اگر ہم ٖغور کریں تو معلوم ہوتاہے کے روزانہ سورج مغرب
میں غروب ہوتا ہے۔ یہ ہمیں اس بات کا سبق دے رہا ہے کے مغرب میں اندھیرا ہی
اندھیرا ہے۔وہ مسلمانوں کی طرح زندگی گزارنے کے لئیے ترس رہے ہیں لیکن اپنی
نام نہاد اور بزرگوں کا طرز زندگانی گزارنے پر بے بس اور مجبورہیں۔ آپ
روزانہ اخبارات میں خبروں میں پڑھتے ہیں کے فلاں امریکن لڑکی یا یورپی لڑکی
پاکستانی کے عشق میں مبتلاہو کر شادی کے لیئے پاکستان اپنا سب کچھ چھوڑ کر
پاکستان آگئی وغیرہ وغیرہ۔۔اس کلچر کو سمجھانے کے لیئے میں آپ کو ایک حقیقق
واقعہ بتاتاہوں دبئی میں ہم چند دوست ہر جمعہ کی چھٹی کو نماز پڑھ کر سمندر
میں نہانے جایا کرتے تھے نہانے کے بعد کھانا کھایاکسی اچھے سے ہوٹل میں اور
سیلفی لی مشہور مقامات کی اور واپسی بس یہی ہماری عیاشی تھی۔ایک مرتبہ
سمندر کنارے 10منزلہ ہوٹل میں جسکی لابی بلکل سمند ر کی لہروں سے ٹکراتی
تھی ہم پیدل دئبی اور پاکستان کے موازنہ کا موضوع پر بحث کرتے بہت دور نکل
گئے 3فٹ کی ہوٹل لابی کی دیواروں سے اندر کا ماحول صاف نظر آرہاتھا۔ دیکھتے
ہی حیرت زدہ ہو گئے یورپی اور انگلش جوان لڑکے اور لڑکیاں بغیر کپڑوں
کے50سالہ برزگ خواتین سے لیکر 80سالہ بوڑھا بھی ننگا بیٹھاہوتھا انکے قریب
باہر کی جانب ایک گارڈ وردی میں ملوث اپنی ڈیوٹی دے رہا۔
ہمیں دیکھ کر بجلی کی پھرتی سے ہمارے قریب آگیا۔کے میری نوکری کا سوال ہے
آپ لوگ واپس چلے جائیں میں نے کہا یہاں ممنوع نوٹس تو کہیں نہیں لگاکہنے
لگاالتجاء کرنے لگا میری ڈیوٹی کا مسئلہ ہے
آپ لوگ کیمرے میں آرہے ہو بعد میں مجھ سے پوچھ گچھ ہو گی ۔ اگر آپ چاہیں تو
مین گیٹ سے آسکتے ہیں وہ بھی اجازت لیکر ہم نے کہا بھائی ہم مسلمان ہیں ۔الحمداﷲ
ہمارا ایسا گندا شوق نہیں ہے۔
صرف یہ بتاؤ یہاں سارے ننگے ہی رہتے ہیں گارڈ بولا یہ بغیر کپڑوں میں ہی
ہوتے ہیں سمندر کے کنارے گارڈ نے مزید کہا کے انکے کے USA میں کئی علاقے
ایسے ہے جہاں گلیوں بازاروں میں گھروں
میں حتی کے گھر تک میں کپڑے نا م کی کوئی چیز نہیں ہوتی آپ internet دیکھ
سکتے ہیں۔ فیملی رہہن سہن ان سب کا یہ لوگ جس مرضی کے ساتھ جب مرضی sex
کریں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
گارڈ مزید جذباتی ہوتے ہوئے بولا کے ہمارا دھرم ہندو ہے ہم لوگ بندر، سانپ،
ہاتھی ۔ چوہے کو شیر کو سورج۔ چاند ۔ ستارے،۔ آگ۔ یہاں تک کے مرد کی شرمگاہ
اور عورت کی شرمگاہ کو بھی ہم ہندو لوگ پوجتے ہیں یعنی اپنا بگھوان مانتے
ہیں ۔ مگر یہ لوگ جہالت میں ہم سے بھی آٹھ ہاتھ اگے ہیں۔یعنی ہم لوگ رشتوں
کو بخوبی پہنچانتے ہیں۔ لیکن یہاں رشتوں کا ہر سکینڈ میں جنازہ نکل
