا اور کام کے لیے
کبھی کسی کی منت سماجت کرتا ،کبھی کسی کی۔ لیکن ہر دفعہ لوگ مار پیٹ کرکے ،چور
کا بچہ کہہ کے دھکے دے کر نکال دیتے ۔ لیکن جاوید نے کھبی بھی ہار نہی مانی
۔وہ روزانہ مار کھاتا, گالیاں کھاتا لیکن روزانہ کام حاصل کرنے کی کوشش
کرتا ۔۔کبھی بھیک نہی مانگتا ۔ کبھی کچھ نہی ہوتا تو چھوٹے چھوٹے اخبار کے
ٹکرا ذمین سے پکڑتا اور ان کو پڑھنے کی ناکام کوشش کرتا دیکھائی دیتا۔
ایک دن جاوید بیٹھا ایک اخبار کے ٹکڑے کو پڑھنے کی ناکا م کوششوں میں تھا
کہ کسی کی آواز آئی ۔۔اوے بچے بات سنو ۔۔ جاوید نے نظر اٹھائ تونظر ایک
کالے رنگ کی گاڑی پہ پڑی۔ ایک سفید ٹوپی اورسفید کپڑوں میں کوئی آدمی تھا۔
شاید ڈرائیور تھا۔ اس کے پیچھے والی سیٹ پہ ایک آدمی تھا جو کہ اس کی طرف
دیکھ رہا تھا ۔ سفید ٹوپی والے نے پھر آواز لگائی ۔۔۔
"بچے بات سنو ۔ صاحب تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔۔جاوید آگے بڑھا اور پوچھا:
"کوئی کام ہے صاحب! ۔
سفید ٹوپی والے نے کہا ۔۔ صاحب پوچھتے ہیں کیا پڑھتے ہو اس اخبار کے ٹکڑے
میں؟
جاوید نے جواب دیا, “صاحب پڑھنا نہی آتا صرف تصویر دیکھ رھا ہوں”.
سفید ٹوپی والے نے پھر کہا: "صاحب پوچھتے ہیں کیا دیکھتے ہو تصویر میں”؟.
جاوید نے دوبارہ ایک نظر اخبار کے ٹکڑے پر ڈالی اور بولا:
بس میں دیکھتا ہوں کہ ایک سفید داڑھی والا آدمی ہے اور بہت سے بچے ہیں ایک
بچہ اس کی گود میں ہے ۔سب بچے خوش دیکھائی دیتے ہیں اور میں آدمی کے منہ پہ
ایک عجیب سی خوشی دیکھتا ہوں”۔
کچھ دن گزر گئے اس بات کو اور جاوید اسی طرح شہر آتا رہا ۔کبھی مار اور
کبھی گالی کھاتا رہا ۔ ایک دن اسی طرح اخبار کا ٹکڑا لیے بیٹھا تھا کہ آواز
آئی
اوے بچے بات سنو۔۔ جاوید نے نظر اٹھائی تو وہی کالی گاڑی اور سفید ٹوپی
والا آدمی تھا۔ جاوید نے کہا :
"جی صاحب !۔
سفید ٹوپی والے نے کہا :
" میرا صاحب پوچھتا ہے تمیں کام چاہیے “
جاوید نے فوراً جواب دیا “ جی صاحب کروں گا” اتنے میں گاڑی کے پیچھے والا
شیشہ کھلا اور ایک آدمی جو کہ خوش شکل دیکھائی دیتا تھا اور کوئی پچاس کے
قریب عمر ہو گی۔ اس آدمی کے اشارے پر جاوید اس کی طرف بڑھا اور پوچھا
"صاحب مجھے کیا کرنا ہو گا”
اس آدمی نے جاوید کو ایک کاغذ دیا اور کہا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ اس سکول
میں چلے جاؤ اور ان کے پرنسپل کو یہ کاغذ دینا اور وہ تمیں تمھارا کام
سمجھا دیں گے۔"
جاوید نے کاغذ پکڑا اور کچھ دیر کاغذ کو گھورتا رھا اور کچھ کہنے کے لیے
اپنی نظر اٹھائی ہی تھی کہ گاڑی دور جا چکی تھی۔
اگلے دن جاوید وہ کاغذ لے کر اسی سکول پہنچا اور کاغذ دے کر بولا “صاحب
مجھے کام چاہیے, میں ہر قسم کا کام کر لوں گا۔ آپ کو کبھی کوئی شکایت نہی
ہوگی” جاوید نے جس آدمی کو کاغذ دیا وہ اس سکول کو چلاتا تھا۔اس کا نام
محمد بشیر تھا. بشیر نے جاوید کو کرسی پہ بٹھایا اور جواب دیا:
"بچے تمہارا کام ہے کہ تمھے اس سکول میں روزانہ آنا ہے اور پڑھنا ہے۔میں
تمیں اس کام کے روزانہ پچاس روپے دوں گا۔ اور اگر تم دل لگا کے یہ کام کرو
گے تو میں تمہاری دیھاڑی بڑھا دوں گا۔"
جاوید کچھ دیر کے لیے سر جھکا کہ بیٹھا رہا ۔اس کی آنکھیں آنسوں سے تر تھیں
اور منہ میں الفاظ نہی تھے ۔ بشیر صاحب نے جاوید کو گلے لگایا اور کہا :
"بچے تم کام کی تلاش میں تھے اور ہم نے تمیں کام دے دیا اب تم دل لگا کے
کام کرو اور پھر جب تم اس قابل ہو جاؤں کہ دوسروں کو کام دے سکوں, تو دل
کھول کے دوسروں کو کام دینا ۔ "
جاوید کو وہ تھپڑ یاد آئے، جو اس کے باپ نے اس کے رخسار پر بارہا بار مارے
تھے۔مگر آج رب کریم نے اس کی سن لی تھی۔اس نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ کسی مقام
پر پہنچ گیا تو غریب بچوں کے لئے ایک مفت سکول ضرور بنائے گا ،اور ایک
دستکاری سکول بنائے گا جس میں بچوں کو ہنر سکھائے گا تاکہ کبھی کسی بچے کا
منہ دوبارہ تھپڑوں سے سرخ نہ ہو۔
اللہ تعالی ہم سب کو دوسروں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرماے آمین۔ |