گھر یا عیدی گھر

بیٹی رانی جلدی سے اپنے گھر کو صاف کرو، دیکھو کتنی گرد پڑی ہے. پانی پڑ گیا تو لکڑی پھول جائے گی. گڑیا سے کھیلتی رانیہ کو ماں نے پیار بھری ڈانٹ سنائی. رانیہ جلدی کرو، دیکھو ، دیکھو جلدی کرو. ابھی بارش ہونیوالی ہے. پھر یہ بھیگ جانا ہے. آؤ اپنے گھر کو بچاؤ، اور اندر رکھو. رانیہ جلدی سے اٹھی اور گھر صاف کرنے لگی. وہ ڈرتی تھی، روتی تھی، تڑپتی تھی .اس کو گھر ٹوٹنے کا دکھ تھا. وہ اندھیرے سے خوفزدہ ہوتی تھی. ابھرتے طوفان اور کڑکتی بجلی سے کانپ جاتی تھی. گھر کو صاف کرتے ہی خیالوں میں ڈوب گئی، اور آنسوؤں کی جھڑی اس کے معصوم رخساروں پہ موتیوں کی مالا پرونے لگ گئیں. دل ہی دل میں سوچ کی ڈراؤنی وادی میں اتر گئی.

وہ اندھیری رات اور درد کا طوفان آج بھی نظروں کا طواف کرتا ہے. کیسا جگر تھا؟؟؟ کتنا کرخت لہجہ اور خوفناک نفرت انگلتی زبان تھی ؟؟؟ ماں کی درد بھری فریاد اور سسکیاں اور باپ کا دھتکارنا اور نفرت اور حقارت کی چٹان بن جانا اور پھر ماں اور مجھے نکال دینا. میں روتی رہی اور میرے آنسوؤں کی پرواہ بھی نہیں کی.اس کو میری بازؤں کے حصار نے بھی نہ روکا. میرے آنسوؤں نے بھی نہ پگھلایا. میرے درد بھرے چہرے میں بھی اس کو امید ، طلب اور چاہت نظر نہ آئی.

میں نے اور ماں نے تنہا زندگی کا سفر شروع کیا. پہلا قدم بے حد مشکل تھا. پہلا سفر آگ پہ چلنے کے مترادف تھا. پر ماں کہتی تھی کہ اب ڈرنے کی ضرورت نہیں. جس کا ڈر تھا وہ طوفان آچکا. اب اس طوفان سے مقابلہ کرنا ہے . اس طوفان کو پیچھے اسی پہ دھکیلنا ہے. اب دنیا کے سنگلاخ سفر میں ننگے پیر ہی سفر کرنا ہے اور اسی سنگلاخ زمین کو پیر کا جوتا بنانا ہے. اسی آسمان کو سائباں بنانا ہے. کیونکہ یہ کوئی نہیں چھین سکتا . اس سائباں کا خالق اس دنیا کے تخلیق کاروں سے بڑا ہے. یہ زمین کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ اسی زمین میں ہر کسی کو اپنے حصہ کی دو گز زمین ملنی ہے.

واااااہ ماں !!!! کیا منطق تھی. میں اس کے بعد نہیں ڈری. میں اس کے بعد مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئ. آج مجھے سب بے پرواہ، ضدی، نڈر اور بہادر کہتے ہیں. پر کیا کروں، ماں نے کہا تھا کہ آج کے بعد سب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور سب سے اپنا حصہ لینا ہے. پر ماں نے کہا تھا کہ نرم خو رہنا ہے اور خدا سے لو لگانی ہے. پر میں کیا کروں میرے اندر تنہائی اور ادھورا پن ہے. میرے اندر سوالات کا طوفان ہے جو مجھے چین لینے نہیں دیتا. وہ لمحے ، وہ پل میرے وجود کو چیرتے ہیں. میرے بچپن کے قاتل، میری سادگی کاخون کرنے والےاور میری خوشیوں کے دشمن آج مجھے پل پل یاد آئے جب مجھے عید پر " گھر " کا تحفہ بطور عیدی ملا.

آہ!!!! یہ کیا کیا بابا؟؟؟؟؟ میں نے تو وہ گھر مانگا تھا جس میں لوگ رہتے ہوں. اپنے رہتے ہوں. میرے بابا اور ماں کا گھر، میرے پیاروں کا گھر جو میری زندگی کا محور ہیں. وہ جو میرے اپنے اور صرف اپنے ہیں.
پر تم نے بابا کیا دے دیا. اس سے تو میں ایک دن میں تھک گئی. اس کو جوڑتی ہوں. تو ٹوٹا گھر نظر آتا ہے. اس میں اپنا آپ ڈھونڈتی ہوں. تمہیں ڈھونڈتی ہوں. وہ سب نہیں ہے اس میں. اس میں صرف بے جان مورتیں ہیں. کچا گھر ہے جو ہوا سے بھی اڑتا ہے. میرے گزرنے سے بھی گرتا ہے.

بابا یہ تو گھر نہیں ہے. یہ تو کاغذ ، گتے یا لکڑی کا ڈھانچہ ہے. میری گڑیا تو اس میں مر جائے گی. ہوا سے جب گھر اڑے گا تو وہ ڈر جائے گی. کون اس کو مضبوط بانہوں میں تھامے گا؟؟ کون اس گھر کو پانی میں بھیگنے سے بچائے گا؟؟کون اس دل میں جھانکے گا جو تیرے وجود کے لئے دھڑکتی ہیں ؟؟
اب کون اس کی حفاظت کرے گا؟؟

اب عید پہ سب اپنے بابا کے ساتھ عید کی نماز پہ گئے. سب عید پہ کھیلے. سب کے ساتھ ان کے بابا تھے. پر میرے پاس صرف یادیں، یادیں ان پل کی جو میں نے بتائے. تخیلات کی وادی میں، میں نے تمھیں چھوا، تمھاری بانہوں کا جھولا لیا. تمہارے سینہ سے لگ کے سوئی، تمہارے خوابوں میں، تمھارے خیالوں میں، بس تمھیں اور تمھیں ہی دیکھا. تمھیں ہی لب نے پکارا. تمھیں ہی دعا میں مانگا.

بابا تم کیوں نہیں سمجھتے، مجھے تم چاہئے. تمہارا پیار اور تمہارا ساتھ چاہیے.

بابا تم آجاؤ، تم کھیلو، تم مجھے جھولاؤ. تمھاری خوشبو، تمھارا لمس اور تمھارا حصار میری تمنا، میرا حاصل اور میری آرزو ہے.

ماں نے رانیہ کو جھنجھوڑا، رانیہ جلدی کرو. دیکھو پھوار پڑ رہی ہے. بھیگ رہی ہو. بیٹا جلدی کرو. کیا ہوا ؟؟ یہ رو کیوں رہی ہو؟؟
لیکن رانیہ تو خودی میں بولتی جارہی تھی....
تم بن تمھاری بیٹی ادھوری ہے بابا!!!!!
تم بن تمھاری بیٹی ادھوری ہے بابا!!!!!
پھر دونوں ہی بھیگ گئیں. اور پھوٹ پھوٹ کر رودیں. جانے کونسے طوفان نے ڈرا دیا. نہ بجلی کڑکی، نہ ہوا چلی اور نہ ہی ژالہ باری ہوئی.دل کی زمین پہ آئے زلزلے نے گھر توڑ دیا...
 

Reesha
About the Author: Reesha Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.