گرا دو یہ مکان! یہ جگہ سرکار کی ہے ۔

میرے والد محترم کا قدچھ فٹ سے بھی زیادہ تھا یہ کشادہ سینہ اور سرخ وسفید رنگ۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ یہ شخص بھی کبھی بیمارہوسکتاہے؟۔ اس روز میں نے محسوس کیا کہ والد صاحب پہلے کی نسبت کچھ کمزور دکھائی دے رہے ہیں تھے ۔اور کہہ تھے کہ بیٹایہ گھر میں نے تم سب بہن بھائیوں کے لیے بہت مشکل سے بنایاہے کبھی سریا ڈلوالیا۔ تو کبھی پیسے اکٹھے کرکے اینٹیں ڈلوالی ۔اور کبھی سیمنٹ لاکر رکھ دی تھوڑا تھوڑا کرکے یہ آج اتنا بڑا گھر تم لوگوں کے سکھ کے لیے بنوایا ہے ۔اس لیے آپس میں مل کر رہنااور بہن بھائیوں میں لاکھ لڑائی ہوجائے کبھی گھر کو بیچنے کی بات نہ کرنا۔ اور اگر اﷲ نے تندرستی دی اور میں زندہ رہاتو اس گھر کو اور بھی اوپر لے جاؤنگابس میری تندرستی کی دعاکروں کہ میں ٹھیک ہوجاؤں ۔ابا نے کہاکہ ہم جب یہاں آئے تو جھگیوں میں ہمارا بسیراتھا کہیں کہیں کسی کا پکا گھر نظر آتاتھایہ سب کچھ میں نے بہت محنت سے تم لوگوں کے لیے اس لیے بنایا کہ میرے بچے وہ مشکل وقت نہ دیکھیں جو میں نے اور تمھاری امی نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے ۔ پھرایک روز جب ڈاکٹر نے مجھے والد صاحب کی میڈیکل رپورٹ دیتے ہوئے کہاکہ ان کا علاج اب ممکن نہیں رہا یہ جو کھانا پینا چاہے ان کو کھلاؤانہیں گھر میں ہی رہنے دو اور ان کی خدمت کرویہ لمحہ میرے لیے زندگی کا سب سے بڑادکھ تھاجسے میں نے کس طرح سے برداشت کیا اسے بیان کرنا بہت مشکل ہوگا ہم لوگ لاہور میں رہتے تھے اوروالد صاحب کا سسرال ملتان میں تھا والد کی بیماری کا سن کر ملتان سے آئے ہوئے بہت سے رشتے دار بھی گھرپر موجود تھے۔ جب میری ایک خالہ نے ملتان میں ایک ڈاکٹر کا نام لیا اور کہاکہ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں بہت شفا ہے میرادل کہتا ہے کہ بھائی صاحب وہاں سے ٹھیک ہوکر لوٹے گے تو مجھ سمیت سبھی گھر والے راضی ہوچکے تھے کہ ہم ابو کو علاج کے لیے ملتان لے جائینگے ، ملتان روانگی سے قبل جاتے ہوئے گلی کے نکڑ پروالد صاحب نے پیچھے مڑکر دیکھا جیسے وہ اپنے گھرکو حسرت سے دیکھ رہے تھے اور خاموش زبان سے یہ کہہ رہے ہو کہ ۔
سوچتا ہوں اپنے گھر کو دیکھ کر ۔
ہو نہ ہویہ ہے میرا دیکھا ہوا۔

ابا کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھایہ لمحہ میرے لیے بھی اتناہی دلخراش تھا کہ جتناکہ ایک مرنے والے شخص کے لیے جسے دکھائی دے جائے کہ وہ گھر جسے اس نے بھوکا پیاسا رہ کر اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بنایا وہ گھر اب شاید دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکے گا،ابا نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی آسمان کی طرف دیکھااور آہستہ آہستہ قدموں سے آگے بڑھ گئے ،مجھے والد صاحب کی ان حسرت زدہ آنکھوں کا مطلب اس وقت سمجھ میں آیا جب میں کچھ روز بعد ان کی میت کو ملتان سے واپس لاہور لیکر آیا تو بار بار یہ ہی منظر میر ی آنکھوں میں گھوم رہاتھاکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ، میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی نہیں بتاسکتاکہ مجھے یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی کس قدر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔
ایک چھوٹاسا تھا میرا آشیاں ۔
آج تنکے سے الگ تنکا ہوا۔

