٢٩ نومبر ٢٠٠٣ کی خوش گوار صبح تھی موسم کہر آلود تھا۔
ذرا سی خنکی بھی تھی۔ تقریباً ٩ بجے صبح میں اپنی بچی سمتا کو گود میں لیے
کان پور سے لکھنو جانے والی بس میں بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی اور مسافروں نے اپنا اپنا ٹکٹ بنوانا شروع کیا۔
میں نے بھی ٹکٹ بنوانے کے لیے اپنا پرس کھولا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ جو روپے
میں نے رکھے تھے، وہ اس میں نہ تھے۔ ہا تھ پاؤں پھولنے لگے، سانسیں تیز تیز
چلنے لگیں، بار بار پرس الٹتی پلٹتی رہی، بمشکل تمام کل بتیس روپے نکلے،
جبکہ کرایہ اڑتیس روپے تھا۔
اب کنڈیکٹر شور مچانے لگا کہ کس نے ٹکٹ نہیں بنوایا ہے۔ میں ڈری سہمی اٹھی
اور کنڈیکٹر کو ٣٢ روپے تھما کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر
دیکھنے لگی کنڈیکٹر تیز تیز چیخنے لگا کہ پورے پیسے لاؤ۔ میں بالکل خاموش
تھی، کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ طرح طرح کے خیالات دل و دماغ پر چھائے ہوئے
تھے۔
بس گنگا ندی پر سے گزر رہی تھی کہ کنڈیکٹر نے پھر کہا کہ پورے پیسے لاؤ،
ورنہ بس سے اتر جاؤ اور اس نے بس رکوا دی۔ مجھے اترنے کے لیے بار بار کہہ
رہا تھا۔ پوری بس میں سناٹا چھایا ہو ا تھا۔ سارے پسینجر مڑ مڑ کر میری طرف
دیکھ رہے تھے اور میں مارے شرم کے سردی میں بھی پسینے پسینے ہو رہی تھی۔
اتنے میں ایک صاحب جو کالی شیروانی زیب تن کیے ہوئے ڈرائیور کے پیچھے والی
سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، نے کنڈیکٹر سے پو چھا :کیا بات ہے ؟ اس نے
جواب دیا : ارے یہ میڈیم پورے پیسے نہیں دے رہی ہیں، اور اتر بھی نہیں رہی
ہیں۔ انہوں نے اچٹتی نظر سے میری طرف دیکھا اور پھر کنڈیکٹر سے پوچھا :
کتنے روپے کم ہیں ؟اس نے بتایا، چھ روپے کم ہیں۔ ان صاحب نے دس روپے کا نوٹ
دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے لے لو اور پھر بس چل پڑی۔
بس تیز رفتاری سے درختوں، مکانوں اور دکانوں کو پیچھے چھوڑتی بھاگی جا رہی
تھی اور میں قدرے اطمینان سے مختلف احساسات و خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔
لکھنو آگیا اور میں جھٹ سے بس سے اتر کر کنارے کھڑی ہو گئی، سوچا کہ ان
بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر لوں۔ جب وہ صاحب اترے تو میں نے آگے بڑھ کر ان
کا شکریہ ادا کیا اور اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ
صاحب بولے:'' ارے ! کوئی بات نہیں ہے۔ اور جانے لگے، پھر اچانک مڑ کر پوچھا
کیا بات ہوئی تھی؟ ان کا یہ سوال غالباً اس لیے تھا کہ میں دیکھنے میں
خوشحال لگ رہی تھی۔ بہترین لباس اور زیورات پہن رکھے تھے۔
میں نے بتایا کہ بھائی صاحب! گھر سے نکلی تو خیال تھا کہ پرس میں روپے ہیں،
مگر معلوم نہیں کیا ہوا۔ انہوں کہا کہ ایسا ہو جاتا ہے۔ آپ کو جانا کہاں
ہے؟ میں نے بتایا کہ حسین گنج میں رہتی ہوں، پیدل چلی جاؤں گی۔ انہوں نے
کہا کہ بچی گود میں ہے، بیگ بھی وزنی معلوم ہوتا ہے (جو واقعی وزنی تھا) آپ
یہ روپے لے لیجیے اور رکشا سے چلی جایے اور بیس روپے کا نوٹ میری طرف
بڑھایا۔ میں نے پہلے معذرت کی، مگر انہوں نے زبردستی وہ نوٹ مجھے دیا اور
چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میں نے رکشا لیا اور اپنے گھر پہنچ گئی، لیکن دل میں ایک
ایسا نقش بیٹھ چکا تھا کہ اب کبھی مٹ نہیں سکتا تھا۔ شام کو اپنے شوہر امیت
کمار کو پوری داستان سنائی۔ وہ بھی بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کا
نام، پتا اور فون نمبر وغیرہ لے لیا ہوتا۔ مجھے بھی بڑا افسوس ہوا کہ
