پا نی ہی وہ بنیادہے جس سے جانداروں کی تخلیق ہو ئی ۔ لا
کھوں سال سے انسان وہیں بستا آ یا جہاں سے دریائیں گذر تی ہیں یا پھر سا حل
سمندر پہ۔ جہاں سے دریائیں گذرتی ہیں وہاں کے سا حلوں پہ درختوں اور پودوں
کی وجہ سے سبز شا دابی ہو تی ہے ۔ اور پھر دریاؤں میں مچھلیاں اور جنگلات
میں جانور ، پرندے ، سبزی اور پھل پا ئے جا تے ہیں ۔ انھیں کو کھا کر انسان
زندہ رہتا ہے۔ دریائے ایمازون ، ہوانگ ہوا ، ڈینیوب ، نیل، فرات ، دجلہ ،
سندھ ، گنگا، جمنا جہاں سے گذر رہی ہیں اسی کے سا حلوں پہ اربوں لوگ آ باد
ہیں ۔ سب سہارا اور گو بی چونکہ رگستان ہے اسلئے آ بادی بھی بہت کم ہے ۔
ہاں کسی زما نے میں جب افریقہ میں دریائیں زیادہ ہو تی تھیں اس وقت افریقہ
سبزو شاداب تھا ۔ پہاڑوں کی چو ٹیوں سے برف پگھل کر سطح زمین پر آ گرتا ہے
اور پھر سمندر میں جا ملتا ہے ۔ اسے محفوظ کر نا ہمارا کام ہے نہ کہ دریاؤں
کا ۔ جہاں زیادہ درخت ہو تے ہیں وہیں بارش بھی زیادہ ہو تی ہیں ۔ جیسا کہ
چیرا پنجی ، آسام میں سب سے زیادہ بارش ہو نے کی وجہ سے یہاں جنگلات کی بھر
مار ہیں ۔ ایک انسان کو جینے کیلئے کم از کم سات درختوں کی ضرورت پڑ تی ہے
جس میں اسے بھر پور آ کسیجن مل سکے ۔ درختوں کی کمی ہو نے کی وجہ سے اور
صنعتی آ لودگی کی وجہ سے فضا کاربن سے آ لودہ ہو جا تا ہے ۔ اس وقت دنیا
میں بھو ٹان وا حد ملک ہے جہاں فضا میں کار بون نہیں ہے ۔ وہاں 64 فیصد
زمینی رقبہ پر جنگلات ہے ۔چونکہ چین میں کو ئلے سے بجلی زیادہ پیدا کی جا
تی ہے اسلئے وہاں کچھ علاقوں میں تیزابی بارش بھی ہو تی ہے ۔ اسرا ئیل دنیا
کا واحد ملک ہے جہاں کے گٹر کے 90فیصد پا نی کو پینے کا شفاف پا نی میں
تبدیل کیا جا تا ہے ، اس سے 15لاکھ لو گوں کو پا نی فرا ہم کیا جا تا ہے ۔
یہاں کی کل 77لاکھ کی آ بادی ہے ،با قی عوام کو سمندر کے نمکین پا نی کو
پینے کے صاف پا نی میں تبدیل کیا جا تا ہے ۔ اسرا ئیل میں صرف5فیصد پا نی
ضائع ہو تا ہے ۔ یہ کام تب شروع کیا گیا تھا جب تیل ابیب کا میئر کمیونسٹ
پارٹی کا تھا اور اب اسرا ئیل دنیا کا نمبر ایک ملک شفاف پا نی کی فرا ہمی
کا بن چکا ہے ۔ یہ کام تب شروع ہوا تھا جب اسرا ئیل میں پا نی کی شدید قلت
پیش آ ئی تھی ۔جبکہ اسرا ئیل کے پاس ہمارے طرح اتنے وسا ئل ہیں اور نہ معد
نیات۔ہمارے ملک میں سو نا چاندی، سلفر، کروم،تانبا، تیل ، کو ئلہ، گیس ،
قیمتی پتھر اور پھلوں سے لدی ہو ئی سر زمین اور پہاڑیاں ہیں ۔ اس وقت دنیا
کہ جن چند ملکوں میں پا نی کی شدید قلت ہے ان میں پا کستان سر فہرست ہے ۔
یہاں کے تا لا بوں ، ندی ، نا لوں ، زیر زمین پا نیوں اورکو ؤں کے پا نی 2
سے 3سو فیصد آلودہ ہیں ۔ کرا چی جیسے دو کروڑ سے بھی بڑی آ بادی وا لا شہر
