یہ علامہ اقبال کے ایک شعر کامصرعہ ہے جوربع صدی سے امت
کا درد رکھنے والوں کے لیے امید کا استعارہ ہے مگر درا صل یہ محترمہ بنت
الاسلام کے ناول کا عنوان ہے جو سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔یہ
ناول 1978 ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا جب مشرقی بازو کو جدا ہوئے سات برس گزر
چکے تھے۔ آ نکھوں سے بہتے آ نسوؤ ں کو منجمد ہونے میں اتنا عرصہ تو لگتا ہے!
جی ہاں! کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جو رونے سے ہلکے نہیں ہوتے بلکہ دل اور
آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں۔سقوط ڈھاکہ بھی ایسا ہی ایک موضوع ہے۔
اس ناول کا انتساب مصنفہ نے نئی اور نوجوان خواتین اور اپنے اس عزیز ادارے
کے نام کیا ہے جہاں وہ درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہی تھیں اور اس کی
معنویت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ ناول کا ماحول
اسی کالج کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے تمام کردار معاشرے کی عکاسی کرتے نظر
آتے ہیں۔مثبت اور منفی، شیخی خور، جذباتی،دلچسپ اور خشک مزاج، جاہ پرست،
اسلام پسند اور لادین عناصر، حب الوطن اورغدار وطن...گویا معاشرے میں جتنے
اقسام کے کرادار پائے جاتے ہیں ان کی جھلک کالج کے اس ماحول میں نظر آتی
ہے۔یوں تو یہ ایک معاشرتی ناول کی صف میں شامل ہوگا مگر اس میں معاشرے کی
تعلیمی، اخلاقی، روحانی، نفسیاتی سے معاشی اور حتی کہ سیاسی صورت حال بھی
واضح دکھائی دیتی ہے۔ گویا اس ناول میں ایک معاشرے کے ہر قسم کے کردار کی
نمائندگی نظر آتی ہے۔کالج اور خصو صا ہاسٹل کی زندگی کی بھرپور جھلک نظر
آتی ہے۔اوران سے دابستہ کرداروں کے مسائل بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیے گئے
ہیں۔ ساتھ ہی ان کو کسی نہ کسی منطقی انجام کی طرف جاتا یا حل ہوتا بھی
دکھا یا گیا ہے۔
چار سو سے زیادہ صفحات پر لکھے گئے اس ناول میں بائیس ابواب ہیں جس کا آغاز
ایک تعلیمی، تفریحی دورے سے ہوتا ہے۔جس میں کالج کی لڑکیا ں اساتذہ کے
ہمراہ روانہ ہورہی ہیں۔قاری کی دلچسپی اس سفر کے ذریعے ملک کے بالائی
علاقوں کے جغرافیہ اور اپنی تاریخ سے ہوتی ہے۔ اگلے باب میں ہوسٹل کی سال
او ل کی طالبات گڑیا کی شادی کرتی نظر آتی ہیں ۔ اس منظر کشی میں طالبات کی
ہلکی پھلکی جھڑپوں کے دوران معاشرتی رسومات کو زیر بحث لایا جا تا ہے۔اس کے
بعد مختلف ابواب میں یکے بعد دیگرے کالج کی سر گرمیاں اسپورٹس ڈے، تقریری
مقابلہ، امتحانات کا موسم، سیلاب زدگان کے لیے ہونے والی کاروائیوں کے
علاوہ ٹیچرز میٹنگ، ٹیچرز اسٹاف روم میں ہونے والی شاعرانہ اور عالمانہ
بحثیں ماڈرن عورت خصوصا ورکنگ ویمن کے مسائل کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں اور
قارئین ان تمام مناظر، کرداروں اور مکالموں میں اپنے آپ کو کھوجتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج شاید مسائل کی نوعیت بدل گئی ہو مگر ان کے عنوانات
