فرمانِ مصطفٰے صلیٰ اللہ علیہ
واٰلہ وسلم: جو شخص مجھ پر درودِ پاک پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔
تاجدارِ مدینہ منورہ، سلطانِ مکہ مکرمہ صلیٰ اللہ علیہ واٰلہ و سلم نے صحابہ
کرام علیھم الرضوان سے استفسارفرمایا،“کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ
کرام علیھم الرضوان نے عرض کی، یا رسول اللہ عزوجل وصلیٰ اللہ علیہ واٰلہ وسلم
ہم میں سے مفلس تو وہ ہے جس کے پاس درہم و دنیاوی ساز و سامان نہ ہو۔ تو آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: “میری امت کا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت
کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ تو لیکر آئے گا مگر ساتھ ہی کسی کو گالی بھی دی ہوگی،
کسی کو تہمت لگائی ہوگی، اس کا مال نا حق کھایا ہوگا، اسکا خون بہایا ہوگا، پس
ان سب گناہوں کے بدلے میں اس کی نیکیاں لی جائیں گی۔ پس اگر اسکی نیکیاں ختم
ہوجائیں اور مزید حقدار باقی ہوں تو ان (یعنی مظلوموں) کے گناہ لیکر بدلے میں
اس (یعنی ظالم) پر ڈالے جائیں گے پھر اس (ظالم) شخص کو جہنم میں ڈال دیا جائے
گا- صحیح مسلم ص١٣٩٤ حدیث ٢٥٨١
یاد رہے ! یہاں ظالم سے مراد صرف قاتل،ڈاکویا مار دھاڑ کرنے والا ہی نہیں۔ بلکہ
جس نے بظاہر کسی کی تھوڑی سی بھی حق تلفی کی مثلاً ایک آدھ روپیہ ہی دبالیا ہو،
بلا اجازت شرعی ڈانٹ ڈپٹ کی ہو یا غصے میں گھورا ہو، مذاق اڑایا ہو وغیرہ تب
بھی یہ ظالم ہے اور وہ مظلوم۔ اب یہ جدا بات ہے کہ اس“مظلوم“ نے بھی “اس ظالم“
کی بعض حق تلفیاں کی ہوں۔ اس صورت حال میں دونوں ایک دوسرے کے حق میں مخصوص
معاملات میں “ظالم“ بھی ہیں اور “مظلوم“ بھی۔ اسی طرح کئی لوگ ہونگے جو بعضوں
کے حق میں “ظالم“ اور بعضوں کے حق میں“مظلوم“ ہوں گے۔
حضرت سیدنا عبد اللہ انیس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اللہ عزوجل قیامت کے دن
ارشاد فرمائے گا، “کوئی دوزخی دوزخ میں اور کوئی جنتی جنت میں داخل نہ ہو۔ جب
تک وہ حقوق العباد کا بدلہ نہ ادا کرے۔ یعنی جس کسی کا حق جس کسی نے دبا یا
ہواس کا فیصلہ ہونے تک دوزخ یا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اخلاق الصٰلحین، ص٥٥
یا اللہ عزوجل ہم سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے سے بچا اور جو کچھ
اس سلسلے میں کوتاہیاں ہوچکی ہیں انہیں آپس میں معاف کروالینے کی تو فیق مرحمت
فرما۔ آمین فیضان رمضان ص ٦٨ تا ٧٠ |