پا نی کی شدید قلت کا شکار ہے ۔ خاص طور پر بلدیہ ٹا ؤن ، اورنگی ٹا ؤن،
نیو کراچی، ملیر، لا نڈھی کو رنگی، کیماڑی، لیاری ، ماڑی پور، لیاقت آ باد،
نا ظم آ باد، گلستان جو ہر اور گلشن اقبال وغیرہ ۔ ہزاروں رو پے میں بھی
ٹینکر کا پا نی دستیاب نہیں ہو پا تا ، لوگ پا نی کیلئے مارے مارے پھر تے
ہیں ۔ ایک طرف شدید آ لودہ پا نی لوگ پینے پر مجبور ہیں تو دوسری جانب پا
نی چو ری ہو تا ہے ۔ جھیل سے کرا چی پا ئپ کے ذریعے آ نے وا لے پا نی جو کہ
دو لاکھ اسی ہزار گیلن ہو تا ہے ، بھینس کا لو نی کے پاس سے اسی ہزار گیلن
چو ری ہو جا تا ہے ۔ کرا چی میں ٹینکر ما فیا کا راج ہے ۔ حکو متی کارندے،
بلدیاتی کارندے ، رینجرز اور پو لیس کی سر پرستی میں ٹینکر ما فیا پا نی کا
کارو بار کر تی ہے ۔ ہم تیس تیس منزلہ عمارتیں بناتے جا رہے ہیں، دو دو
کروڑ کی بو لیٹ پروف گا ڑیاں خرید رہے ہیں ، اربوں رو پے کی اسلحہ سازی اور
عیاشیوں پر خرچ کر رہے ہیں لیکن تھر پار کر، نگر پارکر اور چو لستان کے
عوام کو شفاف پا نی مہیا نہیں کر پا رہے ہیں ۔ 13 کھرب رو پے کا فو جی بجٹ
پیش ہو تا ہے ، اربوں رو پے کا کا رپشن ہو رہا ہے ، اربوں رو پے آ ایم ایف
سے قرضے لئے جا رہے ہیں ، کھربوں رو پے لیکر لوگ ملک سے فرار ہو رہے ہیں
لیکن عوام کو صاف پا نی مہیا نہیں کر رہے ہیں ۔ بہت سے علا قوں میں پینے کے
پا نی میں انسانی فضلے گھل مل جا تے ہیں ، جسکا لیبارٹی میں ٹیسٹ بھی ہو
چکا ہے ۔ 50فیصد بیما ریاں آ لو دہ پا نی کی وجہ سے پیدا ہو تی ہیں اور پھر
انکے علاج پر اربوں رو پے خرچ ہو تے ہیں ، یہ دوائیں بھی ملٹی نیشنل
کمپنیاں ہمیں فروخت کر کے لوٹتی ہیں ۔ اگر ہم پا کستان میں بھو ٹان کی طرح
64فیصد جنگلات لگا دیں اور دفاعی اخرا جاات میں 50فیصد کمی کر دیں تو پا نی
کا مسلہء ایک دم حل ہو جا ئیگا ۔ جب جنگلات سے ملک بھرجائیگا تو لو گوں کو
آکسیجن ملے گا ، پھل ، مچھلیاں اور سبزیاں ملیں گی اور ان میں آ لودگی بھی
نہیں ہو گی۔ لیکن فو ری پا نی کے مسلے کے حل کیلئے ڈیم بنا یا جا ئے ، شفاف
پا نی مہیا کیا جا ئے ، نجی با غوں میں پا نی کی ترسیل روک کر غریب بستیوں
میں پینے کا پا نی فرا ہم کیا جا ئے ۔گلگت بلتستان سے ہم صرف پا کستان میں
بلکہ پورے بر صغیر کو صاف پا نی فرا ہم کر سکتے ہیں ، مگر ہم سارے اخراجات
دفاع پر خرچ کر دیتے ہیں ۔ ایک جا نب لوگ ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں تو
دوسری جا نب دو دو سو روپے کا مینرل واٹر استعمال ہو تا ہے ۔ اب جس مزدور
کی کل روز کی دھیاڑی دو سو روپے ہے وہ دال ، آٹا، چاول خریدیگا یا مینرل
واٹر ۔ اس لئے اسلئے اس سر ما یہ نظام کو بدل کر ایک ایسا سماج قا ئم کر نا
ہو گا جہاں سب مل کر پیدا وار کریں اور مل کر کھا ئیں ۔ |