سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی
بینچ نے نجی اسکولوں کی زائد فیسوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس سلسلے میں
نجی اسکولوں کے وکیل، ڈپٹی آڈیٹر جنرل اور چیئرمین ایف بی آر عدالت میں
پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ہائی کورٹس
کے فیصلوں کی پابند نہیں اور آگاہ کیا جائے فیس میں خاطر خواہ کمی کیسے ہو
گی۔ عدالت خود فیصلہ کرے گی کہ فیس میں مناسب کمی کتنی ہو گی۔
نیو نیوز کے مطابق اس موقع پر نجی اسکول کے وکیل نے کہا کہ ہر اسکول کی فیس
اور سالانہ اضافہ مختلف ہے اور پنجاب کے سابق وزیر تعلیم نے سالانہ 10 فیصد
اضافے کا قانون بنانے کا کہا اور رانا مشہود اسمبلی سے صرف 8 فیصد کی
منظوری لے سکے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے سابق
وزیر تعلیم کا اپنا بھی کوئی اسکول ہو گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک،
ایک کمرے کے اسکول سے اتنا پیسہ بنایا اور اب یہ صنعت کار بن گئے ہیں۔
دورانِ سماعت نجی اسکول کی وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ تمام اسکول 8 فیصد
فیس کم کرنے کو تیار ہیں۔ اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ 8 فیصد
تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 20 سال کا آڈٹ
کرایا تو نتائج بہت مختلف ہوں گے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ
اسکولوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس میں غلط اعداد دیے۔ نجی اسکول کے وکیل نے عدالت
کو بتایا کہ اسکول نئ 764 ملین ٹیکس دیا ہے اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا
کہ آپ نے بہت ٹیکس دیا ہو گا لیکن اس کا طالب علم کو کوئی فائدہ نہیں اور
اس کا فائدہ تو تب ہو گا جب فیس کم ہو گی۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ 8 فیصد ہر سال بڑھائی جائے تو 4 سالوں میں 32 فیصد
فیس بڑھ گئی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایک اسکول سے آپ ڈھائی سو
اسکول کے مالک بن گئے اور والدین مجبور ہیں کہ فیل کرنے میں پرائیویٹ
اسکولوں کا ہاتھ ہے۔ ایک، ایک اسکول سے کئی سو اسکول بنائے گئے اور سب طالب
علموں سے پیسے نکالے گئے۔
جسٹس ثاقب نثار نے چیئرمین ایف بی آر کو عدالت میں طلب کر کے حکم دیا کہ
ایف بی آر ان اسکولوں کا پچھلے سات سالوں کا ٹیکس ریکارڈ چیک کرے۔ جسٹس
اعجاز الاحسن نے نجی اسکول کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ
سرکاری اسکولوں کی کمی پوری کر رہے ہیں لیکن دراصل آپ نے اجارہ داری قائم
کر رکھی ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عبوری حکم دیا کہ ملک
بھر کے ایسے نجی اسکول جو 5 ہزار روپے سے زائد فیس وصول کرتے ہیں وہ اپنی
فیسوں میں 20 فیصد تک کمی کریں گے جب کہ 5 ہزار یا اس سے کم فیس وصول کرنے
والے اسکولوں پر عدالتی فیصلے کا اطلاق نہیں ہو گا۔
عدالت نے مزید حکم دیا کہ 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی اسکول
سالانہ 5 فیصد سے زیادہ فیسوں میں اضافہ نہیں کریں گے اور اگر اس سے زیادہ
اضافہ کرنا ہو گا تو ریگولیٹری باڈی سے منظوری لینا ہو گی اور وہ بھی 8
فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہو گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ ایسے نجی
اسکول گرمیوں کی فیسوں کا 50 فیصد والدین کو ادا کریں یا اس رقم کو اسکول
کی فیس میں ایڈجسٹ کریں۔عدالت نے ایف بی آر کو نجی اسکولز مالکان اور
ڈائریکٹرز کے انکم ٹیکس گوشواروں کی چھان بین کا بھی حکم دے دیا۔ بعد ازاں
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کردی۔ |