نام نہاد پرائیویٹ اسکول اور ان کے کارنامے

پاکستانی عوام کی طرح پاکستان کا تعلیمی نظام بھی کئی حصوں میں منقسم ہے۔ ہر محکمے کی طرح اس محکمے میں بھی امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ دستور نافذ ہے۔ گورنمنٹ اسکولوں کی حالت زار پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ بڑے بڑے پرائیویٹ اسکولوں کی اپنی من مانیاں ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ البتہ کچھ اوسط درجے کے پرائیویٹ اسکول ضرور ہیں جہاں نہ صرف فیس قدرے مناسب ہے بلکہ تعلیمی معیار بھی کافی بہتر ہے۔ لیکن ہم بات کر رہے ہیں ان پرائیویٹ اسکولوں کی جو ان تمام تعلیمی اداروں کے علاوہ ہیں ۔

ہمارے ملک میں ایسے کئی پرائیویٹ اسکول موجود ہیں جن کا شائد ریکارڈ بھی دستیاب نہ ہو۔ کیونکہ یہ اسکول رجسٹرڈ نہیں ہوتے بلکہ دوسرے بڑے پرائیویٹ اسکولوں کے ساتھ الحاق کرکے اپنے طالبعلموں کے نام رجسٹرڈ کرواتے ہیں ۔ تعلیمی معیار کے اعتبار سے انکی کارکردگی کو کسی طرح بھی سراہا نہیں جا سکتا ۔انگلش میڈیم کے نام پر سلیبس ضرور ہوتا ہے۔ مگر یہ سلیبس زیادہ تر میٹرک اور انٹر ٹیچرز کی زیر نگرانی پڑھایا جاتا ہے۔ کیونکہ اسطرح کی تعلیمی قابلیت والی اساتذہ انتہائی کم تنخواہ پر کام کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتی ہیں ۔ اکثر انہیں تنخواہوں کی مد میں 5000 سے بھی کم رقم دی جاتی ہے یہ تعلیم ہے یا تعلیم کے ساتھ مذاق؟

یہ نام نہاد پرائیویٹ اسکولز کسی رولز اور ریگولیشن کے ذریعے نہیں چلتے ان کے اپنے بنائے ہوئے قاعدے ہی قانون ہوتے ہیں ۔جب اسکولوں کی سردیوں اور گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تب بھی ان اسکولوں میں ٹیچرز کو بلایا جاتا ہے۔ کیونکہ ان ٹیچرز کو تنخواہیں دی جاتی ہیں اس لئے انہیں بلاوجہ بلاکر بٹھایا جاتا ہے پھر بھی ان ٹیچرز کی ایک مہینے کی تنخواہ روک لی جاتی ہے اور پھر یہ تنخواہ کب دی جائیگی اس کا دورانیہ 2 ماہ سے ایک سال پر بھی محیط ہوسکتا ہے یہ سب قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے مگر ایسے اسکولوں کو نہ کوئی کہنے والا ہے نہ سننے والا۔ کاش ایسے تمام اداروں کا مقصد واقعی خلوص دل کے ساتھ علم کی فراہمی ہوتا مگر حقیقتاً یہ ایک بزنس ہے۔ زیادہ تر غریب والدین اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں اس لئے بھیجتے ہیں کہ یہ اسکول گورنمنٹ اسکولوں کے مقابلے میں کچھ تو تعلیم دیںگے۔ گورنمنٹ اسکولز کے اساتذہ بلاشبہ زیادہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں مگر گورنمنٹ اسکولز کے سلیبس کا مقابلہ کسی طرح بھی آج کے دور کے پرائیویٹ اسکولوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ غریب والدین انگلش میڈیم کے چکر میں اپنے بچوں کو ان نام نہاد تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔

تعلیم کسی بھی ملک کے مستقبل کی بنیاد ہے اس شعبے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اور کسی شعبے میں نہ سہی مگر علمی میدان میں توازن پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ حکومت نے محکمہ تعلیم کے لئے کئی اہم فیصلے کئے ہیں مگر پاکستان کا تعلیمی نظام محض فیصلے کرنے سے تبدیل نہیں ہوگا باقاعدہ حکمت عملی بنانی ہوگی اور جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگر ہم نے انگلش کو اتنا سر چڑھا ہی لیا ہے اور ہمارے زیادہ تر سیاستدانوں کے بچے باہر کے ممالک سے تعلیمی ڈگریاں لا رہے ہیں جوکہ یقیناً اردو میڈیم اداروں سے پڑھ کر نہیں لاتے تو کیا حرج ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں میں بھی انگلش میڈیم سسٹم نافذ کیا جائے ۔کم از کم غریب والدین ایسے اسکولوں کے ہاتھوں بےوقوف بننے سے تو بچ جائیں گے۔اس کے علاوہ اسکول ٹیچرز کی مراعات اور تنخواہوں کا تعین بھی یقینی بنایا جائے۔اور سب سے ضروری یہ کہ ان تمام اسکولوں کا رجسٹرڈ ہونا بھی لازمی ہو تاکہ انہیں پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے قوانین کے حساب سے چلایا جائے۔

YOU MAY ALSO LIKE: