کہتے ہیں عزت ذلت اﷲ کے ہاتھ میں ہے مگر اس کا اختیار اﷲ
نے انسانوں کو دے دیا کہ جو چاہے گا عزت پائے گا اور جو ذلت کا متمنی ہو گا
گمراہی اور دائمی ذلالت اس کا مقدر بنے گی،بعض اوقات بظاہر عام سے انسان کو
اﷲ تعالیٰ یوں نوازتا ہے کہ وہ شخص ہزاروں لاکھوں کے لیے روشنی کا استعارہ
بن جاتا ہے،اگر بات کی جائے علاقہ پوٹھوہا ر دھن ا ورونہار کی تو یہاں اس
علاقے میں بے شمار خانقاہیں موجود ہیں اور اﷲ کے کئی ولی ہو گذرے ہیں اور
کچھ کچھ اب بھی کہیں قلیل تعداد میں موجود ہیں،عالم اسی کو کہا جا سکتا ہے
جو باعمل ہو اسی طرح کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا کہ پیر بھی ہو اور دنیا کے
سب سے بڑے پیر و مرشد ہا دی برحق آقا و مولا رحمت عالمﷺ کی شریعت کا پابند
نہ ہو،آج کل جو رواج چل نکلا ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سی
جگہیں ایسی ہیں جہاں راگ تو پیری مریدی اور خانقاہی کا الاپا جاتا ہے مگر
ظاہر کچھ ہے تو باطن اس سے بالکل ہی مختلف ہے،پیر وہ ہونا چاہیے جو کم از
کم مرید سے تو بہتر ہو مگر بہت سی جگہوں پر بہت سے جھومتے جھامتے یا قبروں
پر ناچتے گاتے کچھ ملنگوں کو بھی زعم ہے کہ وہ بھی پیرطریقت ہیں اور اپنا
سلسلہ ولایت رکھتے ہیں،ایسے تمام لوگ اپنا سلسلہ نسب پیران پیر حضرت شیخ
عبدالقادرجیلانی رحمتہ علیہ سے جوڑتے ہیں باقاعدہ گیارہویں بارہویں بھی منا
تے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت جناب شیخ کی تعلیمات سے
کوسوں دور نظر آتی ہے،تصوف کی جگہ فحاشی و عریانی اور مراقبے کی جگہ چرس
اور بھنگ نے جبکہ ذکر اذکار کی جگہ حق باہو اور سچ باہو نے لے رکھی ہے،کوئی
دھمالیں ڈال رہا ہے تو کوئی ننگے پیر ننگے بدن ملنگ بن کر معرفت کی سند عطا
کرتا نظر آ رہا ہے کسی نے اپنی گدی و اسلاف کے نام کو سیاست کے نام پر
بیچنے کے لیے سربازار پیش کر رکھا ہے تو کوئی مریدوں کی جیب کیا کھال تک
ادھیڑے جا رہاہے مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں
بالکل اسی طرح استثناء تو ہر جگہ ہوتا ہے بہت سی ایسی گدیاں اور خانقاہوں
کے علاوہ متعدد سلسلے ایسے ہیں جہاں صرف اﷲ کی وحدانیت اور اس کے رسولﷺ کی
حقیقی اور ابدی تعلیمات کے علاوہ کچھ پڑھایا جاتا ہے نہ سکھایا جاتا ہے
وہاں کے منتظم اور صاحب کمال لوگ پہلے خود عملی نمونہ پیش کرتے ہیں اس کے
بعد لوگوں کو جب اپنی طرف بلاتے ہیں تووہ نہ صرف اس طرف کچھے چلے آتے ہیں
بلکہ جو ق در جوق ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کرتے ہیں ،ایسا ہی ایک سلسلہ
دارالعرفان منارہ میں بھی ہے یہ سلسلہ اویسیہ نقشبندیہ کی ایک عظیم درسگاہ
کے طور پر سامنے آ یا ہے اس سلسلے کی بنیاد میں سب سے اہم کردار امیر
مولانا محمد اکرم اعوان کا ہے آج سے ساٹھ ستر برس پہلے کوئی سوچ بھی نہیں
سکتا تھا کہ اس علاقے جہاں بنجر زمین اور جہالت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے کے
کسی شخص کو اﷲ تعالیٰ ایسا کمال فیض عطا کریں گے کہ ایک دنیا جس کی معترف