رہاہوتاہے۔
پھر ہم لوگ وہاں سے ہی واپس ہوگئے۔ مزید دبئی کے بارے میں جانا تو معلوم
ہوا کے کئی جہگہ ایسی ہیں جہاں کپڑے اگر پہن کر جاؤ گے تو جرمانہ ادا کرنا
ہوگا یا اﷲ یہ کیسا اسلامی ملک ہے۔پھر مزید تحقیق کرنا شوروع کی تو ایک
امریکی خاتون امریکی لڑکیوں کے بارے میں لکھتی ہیں۔ جسکا ترجمہ کرکے آپ کو
بتایا جارہاہے۔
یہاں جب کوئی لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو اسکا باپ اسکی سرپستی
سے ہاتھ کھینچ لیتاہے اپنی نوجوان بیٹی کے لیئے اپنا درواز ہ ہمیشہ ہمیشہ
کے لیئے بند کرلیتاہے اس سے کہتاہے جہاں جانا ہے جاؤ کماؤ کھاؤ ۔ آج کے بعد
میرے پاس تمھارا کوئی حق باقی نہیں۔ اب بیچاری نوجوان لڑکی کرے تو کیا کرے
اور جائے تو کہاں جائے ؟ زِندگی کے ایام تو گذارنا ہی ہیں چنانچہ وہ گھر سے
باہر قدم رکھتی ہے زِندگی کی پرپیچ وادیوں کا سفر تن تنہا طے کرتی ہے۔ اس
دنیا میں انسانی درندوں کی کژت ہے۔ چاروں طرف بھوکے شیروں کا ازدحام ہے ۔
ہر طرف سے خون خوار بھیڑیے اپنے جبڑے کھولے شکار کی تلاش میں ہیں۔ انکو
سامنے جو صفِ نازک کی شکل میں جو تازہ تازہ شکار نظر آرہاہے سب کی خواہش
یہی ہے کے سب سے پہلے وہ اسکو نوچ کھائے۔ اف یہ ہے وہ امریکی لڑکی جسکی
جوانی کو خاک میں ملانے کے لیئے سب نے نظریں جما رکھی ہیں۔ وہ چاہے
ادھیڑعمر ہو یا نوجوان سب کی بھیانک نظریں اس معصوم کی عزت کو تار تار کرنے
کے لیئے بے چین ہیں۔ اسکے گھر والوں کو قطعًا کوئی فکر نہیں ہوتی کے گھر سے
باہر قدم رکھنے والی انکی عزت و آبرو کس قسم کے معاش سے رزّق کمارہی ہے
محنت سے یا عزت وعصمت فروخت کرکے کبھی بھول کر بھی پوچھتے نہیں اور نہ ہی
انکا اس سے کوئی رابطہ ہوتا ہے
انکی یہ لڑکی اپنے ہاتھ کی کمائی کھارہی ہے یا آبروکی!! کسی آفس میں
سیکرٹری کے عہدے پر اپنی جسمانی نمائش کرکے تنخواہ پارہی ہے یا کسی شو روم
کیں میں ماڈلنگ کرکے!!یعنی اس ملک میں ہر سکینڈ میں ہزاروں لاکھوں زِنا
ہوتے ہیں۔
اور ہاں یہ مرض صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ مغربی تہذیب کے نقشِ قدم پر
چلنے والے تمام ملکوں میں پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!!!!آج دنیا کا علمیہ یہی ہے
جو لوگ خود گناہ کی دلدل سے چھٹکارا نہیں پا سکتے وہ ہی انسانی حقوق کے
گریٹ ریٹنگ طے کرتے ہیں یعنی اپنے گھروں میں آگ لگی ہے اور دوسرے ملکوں میں
انسانیت کے علمبردار بننا پسند کرتے ہیں۔یعنی جس عورت کو خود طلاق ہوئی
ہوتی ہے وہ میڈیا پر گھر بسانے کے مشوروں سے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہوتی
نظر آئے گی۔ |