مہنگائی اور پریشان عوام

شیخ چلی ایک ایسا کریکٹر تاریخ میں گزرا ہے کہ جو صرف سوچ کے بلبوتے پر اپنے محل تعمیر کرتا تھا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مہنگائی کے عنوان کا آغاز شیخ چلی سے کچھ سمجھ نہیں آیا تو صاحب بڑوں کی ایک کہاوت ہے کہتے ہیں جو کام کر نہ سکو اسکا آسرا بھی نہ دوبلکہ اس بات کا تذکرہ بھی نہ کروکیونکہ کام نہ ہوا تو شرمندگی تمہارا مقدر ہوگی ۔یہ ساری باتیں جنا ب موجودہ حکومت کے نام ہیں کیونکہ اس بار بھی ہربار کی طرح بلند و بانگ دعوے کیے گئے کہ مہنگائی کے جن کو قابو کرلیا جائے گا ، پیڑول گیس سے ستا ہوگا بجلی سستے داموں ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ کہیں گے کہ اس میں نیا کیا ہے ایساتو ہر الیکشن میں ہر سیاستدان کہتا ہے مگر فرق یہاں تبدیلی کے دعوے کا ہے جس کی خاطر عوام نے گھروں سے نکل کر ووٹ دئیے ۔ مگر 100 دن سے پہلے ہی حکومت معاشی طور پرعوام کوقتل کرتی نظر آرہی ہے۔ تاریخ کے بلند ترین نرخوں پر سی این جی کولانا ساتھ بجلی وپیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عوام پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہے۔اس کی مثال وہ شخص ہے کہ جس کا گزر بسر صرف ایک آٹو رکشے پر تھا ریٹ بڑہ جانے کے باعث اس نے اس کو بھی آگ لگا دی شاید خود کشی حرام نہ ہوتی تو نوبت کچھ اور ہوتی ۔اگر تبدیلی سرکار کے پاس اتنی ہی اچھی ٹیم موجود تھی تو ان معاشی مسائل کاادراک پہلے کیوں نہ ہوا ؟ بلند و بانگ دعوے کیوں کیے گئے ؟ کیا ملک کی معاشی بہتری کے لیئے عوام کی کمر توڑنے کے علاوہ اور کوئی حل موجود نہیں ؟؟ سی این جی کے نرخ بڑھنے سے روز مرہ کی استعمال کی اشیاء اور بسوں، ویگنوں،رکشوں کے کرایوں میں اضافہ کیا یہ غیریب عوام برداشت کرسکتی ہے ؟ مافیا کے زیر تسلط ٹرانسپورٹ کا نظام عوام کا خون نچوڑنے کو تیار بیٹھا ہے ، تو اُدھر حکومت اتنی مہنگائی کے باوجود بھی پھر سے آئی ایم ایف کے پاس قرض مانگنے کو تیار بیٹھی ہے ۔ ایسے میں ہم اس مہنگائی کو قومی وقار کی خاطر بھی کیسے برداشت کرلیں ؟؟ایک عام شہری کہ جو دس سے پندرہ ہزار کی جاب کرتا ہے اور کرئے کی مد میں اس سے تین ہزار بٹور لئے جائیں،پھر باقی کثر بجلی اور گیس کے بل پوری کر دیں تو غریب آدمی اپنے بچوں کی پڑہائی کے بارے میں کیوں کر سوچے۔ساتھ ہی علاج معالجے اور مستقبل کا تو اللہ ہی مالک ہے ۔اس سنگین سورتِ حال میں کشکول توڑنے کے جھوٹے دعوے بے نقاب ہونے کے بعد اس مہنگائی کا کوئی جوازباقی بچتا ہے ؟ گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کرنے کے علاوہ کیا اس 'بہترین ٹیم 'نے کوئی اور حل تیار نہیں کررکھا تھا ؟؟ ایسی بھی کیا تبدیلی کہ دو ماہ میں عوام اس سے پناہ مانگنے لگے ؟دوسروں کو ناقص پالیسی میکر کہنے والوں سے شکایت محض یہ ہے کہ جب کوئی پلان تیار ہی نہ تھا تو عوام کو رنگ برنگے جلسوں میں سستی اشیاء کا جھانسا دے کر امید کا طوق گلے میں کیوں پہنایا گیا ؟؟ حقیقت سے نا آشنا تبدیلی سرکار کے انقلاب کے غبارے کی ہوا اس قدر جلد نکلنے کے ذمہ دار یقیناً یہ خود ہیں۔

Sania Iqbal
About the Author: Sania Iqbal Read More Articles by Sania Iqbal: 3 Articles with 2591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.