ہو گی ،مولانا محمد اکرم اعوان نے دار ا لعرفان منارہ کو اپنا مسکن بنایا
اور پھر کچھ اس طرح سے علاقے میں اﷲ و رسولﷺ کے نام کی صدائیں بلند کیں کہ
لوگ حیران رہ گئے،اول اول کسی نے کچھ سمجھا تو کسی نے کچھ القاب دیے،کسی نے
ایجنسیوں کا ایجنٹ کہا تو کسی نے حسب معمو ل باہر سے پیسہ آ رہا کے الزامات
لگائے مگر مولانا اکرم اعوان اولیا اﷲ کی اس صفت پر قائم رہے کہ گالی کا
جواب کبھی گالی سے نہیں دینا انہوں نے بھی الزام کا جواب دعا سے دیا اور
معاملہ اﷲ اور اس کے رسول کے سپرد کر دیا،مجھے مولانا صاحب سے متعدد بار
ذاتی طور پر ملنے کا شرف حاصل ہواہم صحافی عموماً کسی کے ڈرائنگ روم میں
بیٹھ کر بھی ناقدانہ نظرو ں سے کہیں نہ کہیں کوئی عیب ڈھونڈنے میں لگے رہتے
ہیں جو خبر بن سکے مگر متعدد بار مولانا صاحب سے ملنے کے باوجود کوئی ایک
بھی ایسی قابل تنقید بات ہمیں نظر نہیں آئی جسے موضوع بحث بنایا جا
سکے،دھیمے اور انتہائی مہذبانہ انداز گفتگو سن کر جو ان سے ملتا عموماً
انہی کا ہو کہ رہ جاتا،انتہائی جامع اسلوب سے وہ اپنی گفتگو کا ایک ایک پیر
ہن سننے والے کو سمجھاتے ،کبھی بھی انہیں غصے میں کسی پر برستے نہیں دیکھا
،میں نے جب دس بارہ سال پہلے پہلی دفعہ ان کی بعثت کانفرنس میں شرکت کی تو
اس وقت یہ کانفرنس دارلعرفان کے اندر ہوتی تھی اور اس میں شریک ہونے والے
افراد کی تعداد بھی آج کی تعداد سے کہیں کم تھی،پہلی کانفرنس میں شرکت کے
لیے جب چکوال سے روانہ ہوئے تو ذہن میں عجیب و غریب سوالات کا نہ ختم ہونے
والا سلسلہ تھا کہ لوگ میلاد مناتے ہیں یہ نئے صاحب آ گئے ہیں جو ربیع
الاول کے مہینے میں میلادکی بجائے بعثت منا رہے ہیں وہاں پہنچے مولانا صاحب
کا خطاب سنا تو اس دن میلاد کا اصل مطلب سمجھ آ یا،مولانا صاحب نے اپنی
زندگی دین کے لیے وقف کر رکھی تھی اور وہ دم آخر تک اس پر قائم رہے انہوں
نے اپنی زندگی میں بے شمار کتب تحریر کی ہیں جن میں سب سے اہم قرآن پاک کی
تفسیر اکرم التفاسیر ہے،اس سال بھی ہمیں اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی ،اب
چونکہ مولانا اکرم اعوان اس دنیا میں نہیں تو ہمیں اندازہ تھا کہ اب اس
تحریک میں وہ دم خم نہیں ہو گا جو ان کی زندگی میں تھا اور امید ہے کہ اب
وہاں کا منظر کسی حد تک تبدیل ہو چکا ہو گا کیوں کہ عموما ایسے سلسلے کسی
ایک شخص کی ذات کے ساتھ ہی وابستہ ہوتے ہیں اور بعد میں مقبرے اور خانقاہیں
رہ جاتی ہیں جن پر لوگ دھمالیں ڈال کر اپنے اپنے انداز سے دلوں کی تسکین کا
سامان کرتے رہتے ہیں ،جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں کا منظر اتنا ہی خوبصورت
اور جاذب نظر تھا بلکہ پچھلے سال سے کہیں بڑھ کر کیوں اس دفعہ ملک بھر سے
آنے والے مرد حضرات کے ساتھ خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد پنڈال کی
مخصوص جگہ پر موجود تھی،جس کی وجہ سے یہ سلسلہ اور اس کا مستقبل مزیدروشن
اور تابناک نظر آیا مولانا اکرم اعوان کی رحلت کے بعد اب ان کے فرزند اور
