پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ آج بھی اس ہی مقام
پر ہے جہاں پر ہم پہلے کھڑے تھے۔مرد و عورت کی تخصیص سے قطع تر کہ تعلیم ہر
انسان کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم کیسی بھی معاشرے کے انسانوں کو شعوری سطح
فراہم کرتی ہے جہاں انسان انسانی معاشرے میں بہتر زندگی گزار سکیں۔ تعلیم
معاشروں میں ذہنی ترقی بالیدگی اور اعلیٰ تخیل کا باعث بنتی ہے۔ مادی ترقی
بھی تعلیم کی مرہون منت ہے۔ قومیں سڑکوں پلازوں سے نہیں بلکہ تعلیم سے بنتی
ہیں۔ تعلیم کی وجہ سے معاشرے میں امتیاز کیا جاتا ہے مگر افسوس صد افسوس ہم
بطور قوم آج بھی تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں اجتماعی سوچ اور فکر کی
تبدیلی بھی تعلیم کی وجہ سے ممکن ہے۔ مگر تعلیم خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم
میں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں جیسے عبور کرنا نہ صرف ریاست کا کام ہے بلکہ
سماجی سطح پر بھی ہم مل کر اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں اس مقابلے میں سب سے
اہم کام والدین کو بچیوں کو تعلیم دلوانے پر راضی کرنا ہے۔ والدین کی ذہن
سازی میں مذہبی اسکالر اور علماء کرام خاص طور پر کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت معیاری تعلیم کو آسان اور سستا کرے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں ایک بڑا
مسئلہ ٹرانسپورٹ کی فراہمی ہے والدین مہنگا سفر افورڈ نہیں کر سکتے۔ جس کی
وجہ سے دور علاقوں میں جہاں کالج اور یونیورسٹیز دور ہیں وہاں اچھے ذہن کی
لڑکیاں بھی اسکول کی معمولی تعلیم کے بعد گھر بیٹھ جاتیں ہیں۔اس کے علاوہ
ایک اور اہم مسئلہ تعلیمی اداروں کا وہ ماحول ہے جس کی وجہ سے والدین خوف
کا شکار ہیں۔ آئے روز ہراسگی کے بڑھتے واقعات نے والدین کو دل برداشتہ
کیا۔اس طرح کے والدین اپنی بچیوں کے معاملے میں کافی حد تک پریشانی کا شکار
ہیں۔ مردوں کی آجاتاہے داری کے معاشرے میں بنت حوا خود کو آئے روز غیر
محفوظ کرتی آرہی ہیں ۔حقوق نسواں کا رونا میرے بس میں نہیں مگر تعلیم کے
لیے بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانا جہالت کے خلاف جدو جہد
جہاد کے مترادف ہے ۔
موجودہ حکومت نے اب تک کیسی بڑے تعلیمی پروجیکٹ یا پالیسی کا اعلان نہیں
کیا حالانکہ تحریک انصاف کئ مرتبہ اقتدار میں آنے سے قبل اس بات کا اظہار
کرتی تھی ہم تعلمی ایمرجنسی کا نفاذ کرےگے مگر اب تک کی نظر آنے والی
تبدیلی میں صرف ڈالر کی اونچی اڑان ہی نظر آرہی ہے۔ تبدیلی کا عمل تعلیم سے
شروع ہوتا ہے بنیادی تبدیلی تعلیم سے ہی ممکن ہے پی ٹی آئی حکومت اگر
اقتدار کا عرصہ مکمل کرے تو میری دعا ہے کہ قومی امنگوں کے مطابق مسائل کے
حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے ورنہ نام کی جمہوریت ہو یا کسی آمر کا اقتدار
عوام کو اپنے مسائل کا حل مل جائے۔ |