وہی ہیں جو اس چالیس سال پرانے ناول میں نظر آتے ہیں مثلا ٹیچرز میٹنگ کا
ایجنڈے کے تین نکات یوں ہیں:
۱۔ طالبات کا گستاخ اور شوریدہ سر ہوجانا
۲۔طالبات کے لباس کی بڑھتی ہوئی عریانی
۳۔بعض لیکچرر خواتین کا باقاعدگی سے کلاسیں نہ لینا اور کالج کے ٹائم ٹیبل
کی پرواہ نہ کرنا
طالبات اور اساتذہ کی اخلاقی صورت حال اور اس کی روک تھام کے اقدامات کا
ذکر بھی بڑے فطری انداز میں موجود ہے۔کالج میں موجود اسٹاف اور طالبات کے
مختلف اقسام کے گروہوں کے درمیان پایا جانے والے فرق کا ذکر ان الفاظ میں
ہے:
”....جن لوگوں کے دل میں دین اور وطن کی سچی محبت تھی۔وہ تو تن من دھن سے
مصیبت زدگان کی مدد میں مصروف ہوجاتے..... جن لوگوں کے دل میں دین اوروطن
کی اتنی گہری محبت نہیں تھی تاہم کچھ جذباتی لگاؤ ضرور تھا۔وہ اپنے اپنے
میلان طبیعت کے مطابق رویہ اختیار کر لیتے تھے۔ان میں سے بعض تو امدادی
کاموں میں مدد دیتے اور بعض جان بچا کر بھاگ جاتے اور......بہر حال یہ لوگ
دین ااور وطن کے خلاف ہرزہ سرائیوں میں مشغول نہیں ہوتے تھے۔اب رہا تیسر
اگروہ جن کے دل دین کی محبت سے بالکل خالی تھے اور جن کی نگاہوں میں اغیار
کے طور طریقے بسے ہوئے تھے انہیں اس عمارت سے بھی کوئی لگاؤ نہ تھا جو دین
کی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی۔ان کا رتبہ اونچا تھااور پاکستان ان سے بہت
نیچا تھا۔.....پاکستان بھی جب اپنی کوتاہیوں کے باعث پریشانیوں کا شکار
ہوتا تو ان نقادوں کا رویہ سخت غیر ہمدردانہ، ظالمانہ بلکہ دشمنانہ ہو جا
یا کرتا تھا..........ان دنوں جب پاکستان ایک لمبے عرصے سے سخت قسم کی
پریشانیوں اورالجھنوں کا شکار تھا، یہ تینوں گروہ اپنے اپنے مخصوص رویے کا
بھر پور مظاہرہ کر رہے تھے.....،.“
ناول میں ۰۷۹۱ ء کا زمانہ دکھا یا گیا ہے۔ اس کے حوالے سے ملکی صورت حال پر
بھی تبصرے، تجزیے، خدشات اورتفکرات مختلف کرداروں کی زبانی پڑھنے کو ملتے
ہیں۔اس میں انتخابات سے پہلے اور بعد کے واقعات اور حالات مکالمہ کی صورت
میں ہیں۔ خاص طو رپر عین انتخابات کے دن جعلی ووٹ ڈالنے اور ڈلوانے والے
حماقت بھرے مناظر دلچسپی کے ساتھ ہمارے انتخابی نظام پر ہلکی سی ضرب لگاتے
ہیں۔ انتخاب کے بعد ناول میں موجود تمام کرداراپنے اپنے نظریے کے مطابق رد
عمل دیتے نظر آتے ہیں۔
مصنفہ نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی کے تناظرمیں ایک تمثیل
کے ذریعے اپنے قارئین کو اس مسئلے سے آگاہی دینے کی کوشش کی ہے:
”...مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی حالت اس وقت ٹھیک ٹھیک مشابہت
رکھتی تھی۔ان دو بھائیوں سے جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور تعاون کر
کے، بڑی محنت اور کوشش صرف کر کے باپ دادا کے گروی رکھے ہوئے آبائی مکان کو
آزاد کرایا اور پھر باہمی محبت کی ترنگ میں آکر اکٹھے رہنے کا فیصلہ کر
لیا۔ اس وقت تو ایسی ایک دوسرے کی چاہت اٹھ رہی تھی کہ آمدنیاں اور اخراجات