یقیناً نام، پتا معلوم کر لینا چاہیے تھا، مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت
میری عقل گم تھی۔ اب دن رات بار بار یہی بات سوچتی اور دل چاہتا کہ کاش
ایسے بھلے انسان سے پھر ملاقات ہو۔ کئی دن گزر گئے، میں اور میرے شوہر اکثر
تذکرہ کرتے، ان کو یاد کرتے، راہ چلتے نظریں انہیں تلاش کرتیں۔
بہت سے ایسے افراد جب شیروانی، ٹوپی اور داڑھی میں دکھائی دیتے تو امیت
کہتے: ان میں سے پہچانو، مگر اب وہ کہاں ملتے؟
تقریباً تین ماہ بعد ایک روز ہم دونوں مارکیٹنگ کرتے ہوئے کچہری روڈ امین
آباد سے گزر رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک صاحب پر پڑی، جو کرتا پاجامے
میں تھے، دیکھتے ہی دل نے کہا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں۔ جب تک میں فیصلہ کرتی
اور امیت کو بتاتی، وہ ہم لوگوں کے قریب سے گزر کر آگے نکل گئے۔
میں نے امیت سے کہا کہ شاید وہی صاحب ہیں، ذرا پوچھو۔ امیت لپکے اور ان کو
روکا۔ میں بھی قریب پہنچی تو یقین ہو گیا کہ یہ وہی صاحب ہیں، جن کو ہم
تلاش کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کو نمستے کہا۔ وہ حیرت سے ہم لوگوں کو دیکھ
رہے تھے۔ میں نے کہا: آپ نے مجھے پہچانا؟ انہوں نے کہا: معاف کیجیے گا، میں
تو نہیں پہچان سکا۔ مجھے اندر سے تکلیف سی محسوس ہوئی کہ جس شخص کی شکل و
صورت گزشتہ تین چار ماہ سے دل و دماغ میں بسی ہوئی تھی، وہ مجھے پہچان نہیں
رہا۔ امیت نے کہا: سوچیے اور پہچانیے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بالکل یاد
نہیں ہے۔ براہ کرم کچھ بتائیے۔ میں نے کہا کہ تین چار ماہ پہلے کان پور سے
آتے ہوئے بس میں ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے میری مدد کی تھی۔
اب وہ ہنسنے لگے اور بولے: آئیے، چائے پیتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر قریب کے ایک
ہوٹل میں بیٹھ گئے۔ ہم لوگ ان سے ملنے کے لیے بے قرار تھے، اس لیے فوراً ان
کی پیشکش قبول کر لی۔ اب سب سے پہلے تو ہم لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
اپنی مجبوری بیان کی اور اپنی کیفیت بیان کرتے رہے۔ وہ بار بار یہی کہتے کہ
بھئی ! چھوڑیے، ان سب باتوں کو۔ کوئی ایسی بات تو تھی نہیں کہ آپ لوگ اس
قدر یاد کرتے رہے۔ امیت نے ڈائری نکالی اور کہا: جناب اپنا اسم گرامی اور
فون نمبر وغیرہ لکھا دیجیے۔ انہوں نے نام، فون اور پتا لکھایا اور امیت کا
پتا و نمبر وغیرہ ایک کاغذ پر لکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ جناب سرائے میر
اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں۔ امیت نے میرے کہنے پر گزارش کی کہ چائے کے پیسے
ہمیں دینے دیجیے۔
وہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! مجھے بڑی خوشی
ہو گی کہ چائے کہ پیسے میں دوں، وہ خاموش ہو گئے۔ اور امیت نے پیسے دے دیے۔
اب میں نے آہستہ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! ایک بات کہوں، آپ کچھ محسوس نہ
کیجیے گا، یہ چھبیس روپے براہ کرم رکھ لیجیے۔ وہ قدرے بلند آواز میں بولے:
بھئی! یہ کیا بات کر رہے ہیں! اگر یہ پہلی اور آخری ملاقات ہے تو کوئی بات
نہیں ہے، ورنہ ایسی باتیں نہ کیجیے، مگر امیت نے زبردستی چھبیس روپے ان کی
جیب میں ان کے منع کرنے کے باوجود رکھ دیے۔
اب میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! کبھی میرے گھر تشریف لائیے۔ انہوں نے کہا: ہر
گز نہیں، میں کبھی نہیں آؤں گا۔ دو باتیں آپ لوگوں نے زبردستی منوا لیں۔
میری شرط ہے کہ پہلے آپ لوگ میرے گھر آئیے۔ تھوڑی تکرار کے بعد ہم لوگوں نے
وعدہ کر لیا کہ جلد ہی ہم ضرور آئیں گے اور پھر ہم رخصت ہو گئے۔
