قارئن!چند دن پہلے جنگ آزادی 1947/48میں کارہا نمایاں
انجام دینے والے 313تیموری لشکر کے شہیدوں کی یادگار کی تکمیل کے بعد طے
کردہ افتتاحی تقریب کے حوالے سے رائے کوٹ جانے کا پروگرام بنا
۔چونکہ313تیموری لشکرسے میرا ذاتی طور پر قلبی و روحانی رشتہ ہے ۔اس لئے
بہرصورت جانا تھا۔تاکہ ناصرف وہ مقام دیکھ سکوں ،جہاں 313تیموری لشکرنے
بٹالین کی شکل اختیار کی ۔بلکہ افتتاحی تقریب میں شریک اُن جانباز غازیوں
سے ملوں ۔جنہوں نے 71سال میں مختلف ادوار میں اپنی جانیں ،جوانیاں مادر وطن
کے دفاع کیلئے گزاریں ۔اور پھر غازی بن کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔یہاں یہ
امر قابل ذکر ہے کہ فوج سے الوداع ہونے والے غازی باقی زندگی اپنی یادوں
کیساتھ گزارتے ہیں ۔اور جب کوئی موقع بنے ،کہ اُنکی آپسی ملاقاتیں ہوں تو
بہت خوشی و شادمانی محسوس کرتے ہیں۔ میرے لئے خوشی کی بات تھی کہ 313تیموری
لشکرکے شہیدوں کی یادگار کے افتتاح کے موقع پر مدعو ہوں ۔جہاں اپنے والد
شہید کے دوستوں ،ہم عصروں سے ملاقات یقینی تھی۔چنانچہ طویل ،مشکل سفر کے
باوجود کسی قسم کی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی ۔مجھے بتایا گیا تھا کہ تیموری
بٹالین کے کرنل آف دی بٹالین اورکرنل کمانڈنٹ اے کے رجمنٹ لیفٹیننٹ جنرل
شیر افگن کی خواہش ہے کہ میں لازمی طور پر تقریب میں شریک ہوں۔چونکہ تقریب
میں غازیوں کی شکت تھی ۔اور اہالیان علاقہ شامل تھے ۔اس لئے بحیثیت وارث
شہید میری شرکت اعزاز سے کم نہیں۔تیموری بٹالین کی تاریخ اتنی درخشاں ہے ۔جس
پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ خطہ کی آزادی میں
313تیموری لشکرسمیت ہمارے جھتوں ،لشکروں کا بڑا حصہ ہے۔اگر وہ جانباز اپنی
جانوں پر نہ کھیلتے تو شاید آج ہم بھی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی طرح مصائب
و مشکلات کا شکار ہوتے ۔ انھی جانبازوں کی قربانیوں کی بدولت ہمیں آزادی
کیساتھ سانس لینا نصیب ہوا ۔مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست کے آزادحصہ میں
اس نعمت کا احساس ہر ایک کے شعور و ادراک میں نہیں ۔یا پھر یوں کہا جاسکتا
ہے کہ مختلف ترجیحات پر کام کرنیوالے یہ ’’احساس ‘‘کرنا نہیں چاہتے ۔اگر
کرتے تو اُس پار مقبوضہ کشمیر کے غیور کشمیریوں کی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں کو
جس طرح کے سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔جس طرح بزرگوں کی توہین و تذلیل کیجاتی
ہے۔جس طرح جوانوں کو آزمائشوں کا شکار کرکے لاشوں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔یہ
منظر نامے غیرت و حمیت کو بیدار کرنے بڑھانے اور ہرممکن کردار ادا کرنے پر
متوجہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ عجیب معمہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر والوں کی ستر سال
میں چار نسلیں آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں سے گزر چکیں ۔مگر ابھی تک
اُنھیں اپنی منزل مُراد نہیں مل سکی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگ
آزادی1947/48 میں تیموری لشکر313کے مجاہدوں نے پیرکنٹھی سے دشمن کو
