بھوک

 تحریر ۔عائشہ یاسین ، کراچی
اس نے اس کو بے دردی سے تھپڑ مارا تھا اور اس کا ننھا سا وجود تڑپ کے رہ گیاتھا۔ ہر روز کی طرح اس نے کمال سے روٹی ہی تو مانگی تھی بڑی امید سے کہ صاحب جی تندور سے اتری گرم گرم روٹی اس کی چمکتی آنکھوں کو دیکھتے ہی خرید کے دے دیں گے۔ لیکن آج کمال کچھ الجھا الجھا تھا۔ گھر پر اس کی بیوی سے لڑائی ہوئی تھی اور وہ اس طعنے کسنے دے کر اس کی کردار کشی کر کے اپنے امیر بھائی کے گھر کبھی نہ لوٹ کر آنے کا کہہ کے چلے گئی تھی۔ سارا دن اس کو اپنی بیوی کی باتیں ستاتی رہی۔اس کا اک اک لفظ نشتر بن کر اس کے سارے جسم کو اذیت دیتا رہا تھا۔اسی اثنا میں امان کے فون نے اس کو سنبھلنے کا موقع دیا اور اس کی اداس آواز کو سن کر وہ فورا ہی کمال کے گھر آ پہنچا۔
'' کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے یار۔ بھابھی گئی ہے تو آ بھی جائے گی اس میں ٹینشن والی کیا بات ہے؟ '' امان نے بڑی لا پروائی سے کہا۔
''اب آئے نہ آئے مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔'' کمال نے افسردگی سے کہا۔
'' اب ایسا بھی نہیں یہ عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ان کو کب اپنے شوہر کی فکر ہوتی ہے۔تم سکون کرو۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کچھ دن آزادی مناؤ۔ موج مستی کرو۔'' یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں تھی اور وہ نہ جانے کیا کیا کہتا رہا پر کمال کے دماغ میں سلما کے لگائے گئے الزام کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔
کب امان آیا اور کب گیا کمال کو پتہ ہی نہ چلا۔
صبح اس کے آنکھ دیر سے کھلی۔وہ دن بھر کا تھکا معلوم ہوتا تھا۔اس نے سرسری نظر گھر پر ڈالی تو گھر کی ساری ترتیب خراب ہوچکی تھی۔ وہ اپنے الجھے ہوئے خیالات کو جھٹک کر آفس جا پہنچا۔
''کیسا ہے کمال؟''فون کے دوسری جانب امان تھا پر اس کی آواز کچھ گری گری سی لگ رہی تھی۔
'' میں تو ٹھیک ہوں۔پر تمہاری آواز کو کیا ہوا۔ خیر تو ہے؟ '' کمال نے تجسس سے پوچھا۔
'' کچھ نہیں یار! یہ تو روٹین کی بات ہے۔ '' امان نے لاپروائی سے جواب دیا۔
'' آفس سے واپسی کب تک ہے۔ میں گھر آکے سب بتاتا ہوں؟'' امان نے کمال سے گھر آنے کا وعدہ کیا اور فون بند کردیا۔
کمال کام میں اس قدر الجھا تھا کہ اس کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ خود کو کچھ ہلکا محسوس کر رہا تھا۔سارا دن کام اور مصروف رہنے کی وجہ سے اس کے دماغ کی الجھن میں کمی آئی تھی۔ اس نے اپنے ڈیسک سے اٹھتے ہوئے اپنی فیملی کی تصویر دیکھی جو اس نے بڑے پیار سے فریم کروا کے اپنے آفس کی ٹیبل پر سجائی ہوئی تھی۔
''میں اتنا برا بھی نہیں ہوں سلما!'' کمال نے بڑے کرب سے سوچا اور فریم کو واپس اس کی جگہ پر رکھ کے گھر کی طرف نکل گیا۔
وہ انہی سوچ میں الجھا جب گھر کے قریب پہنچا تو امان پہلے سے اس کا منتظر تھا اور پارکنگ میں اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ اپنی گاڑی سے نکلا اور گرم جوشی سے اس کو گلے لگالیا۔
کمال کو اس کا جوش دیکھ کے حیرت ہوئی۔وہ اس کو لاونج میں بٹھا کر فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے میں آگیا۔ بے ترتیب سامان کے بیچ خود کو ترتیب دے کر لاونج کی طرف آیا تو اس کو امان کے ساتھ کوئی انجان وجود کا احساس ہوا۔ کمال کو دیکھتے ہی اس لڑکی نے کھڑے ہوکر اپنا تعارف کراتے ہوئے کمال سے ہاتھ ملا یا تھا۔ کمال نے حیرت سے امان کی طرف دیکھا اور خاموشی سے ٹیبل پر سجے کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ امان اور وہ انجان لڑکی جس نے اپنا نام جولی بتایا تھا کافی خوشگوار موڈ میں باتیں کرتے رہے اور جام کا دور چل نکلا۔
''میں اپنے کمرے میں ہوں۔'' کمال یہ کہہ کر اٹھنے لگا تو جولی نے بڑی دلربائی سے اسے روکا اور کمال نہ چاہتے ہوئے بھی امان کے دئے ہوئے گلاس کے لیے انکار نہیں کرسکا اور جب اس کی آنکھ کھلی تو دروازے کی گھنٹی بجے جا رہی تھی۔
اس کا سر اب تک بھاری تھا اور امان اور جولی نا جانے کب گھر کا دروازہ کھلا چھوڑ کر جا چکے تھے۔
کمال نے اٹھنا چاہا پر وہ کالی آنکھ والی دس سال کی بچی گھر کا دروازہ کھلا پاکر خود ہی اندر اگئی۔
''صاب جی!صاب جی!'' بچی نے کمال کا ہاتھ پکڑ کے آواز دی۔
'' کیا ہے جا چلی جا!'' کمال کی آنکھیں بند تھیں۔
''صاب جی اٹھو روٹی دلاو نا!'' وہ بولی۔
وہ بری طرح کمال کو جھنجوڑ کر بولتی گئی۔
'' تو جاتی کیوں نہیں جا نکل یہاں سے۔'' کمال نے غصے سے بولا۔
''صاب!صاب!''
وہ بولتی رہی۔
اس لال لباس میں ملبوس گندے بالوں والی بچی کمال کو اٹھائے جارہی تھی کہ اچانک کمال کی تھپڑ نے گھر میں پھیلی خاموشی کو چیڑ ڈالا۔ کالی آنکھوں میں سے حسرت اور امید جاتی رہی۔ اور نفرت بھرا پانی امڈ پڑا۔
'' تم بہت برے ہو صاب!تم بہت خراب ہو صاب!تم اچھے نہیں!'' یہ کہتے ہی بچی جیسے ہی واپس پلٹی کمال کے اندر کی نفرت کا طوفان ابھر آیا۔اس نے بے دردی سے بچی کو پکڑا اور نشے کی وحشت میں اس کی اواز میں اپنی بیوی کے الفاظ پا کر اس کی آواز ہمیشہ کے لئے گھونٹ کر اپنا غصہ نکال باہر کیا۔
جب ہوش آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔وہ کالی آنکھیں پتھر کی ہوچکی تھیں اور ان میں تیرتا پانی کسی وحشی کی پیاس بجھا چکا تھا پر اس سرخ لباس والی بچی کی ہاتھوں میں روٹی کے ٹکڑے زمین پر بکھر چکے تھے اوربھوک کی وحشت کی تمازت سے کمرہ دہک رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 73050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.