اگلے ہی اتوار کو امیت نے کہا: چلو ڈاکٹر صاحب کے گھر چلیں، فون کیا، انہوں
نے کہا: تشریف لائیے، میں انتظار کروں گا۔ حسب وعدہ شام کو ہم چلے۔ یقین
کیجیے، زندگی میں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا کوئی بھائی ہے
اور میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ میرا کوئی حقیقی بھائی یا بہن نہیں
ہے، ماں باپ کا بھی کافی پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ اب جو عزیز بھی ہیں، وہ
سسرالی رشتے دار ہیں۔ ہم پہنچے تو ڈاکٹر صاحب اپنے آفس کے باہر انتظار کر
رہے تھے۔ بڑی محبت سے ملے اور فوراً گھر میں لے گئے۔ بٹھایا اور کچن میں
اپنی اہلیہ ام سلمیٰ اعظمی سے ملاقات کرائی، جو میری ہی عمر کی ہیں یا سال
دو سال چھوٹی ہوں گی۔ ان سے مل کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ بڑی ہنس مکھ، ملن
سار اور سلیقہ مند ہیں۔
ضیافت کا اچھا خاصا اہتمام کیا تھا۔ چائے کے دوران میں ہی میں نے کہا:
ڈاکٹر صاحب! اگر آپ اجازت دیں اور کوئی حرج نہ ہو تو روٹی میں پکا دوں، اس
لیے کہ بچہ رو رہا ہے اور بھابھی پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا: بھابھی سے پوچھ
لو۔ آپ اپنے ہی گھر میں ہیں، ان کی اس بات مجھے حد درجہ خوشی ہوئی۔
میں نے بہت کہا کہ کھانا پکانے میں مدد کروں، مگر بھابھی نے کہا: اب نہیں،
جب دوبارہ آئیے گا تو کھانا پکائیے گا۔ اس دوران میں، میں تو بھابھی سے
باتیں کرتی رہی اور ڈاکٹر صاحب امیت کو بہت سی کتابیں دکھاتے رہے۔ امیت
کتابوں کے دیوانے ہیں۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد جب ہم چلنے کو تیار ہوئے
تو امیت نے دسیوں کتابیں لے لی تھیں۔ چلتے ہوئے بھابھی نے ایک پیکٹ دیا اور
کہا: اسے گھر جا کر کھولیے گا۔ ہم لوگ گھر پہنچے، دس بج چکے تھے، پیکٹ
کھولا تو حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، ایک ساڑھی، بلاؤز اور میری بیٹی
سمتا کے لیے ایک فراک اور ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ تھا۔
اب کیا تھا۔ امیت آئے دن ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہے۔ کتابیں لاتے رہے، رات رات
بھر پڑھتے اور واپس پہنچاتے ہوں۔ میں بھی کتابیں پڑھتی تھی، ''شانتی مارگ''
''مکتی مارگ'' ''جیون مرتیو کے پشچات''''اسلام دھرم'' ''اسلام جس سے مجھے
پیار ہے''''چالیس حدیثیں''''قرآن کے پریچے'' اور قرآن کا ترجمہ، سب کچھ پڑھ
ڈالا۔ چار پانچ بار میں ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی۔ جب بھی جاتی اور واپس آتی
تو بھابھی کچھ نہ کچھ کپڑے، کھلونے، کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز
ضرور دیتیں۔ دو، تین بار وہ بھی ہمارے پاس ہمارے گھر آئیں۔ ہم لوگ ایک
دوسرے کے کافی قریب ہو چکے تھے۔ امیت اکثر ڈاکٹر صاحب سے ملتے رہتے اور وہ
بھی فون کر کے ان کو بلا لیتے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، بار بار
کہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر نہیں آئے۔ ہر بار کوئی مجبوری یا عذر
بیان کرتے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے۔ ایک بار ہم لوگ ان کے گھر گئے تو
معلوم ہوا کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔ بدن سنسنا رہا ہے اور بھابھی اپنی ناراضی
ظاہر کر رہی ہیں۔
معلوم ہوا کہ آج ہی کسی اجنبی مریض کو خون دے کر آئے ہیں، جب کہ دو ماہ
پہلے کسی مریضہ کو خون دیا تھا۔ بھابھی ناراض ہو رہی تھیں اور وہ کہہ رہے
تھے کہ اگر خون دے کر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو کیا حرج ہے؟ میں نے بھابھی
کی حمایت کی۔
