چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کراچی سے
ٹینکر مافیا ختم کرنے کے دعویٰ کہاں گیا کہیں یو ٹرن تو نہیں لے لیا؟؟ آپ
نے سال رواں کے آغاز میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران پانی کے مسئلے پر
جس طرح حکمرانوں اور انتظامیہ کی کلاس لی اس سے کراچی کے شہریوں کو امید ہو
چلی تھی کہ کئی عشروں سے مسائل کے شکار کراچی کے دن پھرنے والے ہیں اب
شہریوں کو پانی بجلی صحت صفائی ستھرائی کے معاملے میں ان کی شکایات کا
حقیقی طور پر ازالہ ممکن ہوسکے گا بابا رحمتے رحمت بن کر ان کی زندگیوں کو
بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا بلکہ غفلت اور کوتاہی کے
ذمے داروں کو بخشا نہ جائے گا۔کراچی کا سب سے بنیادی مسئلہ پانی بھی حل ہو
سکے گا۔ مگر افسوس کراچی کے شہری پانی کی فراہمی کے کیس کی سماعت کے دوران
دیے گئے ریمارکس کو تاحال نہیں بھولے اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس
اپنے عمل سے ثابت کر دینگے کہ کراچی کے شہریوں کو مافیا سے نجات دلا کر ہی
رہیں گے ۔
چیف جسٹس نے کہا تھا بھول جائیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں
ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا رپورٹس میں مت الجھائیں بتائیں کہ شہر میں پانی کی
کمی کیوں ہے، پانی کی کمی ٹینکرز سے کیوں پوری ہوتی ہے، پانی بیچا جا رہا
ہے خدا کا خوف کریں، قلت ہے تو پانی ٹینکرز کو کیسے مل رہا ہے۔ ٹینکرز
مافیا بن چکا، اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں، سندھ حکومت شہریوں کو پانی تک
فراہم نہیں کر رہی، ٹینکرز مافیا سے نمٹنا ہمارا کام ہے، اگر وہ ہڑتال کریں
گے تو ان سے ہم نمٹ لیں گے۔
سال کا آخری مہینہ چل رہا ہے اور مسئلہ جوں کا توں ہے، کراچی میں بعض علاقے
ایسے بھی ہیں جہاں برسوں سے سپلائی لائن کے ذریعے شہریوں کو پانی نہیں
ملا۔پانی کی منصفانہ تقسیم خواب بن چکی ہے کراچی واٹر بورڈ کے ذمے دار
اندھی کمائی میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ شہریوں کا بنیادی مسئلہ حل کرنے کو
تیار نہیں؟ واٹر بورڈ کے ایم ڈی اور دیگر اہلکار ، گورنر وزیر اعلی سندھ
اور تمام سرکاری اعلی وادنی افسران پولیس رینجرز مسلح افواج کتنے روز پانی
کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں کیا انھیں اللہ کا خوف نہیں کہ وہ لوگوں کو دو
ہفتے ، بیس پچیس روز بعد پانی کی سپلائی کریں ؟ جبکہ بعض مخصوص علاقوں میں
روزانہ پانی دیا جاتا ہے اس کے علاوہ جس جس علاقے میں اگر قسمت سے سپلائی
بھی ہو تو وہاں پائپ لائنوں میں رساﺅ لاکھوں گیلن پانی ضائع ہوتا ہے اس کا
ذمے دار کون ہے؟ کیا کسی واٹر بورڈ اہلکار یا افسر کو اس کوتاہی پر نکالا
گیا یا سزا دی گئی؟
پہلے لوگ بلڈرز مافیا کو مورود الزام ٹھراتے جو کہ وہ اب بھی ہے لیکن اس کے
ساتھ پانی کی تجارت کرنے والوں میں جب سے واٹر بورڈ کے اعلیٰ افسران اور
اہلکار شریک ہوئے تو یہ اب سب ٹینکر مافیا بن گئے اور شہریوں پر دہرا عذاب
مسلط کر دیا ، واٹر بورڈ کا بل بھی دیں اور پھر عملے کے جان بوجھ کر سپلائی
کا دورانیہ بڑھانے کے باعث ٹینکر خرید نے پربھی مجبور ہوں، 45،80 ،120، 240