بھی اکٹھے کر لیے۔ حد یہ کہ باورچی خانہ تک مشترک رکھا مگر تھوڑی ہی دیر
گزری تھی کہ کچھ اخلاقی کمزوریوں کے باعث اور کچھ دونوں کنبوں کے ایسے
عناصر کے باعث جو شروع ہی سے مشترکہ رہائش کے مخالف تھے،اختلاف سر اٹھا نے
لگے۔ اب اگر معاملہ گھر کے اندر تک رہتا تو بھی خیر تھی۔وہ آپس میں کچھ
سمجھوتہ کر ہی لیتے، مگر ستم یہ ہوا کہ ہمسائے اور اہل محلہ بڑے کینہ توز
تھے انہیں دونوں بھائیوں کا اتفاق ایک آنکھ نہیں بھا یا۔انہوں نے بڑے کو
چھوٹے کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا کہ دیکھو کماتے تم زیادہ ہو اور کھا تا
زیادہ چھوٹے کا کنبہ ہے اور عمر میں تم بڑے ہو اور گھر کا بندوبست کر نے کے
اختیارات زیادہ چھوٹے کے پاس ہیں۔بڑا بھی کچھ جذباتی ساواقع ہوا تھا،اور
معاملات کو دور تک دیکھنے کی صلاحیت سے بہت کچھ عاری تھا۔وہ ان لگائی
بجھائی کرنے والوں کی باتوں میں آکر آئے دن چھوٹے سے بگڑ نے لگا...... ”جو
کچھ ہوگا دیکھا جائے گا۔“ بڑے نے کمال بے نیازی سے کہا ”بس اب مجھے اپنی
کمائی کا ایک پیسہ بھی تمہارے ہاتھ پر نہیں رکھنا اور اپنے کنبے کا بندوبست
بھی میں خود کروں گا...تم اپنے کنبے کو سنبھالو...“
یہ تمثیل ملکی حالات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ایک ایسا ناول جس کے قارئین
کی غالب اکثر یت خواتین کی ہوسکتی ہے اس مثال کے ذریعے سقوط مشرقی پاکستان
کو کسی تاریخی کتب کے مقابلے میں بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار منزہ اصغر، اسلامیات کی لیکچرر ہے جو ایک قدامت
پسند جاگیردارانہ پس منظر رکھنے کے باوجود تعلیم اور اس کے
نتیجے میں در آنے والے شعور سے مالال ہے۔ خاندان اورخاص طور منگیتراس کی
ملازمت کے شدید مخالف ہیں مگر اپنے والد کی ر ضا مندی اور حوصلہ افزائی کے
باعث وہ اس پیغمبری پیشہ سے منسلک اپنا کام عبادت سمجھ کر کر رہی ہے۔
طالبات میں مرکزی کردار ثمر کا ہے۔ایک ذہین،باشعور اور اپنی عمر سے کہیں
سنجیدہ اور بہادر طالبہ ہوسٹل میں رہائش پذیرہے اس کے والد مشرقی پاکستان
میں ملازمت کرتے ہیں جنہیں بنگالی شدت پسندوں نے مشرقی پاکستان میں شہید کر
کے لاش دریا میں ڈال دی۔اطلاع پہنچنے پر گھر میں سوگ کی منظر کشی پر قاری
بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤ ں کو ضبط کرتا ہے۔کالج اور ہوسٹل اسٹاف تعزیت کو
آتا ہے۔کی بیوہ ماں اس صدمے سے نڈھال ہے ۔اس ذہنی کیفیت میں کہے گئے جملے
نظریہ پاکستان کے مقصد کو سامنے لاتے ہیں:
”......اس رات پاکستان بنا تھا....میں نے اس رات بہت عبادت کی تھی...۔وہ تو
ستائیسویں کی رات تھی....خیر و برکت کی رات....میں نے اس رات بہت دعا کی
تھی....!!!“
ناول کے اختتامی ابواب کی طرف جاتے جاتے مشرقی پاکستان کے بعد مغربی
پاکستان میں بھی جنگ چھڑ جاتی ہے اور آخری پانچ ابواب میں اسی حوالے سے سر
گر میوں، انسانی نفسیات، جذبات، رویوں اور سر گر میوں کی منظر کشی کی گئی
ہے ۔ جنگ کی ہولناکی میں کس طرح سب اپنے اپنے اختلافات،رنجشیں اور شیخیاں