بھگایا،جبکہ پونچھ اوڑی باغ سے ملحقہ علاقے آزادکروائے۔چنانچہ اِسی تیموری
313لشکر کی گرانقدر عسکری خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’شہداء کی
یادگار‘‘بنادی گئی ہے۔یہ یادگار رائے کوٹ میں اُس مقام پر بنائی گئی ہے ۔
پاک فوج کے مایہ ناز کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل شیرافگن کا تعلق اسی تیموری
لشکرسے جنم لینے والی بٹالین سے ہے۔ اوراُنھوں نے ہی اپنی مدر بٹالین کے
شہداء کی یاد گار کا افتتاح کیا۔میرے خیال میں پاک فوج اور کشمیریوں کے
درمیان اعتماد و یقین کا رشتہ کبھی متزلزل نہیں ہوا ۔جوکہ اس امر کا متقاضی
ہے کہ دشمن کی سازشوں و مکاریوں کو کسی طور نظر انداز نہیں کریں ۔اور
آزادکشمیر میں ایسا سپیس نہ دیں کہ کوئی المیہ پروان چڑھے ۔جنگ آزادی ہو یا
مابعد دشمن کی جارحیت ،سازشوں ،مکاریوں کے نتیجہ میں ہونے والی کشمیریوں کی
قربانیاں،ہمیں پہچان کی وصف ہونی چاہیے۔رائے کوٹ پہنچنے پر کرنل حیات سب سے
پہلے ملے ۔جنہوں نے میری آمد پر بڑی خوشی کا اظہار کیا۔برگیڈئیر رشید ،برگیڈئیر
سہیل ،برگیڈئیر سعید ،خالد رشید،سعید بخاری ،میجرسائمن ،میجر اسحاق ،مجیر
شفیق سمیت پاک فوج کے متعدد افسران ،سردار صاحبان ،اور جوانوں سمیت غازیوں
کی قابل ذکرتعداد پہلے سے موجود تھی ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا تو
میجرجنرل غلام مصطفیٰ کوثر کے خطاب کیساتھ ہی لیفٹیننٹ جنرل شیرافگن نے
اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے شہیان افگن کو سیکنڈ لیفٹیننٹ کارینک پہنایا ۔قبل
ازیں میجر جنرل غلام مصطفیٰ کوثر نے خطاب کرتے ہوئے شرکاء تقریب سے اظہار
تشکر کیا۔اور اہالیان علاقہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔جن کے
بزرگوں نے آزادی کی سوچ اور جذبوں کے تحت جنگ آزادی لڑی ۔اور مقصد پایا۔
میجر جنرل غلام مصطفیٰ کوثر نے 313 تیموری بٹالین کی تاریخ کے تناظر میں
کہا کہ مختلف ادوار میں بٹالین کا کردار روشن ،مثالی اور سنہرا رہا ۔آزادی
کی اہمیت بارے اظہار خیال کرتے ہوئے میجر جنرل غلام مصطفیٰ کوثر نے کہا کہ
اُس پار لوگوں سے آزادی کی قدر و قیمت پوچھی جائے ۔تو احساس ہوگا رائے کوٹ
کا نام ہسٹڑی میں ہمیشہ آتا رہا ۔آج ہم اپنے نشان منزل تک پہنچ چکے
ہیں۔لیٖفٹیننٹ جنرل شیر افگن کے فرزند سیکنڈ لیفٹیننٹ شہیان افگن کا تذکرہ
کرتے ہوئے اُنکا کہنا تھا کہ جس دور میں شیر افگن پی ایم اے سے پاسنگ آؤٹ
ہوئے۔تب جنرل آصف نواز جنجوعہ کمانڈنٹ تھے ۔اُنھوں نے شیرافگن کو اپنی
بٹالین میں جانے کا مشورہ دیا ۔مگر شیر افگن نے 313تیموری بٹالین میں آنے
کو ترجیح دی ۔اور آج اِنکا بیٹا شہیان افگن اپنے والد کے ہاتھوں سیکنڈ
لیفٹیننٹ کا رینک پہن رہا ہے۔
قارین! لیفٹیننٹ جنرل شیر افگن کرنل کمانڈنٹ اکے کے رجمنٹ اینڈ کرنل آف دی
بٹالین کا اعزاز رکھتے ہوئے اپنی مدر بٹالین میں موجود تھے ۔اور جب اُنھوں
نے اپنا خطاب شروع کیا ۔اُنکا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ اپنے پرانے ساتھیوں ،غازیوں
کو ایک ساتھ دیکھ کر ،مل کر خوشگوار حیرت اور جذبات میں عجیب سی کیفیت
محسوس کررہے ہیں۔اپنے خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ یہاں آکر احساس ہوا ۔کہ
