کالج میں امتحانات کے سالانہ نتائج کا اعلان ہونے کے
بعدایک ناکام طالبعلم کا اپنے استاد سے استفسار ؟
سر! آپ نے مجھے فیل کردیا!
استاد : میں نے کسی کو بھی فیل نہیں کیا بلکہ تمام طلباء کو 100 نمبرز دیئے
ہیں!
طالبعلم:100 نمبرز تو کسی طالب علم کے نہیں ہیں۔ کسی کے کم،کسی کے زیادہ ۔اور
مجھے تو آپ نے واقعی فیل کیا ہے، ایسا کیوں ہے؟
استاد:نہیں میں نے توواقعی 100 نمبر ہی کے سوالات دیئے تھے۔ لیکن ہرطالبعلم
نے اپنی لیاقت، ذہانت، صلاحیت،محنت کے مطابق جوابات رقم کیے اوراپنے جوابات
کے مطابق نمبر(ارقام) حاصل کیے۔
اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ نمبر تم نے اپنی محنت سے خود حاصل کئے ہیں تو
جتنے بھی نمبر تم نے حاصل کیے ہیں تم ان کے حقدار ہو اورجو اس میں کمی رہ
گئی اسے اگلی بار مزید محنت سے حاصل کرو! اوراگر یہ نمبر تم نے خود محنت سے
حاصل نہیں کیے بلکہ میں نے دیئے ہیں پھرانہیں خیرات سمجھ لو!بیٹا یہ ذہن
میں رکھو کہ خیرات کے حصول میں ڈیمانڈ نہیں چلتی، جتنی ملی۔شکرادا کرو!
بیٹا: ہم اس نہج پر سوچتے ہی نہیں کہ دوسروں کی طرح مجھ سے بھی کوئی غلطی
سرزد ہوسکتی ہے۔کوئی شخص بھی معصوم عن الخطا نہیں ۔ بقول نظمی
سبھی مجرم ہیں یہاں آپ بھی،میں بھی،وہ بھی
سارے الزام مگرایک کے سرجائیں گے
ہرشخص دوسروں پر الزام اس طرح ڈالتا ہے کہ صرف سامنے والا ہی خطاؤں کا پتلا
ہے اور وہ تو جیسے دودھ کا دھلا ہوا ہے۔اس طرز فکر سےمسائل کبھی حل نہیں
ہوتے، ان میں اضافہ ضرورہوتا رہتا ہے۔
ایک تمثیل:
بیٹا:اپنی بات کی مزید وضاحت کے لئے میں آپ کے سامنے ایک تمثیل بیان کرتا
ہوں:
ایک طالب علم اپنی لاپرواہی کے سبب اپنا ایڈمٹ کارڈ اپنے بستر پر چھوڑ دیتا
ہے جہاں سے اس گھر کا کوئی چھوٹا بچہ اسے اٹھاکر فرش پر پھینک دیتا
ہے۔پھروہاں سے گھر میں صفائی کرنے والی اسے کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیتی
ہے اور کچرا اٹھانے والا اس ایڈمٹ کارڈ کو اس بچے سے مستقل دورکردیتاہے۔یوں
ایڈمٹ کارڈ نہ ہونے کے سبب طالب علم پرچہ میں حاضر نہیں ہوپاتا اور اس کا
سال ضائع ہوجاتا ہے۔بھلا اس پورے واقعہ میں قصوروار کون ٹھہرا؟غلطی کے
نتائج کون بھگتے گا؟دوسروں پر الزام ڈالنے یا لعن طعن کرنے سے بھلا
کیافائدہ حاصل ہوگا؟
بیٹا: یہ تمثیل آپ کے سامنے ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو
اپنی زندگی بھی مشقت میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کی بھی۔ پھر دوسروں کے سامنے
ہر وقت شکو ہ کناں رہتے ہیں کہ کاروبار بند ہے گھریلو حالات نہایت پریشان
کن ہیں اپنے قریبی رشتہ دار واحباب بلکہ اپنی اولاد تک سے بھی نالاں رہتے
ہیں۔الزام دوسروں پر ڈالنا ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے حالانکہ یہ رویہ تو
جہنمیوں کا ہے جو روز محشر بھی اسی دھوکہ میں مبتلا ہوں گے۔ یہاں تک کہ
روزمحشر بھی یہ اسی دھوکہ میں مبتلا ہونے کے سبب رب سے فریاد کریں گے کہ اس
دوسرے گروہ کو دگنا عذاب دے جس پر رب فرمائے گا تم دونوں گروہوں کے لئے
دگنا عذاب ہے لیکن تم جانتے نہیں ہو۔قرآن مجید جہنمیوں کے اس رویہ کی وضاحت
کچھ ان الفاظ میں کرتاہے :
قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ
وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا
ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ
لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا
مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ
(الاعراف:38)
اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جن و انس میں سے جو امتیں تم سے پہلے گزرچکی ہیں تم
بھی ان کے ہمراہ دوزخ میں داخل ہو جاؤ، جب ایک امت داخل ہوگی تو وہ دوسری
امت پر جو(گناہوں میں) اس جیسی ہوگی لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب سب
(امتیں) اس میں (یعنی دوزخ میں) گرچکیں گی ، تو ان کی پچھلی امت پہلی امت
کے متعلق کہے گی کہ اے ہمارے رب! ہمیں انہوں نے گمراہ کیا۔پس تو ان کو آتشِ
جہنم کا دونا عذاب دے(اللہ تعالیٰ) فرمائے گا کہ ہر ایک کے لئے دوگنا
(عذاب) ہے لیکن تم جانتے نہیں۔(الاعراف:38)
ہمارے معاشرے میں دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے کی عادت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ
اگر وہ کسی اورکو مورد الزام نہ ٹھہراسکیں تو پھر تقدیر کو ہی ذمہ دار
ٹھہرادیں گے کہ ہماری تو تقدیر میں ہی یہ لکھا تھا۔ اس قبیل کے افراد کے
لئے اقبال عظیم صاحب نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:
قصور کس کا ہے اپنے ضمیر سے پوچھو
خدا کے واسطے تقدیر کا گلہ نہ کرو
مقام تاسف:
بیٹا اس رویہ کے حامل تم تنہا فرد نہیں ہو۔سوائے چند معدودہ افراد کے بلا
تخصیص دیندار طبقہ یا سیکولر طبقہ پورے کا پورا کارواں تمہارا ہمرکاب،ہم
مشرب اورہم مسلک ہے۔ ہمارا عجب معاشرہ اورعجب مزاج ہے۔ پورا معاشرہ ایک
دوسرے پرالزام تراشی کرنے میں مصروف ہے۔الزام تراشی کے اس زہریلے ناگ سے ہر
ایک دوسرے کو ڈسنے میں مصروف ہے اوریوں اپنی غلطیوں کا تدارک نہ کرکے آخر
کار خود ناکام ہوکراس ناگ کے زہر کا شکار ہوجاتےہیں:
اوروں پر الزام تراشی فطرت ہے ہم لوگوں کی
سچ پوچھو تو پال رکھے ہیں ہم نے خود زہریلے ناگ
شو رتن لال برق پونچھوی
کرپشن بڑھتی جارہی ہے،تعلیم ابتری کا شکار ہے، لاء اینڈ آرڈر میں بہتری
نہیں آرہی ہے، ہسپتالوں میں صحت وصفائی کی صورتحال ابتر ہے۔ لیکن عام آدمی
سے اعلیٰ انتظامیہ تک سب ایک دوسرے کومورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ ہر ذمہ دار
شخص اپنی ناکامی کاملبہ دوسروں پر ڈال کر خود کو مطمئن کرنے کی کوششوں میں
مصروف ہے۔ مثلاً ہمارا پرائمری کلاسز کے طلباء سے لے کر ہائر کلاسز تک
،وکلاء سے ججز تک، کونسلر سے سٹی ناظم تک،عام سیاسی کارکن سے وزیراعظم تک،
اساتذہ سے انتظامیہ تک ہر ایک دوسروں کی جانب انگلیاں اٹھائے شکوہ کناں
بلکہ نوحہ خواں ہے۔اوریہ لاحاصل شکووں کاانبار آنکھوں میں اشک ہی لاسکتا ہے
، پانی ہی لاسکتا ہے مزیداس پانی میں طغیانی ہی لاسکتاہے۔۔۔کامیابی نہیں
دلاسکتا۔بقول احمد فراز
شکوۂ ظلمتِ شب سے توکہیں بہترتھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
جملہ معترضہ:
یہ رویہ صرف خیرات، چندوں اوردوسروں کے ٹکڑوں ہی کوحسرت اورملنے کی امید سے
دیکھتا ہے۔ اور اس میں بھی ڈیمانڈ کا عنصر شامل ہوچکاہے۔ یہ سوچے سمجھے
بغیر کہ خیرات کے حصول میں ڈیمانڈ نہیں چلتی، جتنی ملی۔صبرکرو،شکرادا کرو!
