شعبہ ابلاغ عامہ اورطلباء کا مستقبل

کیونکہ صحافت کاشعبہ شہرت حاصل کرنےکاموثرذریعہ
موجودہ دورمیں الیکٹرانک میڈیاسےکی اہمیت سےکوئی شخص انکارنہیں کرسکتا
کیااونچی آوازمیں بات کرناسچی اورکھری سمجھی جاتی ہے؟؟؟

پاکستانی میڈیاانڈسٹری میں آنےوالےنئےصحافیوں کامستقبل کیا؟؟؟

موجودہ دورمیں الیکٹرانک میڈیاسےکی اہمیت سےکوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،میرےمطابق یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ پاکستانی میڈیاایک بہاؤ کی طرح ایک مخصوص سمت میں رواں دواں ہے،ملک میں طالبعلموں کی بڑی تعدادایسی ہےجومیڈیاانڈسٹری کارُخ کررہی ہے،شایداس لیےکہ آج کےنوجوان طبقےمیں سیاسی شعورپیداہورہاہےلیکن ایک بات جوحقیقیت پرمبنی ہےکہ آج کانوجوان اپنی ایک رائےتورکھتاہےجس کی کوشش ہےکہ وہ اپنی آوازاورالفاظ کودجوددینےکیلئےالیکٹرانک میڈیاکارخ کررہےہیں کیونکہ صحافت کاشعبہ شہرت حاصل کرنےکاموثرذریعہ ہوتاہےلیکن یہ توصرف اس شعبےسےمنسلک لوگ ہی جانتےہیں کہ صحافت کاشعبہ کسی چیلنجنگ سےکم نہیں یعنی غیرذمہ دار افرادکی اس شعبےمیں کوئی گنجائش ہی نہیں لیکن یہاں سوال یہ بھی پیداہوتاہےکہ اس سےمتعلق ہمارےتعلیمی ادارےکیاکررہےہیں،کیاتعلیمی اداروں میں مستقبل کےصحافیوں کی موثرتربیت کی جارہی ہے،کیااس کیلئےٹھوس اقدامات موجودہیں؟آپ کے ادارے سے نکلنے والا نوجوان کیا صحافت کے مقاصد ،اخلاقیات اور بول چال کے ڈھنگ اور سلیقے سے آشنا ہوتا ہے؟نوجوان جوق درجوق ابلاغ کی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں،مختصر یہ کہ صحافت ہی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں تمام مضمون سماجاتے ہیں۔کیونکہ معاملات اٹھتے رہتے ہیں تو صحافی کا قلم اور صحافی کی زبان چلتی رہتی ہےکیونکہ میں خودبھی اس شعبےسےوابستہ ہوں اس لیےمیرےخیال میں پوبلاغِ عامہ کے اداروں کو بڑی ذمہ داری کی ضرورت ہے،انڈسٹری میں جو اونچی آواز میں بات کرے اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سچی اور کھری بات کہتا ہے،لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔سچائی اور حق کا تعلق اونچا اور تیزاورجذباتی گفتگو سے نہیں ہے،بات اگر سچی اور کھری ہو تو نرم لہجے میں وہ ہی اثر پیدا کرتی ہے،یہاں ایک دوسرامسئلہ یہ بھی ہےکہ میڈیامالکان صافیوں کوصرف اپنےذاتی مفادکیلئےاستعمال کررہےہیں،ان کام پوراہوجائےتوکسی کوبھی فارغ کردیاجاتاہےجوایک بڑاعلمیہ ہےاس کےبرعکس انھیں مارکیٹ سےکچھ نیےصحافی مل جاتےہیں جوناتجربہ کارتوہوتےہیں لیکن وہ اصل حقیقت سےبہت دورہوتےہیں،میڈیا چیلنجز مالکان سے گزارش ہے کہ آپ نے کروڑوں کا لائسنس حاصل کیا ہے تو ایسے نام نہاد صحافیوں کو اسکرین پر نہ بٹھائیں جومن پسند رائے کو عوام کے ذہنوں میں انڈیلتے رہیں،تعلیمی اداروں میں نصاب کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے موثر استعمال اور طلبہ کو اس کے تکنیکی مراحل سے گزارا جائے۔ ضروری ہے کہ جب یہ نوجوان میڈیا انڈسٹری کا رخ کریں تو سیکھنے سکھانے کے عمل سے پہلے ہی گزر چکے ہوں،تاکہ حالات کامضوبوطی کےساتھ سامناکرسکیں اورکسی کےسامنےآپنی کارکردگی کومنواسکیں۔

ASFANDYAR
About the Author: ASFANDYAR Read More Articles by ASFANDYAR: 5 Articles with 3713 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.