بھول کر ملک کی سلامتی کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔اس میں اجتماعی استغفار
اور دعاؤں کی محافل بھی ہیں اور رضا کارانہ امدادی سرگر میاں جن میں فنڈ
جمع کرنے سے لے کر فوجیوں کے لیے گرم کپڑوں کی تیاری، تحائف کی تقسیم، اور
زخمیوں کی عیادت تک شامل ہے۔ان کے ساتھ فوجیوں کی بیگمات بھی شامل ہیں جو
چند سال پہلے بھی ان حالات سے گزر چکی ہیں لیکن اس دفعہ کے حالات کیوں
مختلف ہیں اس مکالمے سے معلوم ہوتی ہے :
”...۵۶۹۱ء کی جنگ اور اس جنگ میں بہت فرق ہے“ بیگم امتیاز نے کہا۔ ”وہ جنگ
تھی یہ گویا خانہ جنگی ہے۔تب ہم سب مل دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے، اب یہ
خیال ہی کافی جان لیوا ہے کہ مقابلے میں غیر ہی نہیں اپنے بھی ہیں...“
جنگ کے غیر معمولی حالات میں ان ہی سر گر میوں کے دوران زنانہ گفتگو میں
بہت سے جوہر کھلتے ہیں۔ایک خواب جو سب کو دہلا دیتاہے۔
”... میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت سی کرسی ہے اور اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی
ہے تو میں بہت روتی ہوں اور تڑپتی ہوں کہ کسی طرح یہ جڑ جائے مگر وہ نہیں
جڑتی..... وہ کرسی سے علیحدہ ہو کر نیچے گر جاتی ہے۔اس پریشان کن خواب کو
سن کر کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ تبصرہ کرسکے:
”...آپ کی کیا مراد ہے مس...“ زرفشاں نے کہا ”...وہ کرسی پاکستان تھی اور
اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ...“ اس نے اپنے اندر اتنا حوصلہ نہ پایا کہ بات کو
پورا کر سکے۔کچھ خواب جن سے حاضرین محفل تو ضرور مسرور نظر آتے ہیں مگر
قاری جو تاریخ کے اس سانحہ سے آگا ہ ہے اس خواب کو زیادہ اہمیت دیتا ہے جو
منزہ اصغر نے دیکھا تھا:
رسول خدا ﷺ حسین، مقدس، پاکیزہ اور باوقار چہرہ لیے تشریف لائے ہیں......نہ
مقدس لب ہلے تھے اور نہ کچھ فرمایا گیا تھا مگر لمبی لمبی پلکوں والی سر
مگیں آنکھوں سے موتیوں کی طرح آنسوؤں کے قطرے ٹپک رہے تھے اور وہ خاموشی
غمگینی ہزار ہا داستانیں بیان فرما رہی تھی۔! کیسی اندوہناک پیشن گوئی تھی
اس بد نصیب قوم کے لیے جسے ”امتی“ کے معزز لقب سے سر فراز فرمایا جا چکا
تھا ........اسے اس امر میں ذرا سابھی شک نہ رہا تھا کہ اس مقدس چہرے پر
حزن کے آثار کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مغربی پاکستان کی بازی ہر چکی
تھی۔چھوٹا بھائی بری طرح مات کھا چکا تھا اور وہ بڑا نادان ”فاتح“ اپنی
غلامی کی دستاویز پر دستخط کر رہا تھا۔یہ خواب تھایاتخیل مگر رات سولہ
دسمبر کی تھی۔
سقوط ڈھاکہ!
آخری باب میں منزہ اصغرکی شادی کا منظر اپنے اسی منگیتر کے ساتھ ہے مگر اس
عظیم سانحے کے سامنے مزاجوں کے اختلاف کی حیثیت ختم ہو چکی ہے اور امید کے
سائے لیے ناول اختتام کو پہنچتا ہے۔اس ناول کو پڑھنے والی تیسری نسل جوان
ہوچکی ہے۔ اور نئی نسل کو اپنے مستقبل کی تصویر گری میں ضرور اس ناول سے
استفادہ حاصل کرناچا ہیے۔ |