ہمارا حال یہ ہے کہ ضمیر کوسلانے کی کوشش کی جارہی ہے(دوہ چیز جو اول تو اب
ہم میں ہے ہی نہیں اوراگر ہے تو شایدبسترمرگ پر اپنی آخری سانسیں لے رہاہو
) ۔یہ بھی نہیں سوچتے نکتہ بعد الوقوع یعنی ناکامی،ذلت ورسوائی کے بعد
اگرہم اپنی ناکامی کا ملبہ کسی اورپرڈالیں گے تو اس سے ہماری ناکامی
کامیابی میں نہیں بدل جائیگی۔ بلکہ ایسا کرنے سےمزید دوبہت بڑے نقصان
رونماہوسکتے ہیں۔
اول ہم اپنے اردگرد کے افراد سے معاشرتی تعلقات بھی خراب کرلیتے ہیں اوربعض
اوقات ایسا کرنے میں ہم اپنے مخلص اوردیرینہ دوست کھوبیٹھتے ہیں۔دوم یہ
لمحہ فکریہ ہے کہ جب ہم اپنی خامیوں پر غور ہی نہیں کریں گے، پھران کو
تسلیم کیسے کریں گے اور بھلا ان کا تدارک کیسے کریں گے؟
ویسے ہمارے معاشرتی رویہ کا ایک اورعجیب لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہر
شخص یہی اعلان کرتا ہوانظرآتاہے کہ میں تو اپنی غلطی تسلیم کرنے والوں میں
سے ہوں(شاید اس لئے کہ غلطی تسلیم کرنا ایک اچھائی سمجھا جاتاہے) لیکن غلطی
ہوگی تو تسلیم کی جائے ۔ یعنی بالفاظ دیگر مجھ سے تو کوئی غلطی ہوتی ہ
نہیں۔یوں کہتے ہوئے اپنی سینکڑوں غلطیوں سے صرف نظرکرتے ہوئے اپنی غلطیوں
کا ایک انبار لگاتاجاتاہے اوردوسروں پر الزام۔
اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم دوبارہ اس مقام پر آکرپھر شکست
کھاجائیں گے کیونکہ ہم اس زعم میں مبتلاہوں گے میں تو سوفیصد صحیح تھا
اوریہ ناکامی فلاں فلاں بندوں کی وجہ سے ہے۔ جب میں اپنی غلطی صحیح کرنے کی
کوشش ہی نہیں کروں گا تو سائنٹفک فارمولہ کا نتیجہ تو وہی نکلے گا ۔جس کے
لئے کسی راکٹ سائنس کی قطعاً حاجت نہیں۔ بیٹا ایک نصیحت غور سے سنو اوراسے
گرہ میں باندھ لودوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنی اصلاح کرو جس سےہر
آنے والا لمحہ پہلے سے بہتر ہوگا۔ Paulo Coelho, Aleph کا قول ہے کہ :
It's always easy to blame others. You can spend your entire life blaming
the world, but your successes or failures are entirely your own.
دوسروں پر الزام لگانا بہت آسان ہے۔تم اپنی پوری عمر دنیا والوں پر الزام
لگانے میں صرف کرسکتے ہو لیکن تمہاری کامیابی یا ناکامی وہ صرف تمہاری
ہے(یعنی تمہاری کامیابی سے سے دنیا والوں کو کچھ لینا یا دینا نہیں بلکہ وہ
تمہارے صحیح رویہ پر منحصرہے)۔
قابل غورنکتہ:
نیز اس طرز فکر وعمل یعنی دوسروں پر الزام تراشی کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ
بسا اوقات انسان الزام تراشی کرتے ہوئے جھوٹ کا مرتکب ہوتاہے کیونکہ وہ
دانستہ ونادانستہ خود کو بچانے کے لئے دوسروں پر الزام تراشتاہے جو کہ جھوٹ
ہی سے تعبیر کیاجائے گا۔ جس کے متعلق اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ "جھوٹ
بولنے والوں پر اللہ کی لعنت " اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے "مومن جھوٹا
نہیں ہوسکتا" دوسرا بہتان باندھنے کی وجہ سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے
اورمومن کو جسمانی،ذہنی اورروحانی ایذاپہنچانا بھی ایک گناہ ہے۔ جس کے بارے
میں ایک حدیث مبارکہ یہ الفاظ وارد ہوتے ہیں:
وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللّٰهُ رَدْغَةَ
الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو
اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے
تو بہ کر لے۔(سنن ابی داؤد:3599)
عملی پہلو:
اصولی طور پر اپنی غلطی تسلیم کی جانی چاہئے کسی بھی شخص سے غلطی سرزد
ہوسکتی ہے۔ اچھے انسان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے
اور اس سے تائب ہوجائے۔ گرے ہوئے دودھ پر آنسو بہانے ، روتے ہوئے دوسروں پر
الزام لگانے سے بہتر یہ ہے کہ آئندہ اس غلطی کا تدارک کر لیا جائے اور دودھ
گرنے سے بچا لیا جائے تاکہ رونے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ عام فہم الفاظ
میں اگر کہا جائے تو الزام تراشی اوردوسروں کے رویہ میں اصلاح کے بجائے
اپنی غلطی کی اصلاح کی جائے ،اپنی شخصیت بہتر وکردار نکھاراجائے۔لیکن یہ
کردار سازی بہرحال کوئی آسان عمل نہیں بلکہ بہت ہی دشوار اورطویل المیعاد
عمل ہے۔ اس کے برعکس شاید یہ سب سے آسان ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کی ذمہ
داری دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہوجائیں۔بقول الطاف حسین حالی
سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے
اللہ رب العزت ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے اوران کی اصلاح کرتے ہوئے
کامیابی سے ہمکنار کرے وہ کامیابی جو ہماری کوتاہیوں کے سبب ہم سے روٹھ چکی
ہے ۔ آمین
|