یہ کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے محتاج کی حاجت تو کرتے
نہیں اور فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں کیسی دنیا میں جی رہے ہیں ہم افسوس
۔۔۔
کہاں لیکھا ہے اسلام میں کہ گھر میں فاقے ہوں بچے بھوکھے ہوں اور عورت
عدت پوری کرے بس باتیں کرنی آتی ہیں .
بجائے امداد کے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ایسا ہی ھے ہمارا بیمار معاشرہ...
میرے محلے میں ایک عورت کا شوہر انتقال کر گیا۔ حالات بھی تنگدست ان کے
چھوٹے چھوٹے بچے بھی ۔ کچھ عقل والے مسلمان باتیں کر رہے تھے۔ کے اس عورت
کو تو دین دنیا کا پتا ہی نہیں شوہر کی قبر کی مٹی بھی گیلی نہیں ہوئی نہ
ہی عدت پوری کی اور یہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنا بھی شروع ہو گئ ہے...
الکاسب حبیب اللّٰہ ۔ہاتھ سے کمانے والا اللّٰہ کا دوست ہے ،
رہی بات عدت کی تو وہ اسکے خُدا کا معاملہ ہے ،
جب بھوک سے جان نکلتی مردار بھی کھانا جائز ہے ۔میری اہل درد سے گزارش ھے
کہ
آپ لوگوں پر چار حرف بھیجیں اور ہو سکے تو اُسکی مدد کر کے اپنی جنت کھری
کریں ۔یہاں بیمار معاشرے نے ایک دفعہ پھر اپنی بیماری کا ثبوت دیا کیونکہ
میرے خیال میں باتیں کرنے والوں کو مدد کرنی چاہئیے تھی اس خاتون کی اور
دوسری جانب خاتون کو بھی عدت پوری کرنی چاہئیے تھی لیکن اہل علم کو کوئی یہ
بھی بتاۓ کہ جب گھر میں بچے بھوک ؤ پیاس سے مر رہے ھوں تو پھر عدت دکھائی
نہیں دیتی اور ویسے بھی یہ ترقی یافتہ قوم اسلام کی تعالیمات پر عمل کب
کرتی ہے ؟
وقت, عقل اور انسانیت کا تقاضا ہے کے ہم آگے بڑھ کر اپنے لاچار بہن
بھائیوں کو ہاتھ تھام لیں یتیم بچوں کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیں۔ جس ماں کے
بچے بھوک سے بلکتے ہوں۔ وہ دنیا والوں کی طرف سے اندھی اور بہری ہو جاتی
ہے۔ اسے بس اس سے مطلب ہوتا ہے ۔ وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھرے...
مسلہ یہی ہے ہم اپنے فرائض سے منہ موڑ کر دوسروں میں خرابی تلاش کرنا فرض
ؤ ثواب تصور کرتے ہیں .اگر چاہتے ہیں دین کا قیام ہو تو اس کی امداد کریں
باتیں نا کریں ....
میں کہتا ھوں کہ شکر ھے اللہ پاک کا کہ ان اعتراض کرنے والوں نے قلوں
ساتویں اور چالیسویں پر دیگوں کے ذریعے دستار بندی کا”مطالبہ“ نہیں کیا۔
میرے خیال میں اعتراض ؤ سوال کرنے والوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ عدت
میں کہاں کہاں جانے کی اجازت ہے؟ اگر نہیں تو میں بتاتا چلو...
ایک قبرستان اور دوسرا مسجد میں
سمجھ تو یہی آتی ہے کہ بس جی نہ کوئی روٹی کھانے کو دیتا ہے
اور اگر خود کما لو تو تب بھی ان کی عزت پہ آنچ آتی ہے.کیسی ظالم دنیا
ہے۔ پڑوس میں یتیم بچے بھوکےرہتےہیں مگر لوگ بجائے مدد کے اس بےچاری عورت
پہ انگلیاں اٹھاتےہیں۔
مالی مدد کرکے بیوہ کی عدت پوری کراتے مگر افسوس غریب کےلئے موت بھی اذیت
اور زندگی بھی ۔
اللہ پاک ہم سب پر اپنا رحم خاص فرمائے اور مجھ سمیت میرے تمام پڑھنے
والوں, اہل علم ؤ فکر اور وطن کو یہ توفیق بھی عطا فرماۓ کہ ہم اللہ تعالی
کے عطاکردہ مال میں سے اپنی وسعت کے مطابق اللہ کی مخلوق پر خرچ کریں. آمین
یا رب العالمین......
نوٹ
تحصیل چیچہ وطنی میں بقلم خود اور اپنے ایک دوست کے تعاون سے اس وقت پانچ
بیوہ عورتوں کے گھر کا ماہانہ خرچ , تین غریب بچوں کا تعلیمی خرچ, چار غریب
گھرانوں کا راشن ہر ماہ پورا کرتے ہیں.... (جتنا ہم کر سکتے ہیں وہ کرتے
ہیں اور اگر کسی ماہ میں ہمارے پاس اس سب کے لیے کچھ جمع نہ ھو سکے تو جو
ھوتا ھے اسکو برابر تقسیم کرتے ھوۓ معذرت بھی کر لیتے ہیں تمام سے)
اللہ پاک سے دعا ھے کہ انکی مدد فرماۓ آمین.
اگر کوئی ساتھی آپ میں سے اس مشن کے لیے میدان میں آنے کا ارادہ رکھتا ہے
اور ساتھ دینا چاہتا ھے ماہانہ تعاون کرنا چاہتا ھے یا اسکے گروپ کا حصہ
بننا چاہتا ہے تو اس نمبر پر رابطہ کر سکتا ھے |