امیت جب بھی ان سے مل کر آتے، اکثر کوئی نہ کوئی واقعہ بتاتے اور حیرت و
خوشی سے بارہا تذکرہ کرتے، مثلاً آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ ایک
لسٹ لیے بیٹھے تھے کہ دیکھو: آٹا، دال، چاول اور یہ سامان لانا ہے۔ میں
پہنچ گیا تو بیٹھے رہے، باتیں ہوتی رہیں، اس دوران ندوہ کا ایک طالب علم
آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی ضرورت بیان کی، ڈاکٹر صاحب نے چار سو روپے اس
کو دے دیے اور سامان لانا رہ گیا۔
ایک بار کہنے لگے: آج ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، ساتھ میں امین آباد
گئے تھے۔ ایک کمبل 350 روپے میں خریدا اور واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک
نقاب پوش خاتون ملی اور کہا کہ مولوی صاحب! بچے سردی کھار ہے ہیں، ایک کمبل
یا لحاف دلا دیجیے۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ کمبل اس کو تھما دیا
اور خالی ہاتھ گھر چلے گئے۔
اس عرصہ میں امیت میں غیر معمولی تبدیلی آ چکی تھی۔ پوجا کرنا اور مندر
جانا بالکل چھوڑ دیا تھا، جب کہ پہلے اس کی پابندی کرتے تھے۔ گھر سے تمام
تصویریں اور مورتیوں کو ہٹا دیا اور ہم لوگ عجیب سی تبدیلیاں محسوس کرنے
لگے۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب سے بار بار گھر آنے کو کہتے، مگر وہ ٹال
جاتے۔ ایک رات تقریباً گیارہ بجے امیت نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں
آٹے کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں چاول، دال اور کچھ دوسرا سامان لٹکائے
ہماری گلی کے قریب والی دوسری گلی کی طرف مڑے ہیں۔ امت پیچھے لپکے اور قریب
جا کر پوچھا: آپ اس وقت یہاں؟ یہ کیا ہے؟ پہلے تو انہوں نے ٹالنا چاہا، مگر
پھر بتایا کہ یہاں ایک بوڑھی خاتون رہتی ہیں، ان کا کوئی سہارا نہیں ہے،
میں کبھی کبھار یہ سامان پہنچا دیتا ہوں۔
پھر امیت کو ساتھ لے کر گئے۔ سامان دیا، کچھ روپے دیے اور واپس لوٹے۔ اب
امیت نے اصرار کیا کہ گھر چلیے، انہوں نے کہا کافی رات ہو گئی ہے، پھر آئیں
گے، مگر امیت زبردستی گھر لے آئے۔ اپنے گھر میں انہیں دیکھ کر مجھے بہت
خوشی ہوئی۔ میں جلدی سے کھانے پینے کا انتظام کرنے لگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم
تو کھانا کھا چکے ہیں، چائے بنا لو بس، کھانا پھر کبھی کھائیں گے، بہر حال
جو کچھ تھا پیش کیا۔ باتیں ہونے لگیں اور بالآخر امیت بولے: اب بہت دن ہو
گئے، ہم لوگ کب تک اسی طرح رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا: جلدی کیا ہے؟ ہم نے
کہا: اگر اسی درمیان موت آ گئی تو؟ اب ڈاکٹر صاحب بالکل خاموش تھے۔ تقریباً
ایک بجے امیت ان کو ان کے گھر پہنچانے گئے۔ جب واپس آئے تو ہم لوگ رات بھر
سو نہ سکے اور ایمان، اسلام، جنت، دوزخ اور ڈاکٹر صاحب اور اس بوڑھی خاتون
کی باتیں کرتے رہے۔
اسی طرح تین چار ماہ گزر گئے، نماز کی کتاب سے اور بھابھی سے نماز پڑھنا
سیکھ لی اور ہم لوگ پابندی سے نماز پڑھنے لگے۔ اسی دوران میں امیت کا
ٹرانسفر ہو گیا اور ہم لوگ لکھنؤ سے غازی آباد آ گئے۔
یہاں سے ہم لوگوں نے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ میں ارچنا سے مومنہ تبسم، امیت
عبدالکریم اور سمتا عظمیٰ ہو چکی ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر صاحب دو
سال سے عید کے موقع پر سب لوگوں کے لیے کپڑے اور عیدی بھیج رہے ہیں۔ ان کے
ہم زلف محمد یونس بھائی تحفے تحائف لے کر آتے ہیں۔ دو بار میں بھی لکھنؤ جا
چکی ہوں۔ ان کا گھر مجھے اپنا میکہ لگتا ہے، اور اسی انداز سے ہم جاتے اور
آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ
آخرت میں کامیاب ہوں۔
(ماخوذ) |