اس روز سے

جب میں بابا جی کے ہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ساتھ میں مسلے کے قریب ہی کھانا پڑا ہوا تھا۔ کھانا کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں ایک طرف ادب سے بیٹھ گیا ساتھ میں یہ بھی سوچا کہ بابا جی کھانا کھا کر بھی نماز پڑھ سکتے تھے حالاں کہ اگلی نماز میں کافی ٹائم پڑا تھا۔ گویا نماز کو پہلی ترجیع میں رکھ رہے تھے۔ پھر سوچا مرضی والے ہیں۔ دریں اثنا دروازے کے قریب آ کر ایک سائل نے صدا لگائی ‘ بھوکا ہوں کھانا درکار ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر صدا لگائی۔ بابا جی نے نماز توڑ کر اسے اندر بلا لیا اور پڑا ہوا کھانا اسے کھانے کو دے دیا۔ اس نے وہیں بیٹھ کر کھا لیا بس معمولی سا باقی بچایا اور پانی طلب کیا۔ بابا جی نے فرمایا پانی کھانا کھانے سے پہلے پینا چاہیے۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ بابا جی نے اٹھ کر کچھ ہی دور پڑے مٹکے سے پون گلاس پانی اسے دیا۔ اس نے سیر ہو کر کھایا پیا۔ پھر وہ کھانا کھا کر سلام بلاتا ہوا چل دیا۔ جب تک وہ کھاتا رہا بابا جی نے نماز نہ نیتی۔ جوں ہی وہ سلام بلا کر چلا گیا بابا جی نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور منہ سے کچھ نہ بولے۔ مجھ سے کچھ کہے سنے بغیر نماز نیت لی۔ میں ان کے اس انداز سے حیران رہ گیا۔ میرے لیے یہ بلکل نیا اور الگ سے تجربہ تھا۔
جب نماز ختم کی تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ میں نے بھی ان ساتھ ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ عجیب طرح کی دعا مانگ رہے تھے۔
یا اللہ
اپنی مجبور بےبس بےکس لاچار بیمار ظلم ستم تشدد جبر کی شکار مخلوق کی مدد فرما۔
ظالموں جابروں ستم گروں کو ہدایت عطا فرما۔
یا اللہ
زمین پر امن سکون شانتی راست بازی ایمان داری سچائی دیانت داری نیکی نازل فرما۔
غرض اس طور کی دعا مانگی۔ میں ان کے پیچھے آمین کہتا رہا تاہم حیران ضرور ہوا کہ میرے یا اپنے لیے کچھ بھی نہیں مانگا حالاں کہ میں کافی دیر سے ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ دعا کے بعد میری طرف دیکھا۔ حال چال پوچھا اور سائل کا بچا ہوا تھوڑے سے بھی کم کھانا تناول فرما لیا۔ فراغت کے بعد میری طرف دیکھا‘ حیرانی میرے چہرے سے عیاں تھی۔ مجھے حیران دیکھ کر فرمانے لگے:
بیٹاِ‘ ڈیوٹی پہلے نماز بعد میں۔ انسان زمین پر ساری مخلوق کے لیے تخلیق ہوا ہے۔ وہ سخت بھوکا تھا اس کی بھوک مٹانا ضروری تھا۔ بچہ آگ کی طرف بڑھ رہا ہو تو نماز موقوف کرکے بچے کو بچانا چاہیے‘ ضروری نہیں یہ بچہ آپ ہی کا ہو‘ کوئی بھی ہو‘ کسی کا بھی ہو۔ تیسری آواز لگائے بغیر سائل نے چلے جانا تھا اس لیے میں نے نماز موقوف کر دی۔
اس کے کھانا کھانے کے دوران نماز اس لیے نہیں شروع کی کہ ممکن ہے اسے کسی چیز کی ضرورت پیش آ جائے اور وہ میری نماز کے حوالہ سے طلب نہ کر سکے۔
وہ بھوک میری ذاتی بھوک تھی جو کوئی معنویت نہیں رکھتی۔ دوسرا جو بچا میری بھوک مٹانے کے لیے کافی تھا۔
آپ گپ شپ کے لیے آئے تھے تو وہ ہم لگا ہی رہے ہیں۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکرا کرخوش آمدید بھی کہا تھا۔
میں تم اور ہمارے متعلقین بھی اللہ کی مخلوق ہیں لہذا مانگی ہوئی دعا میں ہم مع متعقین بھی تو شامل ہیں۔
اگر نماز میں اردگرد کا ہوش نہ رہے تو واپسی کب ممکن ہوتی ہے۔ میں منصور یا سرمد کہاں ہوں۔ گناہ گار بندہ ہوں اللہ پردے رکھنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ ہاں معافی سچے دل اور پورے خلوص سے مانگی جانی چاہیے۔
میں بابا جی کے ہاں ان کی باٹیں سننے اکثر چلا جاتا ہوں۔ ان کی باتوں میں محبت خلوص اور اپنا پن ہوتا ہے تب ہی تو بےاختیار قدم ان کے دردولت کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ یہ عملی صورت پہلی بار سامنے آئی تھی۔ اللہ کے احسان سے میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ بلاشبہ اس تبدیلی کی وجہ اور سبب با جی بنے۔ اس روز سے میرے دل میں ان کے لیے احترام اور عزت بڑھ گئی۔
 

فانی مقصو حسنی
About the Author: فانی مقصو حسنی Read More Articles by فانی مقصو حسنی: 184 Articles with 193063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.