اُس خواب کی تکمیل ہے یہ خواب ہمیشہ دیکھا ۔اﷲ کی کس کس نعمت کا شکرادا
کریں۔میں سارے چہرے پہچان رہا ہوں یہ عزت و فخر کی بات ہے کہ آج کا دن اہم
اور تاریخی ہے۔ہم یہاں سب دور دور سے پہنچے ہیں۔اس بات کا احاس ہورہا ہے کہ
گزرے 71سال پہلے یہاں سے جس لشکر نے کارہائے نمایاں کی تاریخ رقم کرکے پیش
قدمی کی ۔مختلف مراحل سے گزرکر پاک فوج میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔عظیم
مقصد آزادی کیلئے کام کرنیوالے دو بزرگوں کا نام لیکر خراج تحسین بھی پیش
کیا گیا ۔اور پھرجنرل شیرافگن نے کہا کہ بٹالین کی یادگار ایک تاریخ کی
عکاس ہے۔اپنی تاریخ میں کسی کمی کو باقی نہیں رہنا چاہیے۔بزرگوں کی جانب
اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اِنکی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ کئی ایک باتیں ہیں
۔اپنی تاریخ مکمل اور شہداء کی قربانیوں کو رقم کرلینے کے بعد ہر سال اکٹھے
ہوکر تجدید عزم کیا جائے ۔اوردعا کریں اپنے بزرگوں کو یاد رکھیں جنہوں نے
1947/48میں یہ دھرتی دشمن کے قبضہ سے یہ علاقہ آزاد کروایا ۔اور 5ہلال
کشمیر اور10شیرجنگ ملے۔سیف علی شہید بھی اِنھی پانچ ہلال کشمیر میں شامل
ہیں ۔تیموری بٹالین کو پہلی جنگ لڑنے کا اعزازبھی حاصل ہے۔
قارئن!ہم جس دور میں جی رہے ہیں ۔ہمیں وطن اور اہل وطن میں اعتماد ویقین کے
رشتوں کی آبیاری و تحفظ کیلئے اپنے موثر کردار کو یقینی بنانا ہوگا۔بے شک
کچھ تنخواہ دار بااختیار افراد یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ وہ وطن اور اہل وطن
کے مفاد کا تعین اپنے طور پر کریں مگر ہمیں اپنے دفاع کیلئے اپنی فوج
کیساتھ اس طرح مربوط رہنا ہے۔کہ نظر بھی آئیں۔اپنے وطن اور اہل وطن کیلئے
قربان ہونیوالوں کو کبھی فراموش نہ کریں ۔تاکہ آنیوالی نسلیں بکل اُسی طرح
اپنے بزرگوں کو خراج عقیدت پیش کریں جسطرح آج ہم پیش کررہے ہیں۔ یہ بھی
کہنا چاہیں گے ۔کہ شہ رگ پاکستان کے بیس کیمپ میں فکری و نظریاتی سوچ
،کردار کو مثالی بنانے کیلئے کاوشوں پر توجہ دی جانی چاہیے۔تاکہ جنگ آزادی
سے لیکر اب تک بہنے والے خون کو رائیگان ہونے سے بچایا جاسکے۔اس حوالے سے
آزادحکومت کا اولین فرض بنتا ہے کہ یہ کشمیریوں کی فکری و نظریاتی سوچوں کو
منتشرہونے سے بچانے کی تدبیر کرے ۔اس سلسلے میں سب سے مناسب امر یہ ہوگا
۔کہ ریاست بھر میں تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں تقریبات کا آغاز ہو ۔ہر
قومی ریاستی اہمیت کے دن پر تقریبات کا انعقاد ہونے کیساتھ ساتھ ریلیوں کا
سلسلہ بھی چلے تو یہ قومی نظریات و فکر کو ایک سمت دینے کا باعث بنے گا۔
قارئن!شہدائے وطن میڈیا سیل اے کے زون نے گذشتہ 10سال میں بارہا مختلف
حکومتوں کو متوجہ بھی کیا ہے کہ ریاست میں قومی/ریاستی دنوں کے موقع پر
چھٹی(تعطیل)کا رواج ختم کریں ۔اور ریاست کے 80ہزار سرکاری ملازمین کیلئے
ایسی سرگرمیاں ڈیزائن کریں۔تاکہ نائب قاصد سے لیکر سیکرٹری تک ہر ملازم
نظریہ الحاق پاکستان سے تجدید عہد اور تحریک حُریت سے وابستگی کے عزم کا
اعادہ کرے ۔اس طرح جب صرف دارالحکومت مظفرآباد کی سڑکوں پر 30/40ہزار
سرکاری ملازمین اپنے متعلقین سمیت آکر آوازبلند کرینگے تو عالمی ایوانوں تک
گونج پہنچے گی۔ |