جانشین مولانا عبدالقدیر اعوان اس کے امیر ہیں ،خوبصورت و سیرت کے ساتھ
وسیع ذہن و قلب کے مالک ہیں ،دینی و دنیوی تعلیم سے بہرور ہونے کے ساتھ
جدید دنیا اور اس کے تقاضوں سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں نہ صرف ملک بلکہ بیرون
ملک بھی تبلیغی اور علمی دورے کر کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے بہرمند
فرما رہے ہیں ،مولانا عبدالقدیر اعوان کی شخصیت میں مولانا اکرم اعوان کی
شخصیت کا مکمل عکس نظر آتا ہے ،امیر کی تربیت کا کمال ہے کہ مولانا عبد
القدیر اعوان بھی حلیم طبع اور انتہائی احسن انداز گفتگو رکھتے ہیں ،ملک
بھر میں پھیلے ان کے مریدین کی بڑھتی تعداد اس بات کا وضح ثبوت ہے کہ
مولانا اکرم اعوان کا ان کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ بالکل صحیح
تھا،سالانہ اجتماع سے جنرل ر عبدلقیوم اعوان ،عبداﷲ گل اور مولانا عبدلقدیر
اعوان نے خطاب کیا، مولانا کے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کے خطاب کے دوران لوگوں کی
توجہ اور عقیدت کا یہ منظر تھا کہ پورے خطاب کے دوران ہزاروں کے مجمعے میں
کوئی ایک بھی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا،سب سے اہم بات کہ ہزاروں خواتین نے
بھی شاید تاریخ میں پہلی بار یوں مکمل خاموشی اختیار کی،اجتماع کیا تھا ایک
مکمل نظم و ضبط کا عملی نمونہ تھا ،کوئی ہنگامہ دھکم پیل ہلڑ بازی ہٹو بچو
کی صدائیں کہیں کسی بھی طرف کوئی بندوق بردارنہ ہونے کے باوجودکسی بھی قسم
کی کوئی بدنظمی نہ تھی، حیران کن بات یہ تھی کہ پورے ملک سے لوگ اپنے مرشد
کا ڈیڑھ گھنٹے کا خطاب سننے آئے تھے بہت سے لوگوں نے دس پندرہ اور بیس
گھنٹے کا سفر کر کے اجتماع میں شرکت کی ان میں سے بہت سے لوگ خطاب سننے کے
ساتھ اپنے نئے امیر کی زیارت کرنے کے لیے بھی پہنچے تھے،اتنے لوگوں کا
اجتماع میں شریک ہونا اپنے مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرنا اجتماع سے قبل نماز
ظہر کی ادائیگی اور اختتام پر نماز عصر ادا کر کے اپنی منزلوں کو روانہ ہو
جانا اور واپس جاتے ہوئے بغیر کسی پولیس کنٹرول کے اپنے ساتھ دوسرے مسافروں
کا خیا ل رکھنا جس پر امن طریقے سے آئے تھے بیعت کے بعد اسی طرح واپس روانہ
ہو جاناکوئی ایک بھی لڑائی جھگڑے یا بدمزگی کا واقعہ نہ ہونا یقین کریں یہی
سلسلہ اویسیہ نقشبندیہ کا کما ل ہے اور ان کے شیخ کی تربیت کا اثر ہے ،عالم
با عمل اور شریعت کاپابند مرشد یہ دو ایسے سلسلے ہیں جنہیں زوال نہیں ہمیشہ
اور عروج اور کمال ان کا مقدر ہوتا ہے کسی فرد کے لیے لوگوں کے دلوں میں
محبت نہ پیسہ ڈال سکتا ہے نہ قوم قبیلہ نہ ہی دنیاوی مال و متاع،یہ اﷲ کا
خاس کرم اور انعام ہوتا ہے جو انہی لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اپنے آپ کو
اپنی زندگیوں کو صحیح معنوں میں اس کے حوالے کر دیتے ہیں کیوں کہ نیتوں کا
حال اور دلوں کے بھیدصرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے ،،،،،،،
|