کشمیر کے کمسن نوجوان ستر سال پہلے بھی کشمیر پر ہندوستان
کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور آج بھی کشمیری نوجوانوں میں
14،15سال کے نوعمر لڑکے ہندوستانی فوج سے لڑتے ہوئے کشمیرکی آزادی کی
جدوجہد کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ 70سال پہلے نوعمر کشمیری لڑکے بھی سیاسی
جدوجہد میں سرگرمی سے شامل تھے اور 1990سے اب تک نوعمر کشمیری بھی ہندوستان
کے خلاف آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔گزشتہ ہفتہ کے روز بھارتی
فورسز نے سرینگر کے قریب نارہ بل کے مجہ گنڈ علاقے کوگھیرے میں لے
لیا۔فریڈم فائٹرز اور ہندوستانی فوج کے درمیان ہفتے کی شام کو جھڑپ شروع
ہوئی جو کئی گھنٹے مسلسل جاری رہی۔تین مجاہدوں نے بھارتی فوجیوں کو تگنی کا
ناچ نچا تے ہوئے متعدد فوجیوں کو شدید زخمی کر دیا۔مجاہدین سے دوبدو لڑائی
میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی فوجیوں نے مارٹر گنوں سے گولہ باری کرتے
ہوئے تین مکانوں کو تباہ کر دیا لیکن مجاہدین نے مکان بدلتے ہوئے بھارتی
فوج کے مارٹر حملہ کو ناکام بنا یا۔ناکامی کی اس صورتحال میں رات بارہ بجے
بھارتی فوج نے آپریشن روک دیا ۔ہزاروں فوجیوں نے ایک وسیع علاقے کو خار دار
تاروں سے بند کر کے فوجیوں کے پانچ حصار قائم کئے اور اتوار کو فجر کے وقت
دوبارہ حملہ شروع کر دیا۔بھارتی فوج نے مارٹر سے گولہ باری کرتے ہوئے مزید
تین مکان تباہ کر دیئے جہاں سے بعد میں برسرپیکار تین مجاہدوں کی لاشیں
برآمد ہوئیں۔
مجہ گنڈ میںاس شدید لڑائی کے دوران ارد گرد کے علاقوں سے بڑی تعداد میں
نوجوان جھڑپ کے مقام کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے بھارتی فوجیوں پر شدید
پتھرائو کیا۔نوجوانوں کے ایک گروپ نے شدید پتھرائو کرتے ہوئے جھڑپ کے مقام
میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی۔بھارتی فوجیوں نے ان نوجوانوں پر براہ راست
فائرنگ کی جس سے آٹھ نوجوان گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے جنہیں سرینگر کے
صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ منتقل کیا گیا۔مقامی میڈیا کے مطابق ملورہ ، مجہ
گنڈ اور نارہ بل میں فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد
زخمی ہوئے۔فورسز نے پیلٹ گنوں کا استعمال بھی کیا جن میں سے کئی نوجوان
زخمی ہوئے اور چند ایک کی بینائی بھی متاثر ہوئی ۔ بھارتی فوجی شہید
نوجوانوں کی لاشیں لیکر وہاں سے روانہ ہوئے تووسیع علاقوں سے مرد و زن باہر
نکل آئے اور انہوں نے بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے
لگائے۔
یہ معلوم ہونے پر سب حیران رہ گئے کہ 18گھنٹے تک بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے
والے دو مجاہد شمالی کشمیر(کمراز) کے بانڈی پورہ ضلع کے ایک قصبے حاجن کے
رہنے والے ،14سالہ مدثر رشید پرے( مدثر بلا)اور 15سال کا ثاقب بلال ہے۔
تیسرے مجاہدعلی بھائی کا تعلق پاکستان سے بتایا جا رہا ہے۔ سرخ و سفید
رنگت،نیلی آنکھوں اور معصوم چہرے والا 14سالہ مدثر ایک مہینہ پہلے ہی
کشمیری مجاہدین کے ساتھ شامل ہوا اور شہید ہونے سے چند ہی روز قبل اس کی
بندوق تھامے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی۔مدثر سکول میں زیر تعلیم
تھا اور سکول کے بعد مزدوری کرتا تھا کیونکہ اس پر اپنے بیمار والدین،معذور
بھائی اور ایک بہن کی کفالت کا بوجھ بھی تھا۔سوشل میڈیا پہ مدثر کی ایک
وڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں مدثر کشمیر کے برفانی پہاڑ اورگھاس کے میدان کے
پس منظر میںبیٹھا اپنی دلکش آواز میں نعت پڑھ رہا ہے،
میرے بے چین دل کو وہیں پر مصطفے کا خیال آ گیا ہے
بات جب حق و باطل کی آئی فاطمہ کا خیال آ گیا ہے
شہید ہونے والے حاجن کے ہی مدثر کے دوست ،15سالہ ثاقب بلال بھی سکول کا
طالب علم تھا۔ ثاقب بلال نے چند سال قبل مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی
جدوجہد آزادی اور کشمیریوں پر بھیانک بھارتی مظالم کے بارے میں بھارت میں
بنی '' حیدر '' نامی فلم میں بھارتی اداکار شاہد کپور کے ساتھ کام کیا
تھا۔ثاقب بلال کی عمر اس وقت تقریبا دس سال تھی جب اس نے فلم ''حیدر '' میں
کام کیا تھا۔وہ فلم کے ایک شاندار گانے میں شامل تھا۔اس گانے میں ثاقب تین
بوڑھے کشمیریوں کے ساتھ شامل ہے جو ایک قبرستان میں ،گہری برف میں قبریں
کھودتے ہوئے کشمیریوں کے بے دریغ قتل عام کا نوحہ گا رہے ہیں۔کشمیر کی
صورتحال پر بننے والی ہندوستانی فلم '' حیدر'' میں کام کرنے والے 15سالہ
ثاقب بلال کو بھی بھارتی فوج نے اس کے14سالہ معصوم دوست مدثر پرے کے
ساتھ18گھنٹے کی شدید جھڑپ کے بعد گولہ باری سے شہید کر دیا۔سرینگر کے میڈیا
میں شائع خبروں کے مطابق 14سال کے مدثر اور15سال کے ثاقب نے گھنٹوں طویل اس
معرکے میں بھارتی فوج کو زبر دست ٹکر دی۔وہ مکان بدل بدل کر بھارتی فوجیوں
سے مقابلہ کرتے رہے۔ان کی فائرنگ اتنی موثر تھی کہ جس سے متعدد بھارتی فوجی
زخمی ہوئے اور فائرنگ میں بھارتی فوج ان کے سامنے بے بس رہی۔بھارتی فوج نے
مارٹر گولہ باری سے تین مکان تباہ کر دیئے لیکن نوعمر مجاہدین نے مکان بدل
کر مقابلہ باری رکھا۔اس کے بعد بھارتی فوج نے ان مکانوں کو بھی گولہ باری
سے تباہ کر دیا جس میںموجود کمسن کشمیری لڑکوں نے بھارت کی پیشہ ور فوج کا
تماشہ بنا دیا۔
کشمیر پر فوجی تسلط کو ظالمانہ طور پر قائم رکھنے والا بھارتی مکتبہ فکر اس
بات پہ خوش رہتا تھا کہ'' کشمیری مارشل ریس'' نہیں ہیں۔لیکن 1989سے مقبوضہ
کشمیر میں بھارت سے آزاد ی کی مسلح جدوجہد شروع ہونے کے بعد کشمیری مسلسل
بھارت کی ظالمانہ فوجی کاروائیوں کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں اور بالخصوص
اب مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی بھارتی فوج سے خوفزدہ نہیں بلکہ عام کشمیری
نہتے ہاتھوں ہی مسلح بھارتی فوجیوں کو للکارتے ہوئے انہیںبھاگنے پر مجبور
کر دیتے ہیں۔بھارت کی فوج کشی کے ماحول میں پیدا اور جوان ہونے والے بھارت
کی فوجی طاقت سے نہ صرف بے خوف بلکہ دلیرانہ مزاحمت سے دنیا کی آزادی کی
تحریکوں میں ایک شاندار داستان رقم کر رہے ہیں۔ 14سال اور15سال کے کمسن
کشمیری لڑکوں کا ہتھیار اٹھاتے ہوئے بھارتی فوج کے خلاف آزادی کی مزاحمتی
تحریک پورے جوش و جذبے سے جاری رکھنا ہی کشمیر کی طویل آزادی کی تحریک کی
کامیابی کی روشن نوید ہے۔14سال کے مدثر اور15سال کے ثاقب نے بھارت پر
کشمیریوں کے اس عزم کا بھرپور طور پر اعادہ کیا ہے کہ کشمیریوں کے خلاف
بھارت کی فوج کشی،ظلم کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔براہمن تو خود
کو عقل و دانائی کا شاہکار تصور کرتا ہے، اسے یہ سمجھ جانا چاہئے کہ اب
بھارت کسی بھی طرح کشمیریوں کو خوفزدہ نہیں کر سکتا،انہیں ان کے عزم آزادی
سے روک نہیں سکتا۔کشمیری حصول آزادی کے لوازمات تیزی سے پورے کرتے جا رہے
ہیں۔ |