مربع گز کے مکانات میں بمشکل دو چار دن کاپانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوتی
ہے لا محالہ ٹینکر مافیا کے سرپرست واٹر بورڈ حکام کی وجہ سے ماہانہ ایک دو
ٹینکرخریدکر مالی بوجھ کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
کراچی میں چیف جسٹس کے بقول غریبوں کو چار ہزار کا ٹیکا لگایا جا رہا ہے
جناب والا ٹینکر مافیا ایک روز میں 4ہزار روپے والے 50ہزار ٹرپ پر20 کروڑ
اور ماہانہ6ارب روپے کا ٹیکہ لگاتی ہے اس اندھی کمائی کے لیے پھر واٹر بورڈ
حکام شہریوں کو سپلائی لائن سے پانی کیوں دینے لگے؟ ہر ہائیڈرنٹ پر ٹینکرز
قطار لگائے پانی بھرتے ہیں جبکہ لوگ بوند بوند کو ترستے ہیں شہر میں 7 ہزار
والے ٹینکرز بھی دستیاب ہیں۔ واٹر بورڈ کا عملہ ٹینکر مافیا کا سرپرست ہے
بلکہ تحقیقاتی ادارے اپنا فرض ادا کریں تو کئی افسران کے چہرے بھی بے نقاب
ہوسکتے ہیں جنکے ٹینکرز بھی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ وال میننر سے لے کر
اعلیٰ افسران کے اثاثے ہی چیک کر لیے جائیں تو کرپشن کی نئی کہانی منظر عام
پر آ سکتی ہے
یہ حقیقت ہے کہ سرکاری حکام کی سرپرستی میں پانی کی تجارت کے نتیجے میں
پیسہ قومی خزانے میں جانے کے بجائے واٹر بورڈ حکام اور ٹینکر مالکان کی
جیبوں میں جاتا ہے دوسری طرف ریکارڈ ثبوت ہے کہ واٹر بورڈ کی آمدنی بڑھنے
کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔ عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار ہے مگر انہیں پانی
سمیت دیگر زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کیا جا رہا ہے اور کوئی
پوچھنے والا بھی نہیں
زیادہ تر شہر ی بورنگ اور کنویں کا پانی استعمال کر ر ہے ہیں مگر اب زیر
زمین پانی بھی نایاب ہو چلا ہے واٹر بورڈ کے حکام اور سندھ حکومت کی بے حسی
، غفلت اور غیر ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو بنیادی ضرورت کا پانی فراہم نہ
آئندہ کی منصوبہ بندی کرتی ہے
کیا حکومت کی ذمے داری نہیں کہ وہ مستقبل کے لیے آبی ذخائر بڑھائے دریائے
سندھ کا لاکھوں کیوسک پانی ہر سال سمندر برد ہو جاتا ہے اسے کشمور سے کیٹی
بندر تک مختلف مقامات پر چھوٹے یا بڑے بیراج بنا کر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے
دریا کی مٹی سے بند ھ بنا کر پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے مگر حکمران کیوںایسا
کریں انھیں کچے کی زمینوں پر قبضے سے فرصت ملے تو وہ عوام کی بنیادی ضرورت
کی فکر کریں ملیر ندی، لیاری ندی اور دریائے سندھ کی زمین پر فصلیں کاشت کی
جا سکتی ہیں مگر پانی کا ذخیرہ کرناہ مشکل لگتا ہے افسوس کا مقام ہے اکہتر
برس گزر گئے ایوب دور کے بعد کتنی حکومتیں آئیں اندرون سندھ اور کراچی میں
پینے کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کسی نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں
کیا جیکب آباد نوابشاہ سمیت مختلف علاقوں میں کھارا پانی ہے لوگ میٹھے پانی
کےلیے ترستے ہیں، کراچی سے تو کسی نے بھی وفا نہ کی شہری کب تک پانی کی
بوند بوند کو ترسیں گے کیا کوئی انھیں اس مشکل سے کوئی نجات نہیں دلا سکتا
؟ |