آج سوشل میڈیا اور نیوز چینلوں پر ایک خوف سا طاری ہے کہ فلاح کچی آبادی کو گرادیا جائے گا فلاح گھروں کو مسمار کرنے کی تیا ریاں مکمل کرلی گئی ،فلاں بستی کی عوام کے ہاتھوں میں نوٹسز تھمادیئے گئے ۔ میں اس ملک کے حکمرانوں سے یہ کہنا چاہونگا کہ کیا دکھ وہ ہی ہوتا ہے جسے خود محسوس کیا جائے ؟۔ جس طرح ان بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والوں کے بچے ہوتے ہیں اس طرح ان غریب جھونپڑیوں اوکچے مکانوں میں رہنے والوں کے بھی بہت ہی چھوٹے اور معصوم بچے ہوتے ہیں امیر بچوں کے آگے تو نوکر چاکر پھرتے ہیں مگر ان غریب اور معصوم بچوں کے نوکر چاکر ان کے یہ ہی بوڑھے اور مزدور ماں باپ ہوتے ہیں جو ان کی ہر خوشی کے لیے اپنی نامکمل خوشیوں کو قربا ن کردیتے ہیں خدارا ان کے گھروں کو نہ گرایئے مت توڑیئے ان مکانات کو ،کیونکہ جن غریبوں کے مکانات کو توڑنے کی باتیں کی جارہی ہیں ان میں سبھی وہ لوگ ہیں جو پھر کبھی اپنے مکانات کو تعمیر نہ کرسکیں گے یہ ہی غریب لوگ اس ملک کے طول وعرض میں خانہ بدوشوں کی زندگیاں گزاریں ہیں ،وزیراعظم اپنے دل پر ہاتھ کر پوچھے کہ ان کی بھی ایسے ہی چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے اور اسی طرح کسی کچی آبادیوں میں رہ رہے ہوتے اور جب ان کے مکانوں کو بڑے بڑے بلڈوزرپلک جھپکتے ہی مسمار کرردیتے تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ؟کون پوچھتا ان بچوں کے رخساروں سے بہتے ہوئے آنسو ؤں کو؟وقت کا حاکم ؟ وہ تو آپ بھی ہیں ! فرق یہ ہے کہ آپ حاکم ہے اور ان غریب لوگوں میں سے نہیں ہیں! جن کے بغیر دروازوں کے مکانات میں گھرٹوٹنے کا خوف جھانک رہاہے ،جن غریبوں کو یہ خوف ہو کہ جس جس تنکے تنکے سے انہوں نے یہ آشیانہ بنایا تھاوہ بڑی بڑی گاڑیوں کے پہیوں تلے روند دیا جائے گاسوچیے زرا ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی ،جو مزدور دووقت کی روٹی کو بہت مشکل سے پورا کرتا ہووہ بھلا اس مہنگائی کے دور میں کس طرح سے ایک مکان کو دوبارہ سے تعمیر کریگا، کیاان معصوم بچوں کے آنسو ؤں کو کوئی دیکھ سکتاہے جن کے آنسوؤں میں ایک سوالیہ نشان ہیں کہ یہ بچے اپنا چھوٹا سا مکان ٹوٹنے پر رورہے ہیں یا پھر اس مظبوط باپ کی بے بسی پر جو ان کے ایک اشارے پر ان کو کھلونے لادیتاہے ان کی ہر خواہش کو پورا کرتاہے اور وہ ہی باپ ان کے مکانات کو ٹوٹنے سے نہیں بچاسکتا وہ بچے اپنے باپ سوپر ہیرو کو دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے ۔لہذاخدارا مت کیجئے ایسا ایک بادشاہ اپنی ہی سلطنت کو کھنڈربناکر اس پر کس طرح سے حکمرانی کرسکتاہے عمران خان صاحب آپ خود ہی تو کہتے تھے کہ قومیں سڑکیں اور پلوں کو بناکر نہیں بلکہ قوموں پر پیسہ خر چ کرنے سے بنتی ہیں تو پھر آج آپ کی بادشاہی میں اس ہی قوم کے خون سے کن ترقی یافتہ دیواروں کا زائچہ کھینچا جارہاہے ؟ ۔ اگر عوام میں پھیلا خوف درست ہے تو پہلے حکومت نئی کالونیاں اور بستیاں آباد کرے اور یہ جگہ ان لوگوں کو متبادل کے طورپر فراہم کی جائے تو یہ ایک الگ بات ہوگی مگر یہ نہ کہاجاکہ یہ سرکاری زمینیں ہیں اس لیے ان کو خالی کروایا جارہاہے کیونکہ یہ ایک بچکانہ سا جملہ ہے ۔کیونکہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے جو کروڑوں مسلمان اپنے زاتی مکانوں اور گھروں کو چھوڑ کر پاکستان میں آئے تھے وہ یہاں آکر آباد ہوئے ان ہجرت کرنے والوں میں سے کسی کے پاس بھی یہاں کوئی زمین اپنی زاتی جاگیر نہیں تھی ۔سب کی سب ریاست پاکستان کی ہی تھی مگر یہ پاکستان تو وہ ہی ملک تھا نہ جس کی آزاد ی کے لیے ان ہی مسلمانوں نے لاکھوں قربانیاں دیکر اس آزاد وطن کی بنیاد رکھی ۔پھر یہ جگہ بھی ان ہی لوگوں کی ہوئی تو پھر پانچ سال کے لیے آنے والے چند ریاستی عناصر جو آتے بھی ان ہی غریبوں کے ووٹوں سے ہیں کس طرح سے یہ دعویٰ کرکے کہہ سکتے ہیں یہ جگہ سرکار کی ہے ؟ پہلا سوال تو یہ ہے کہ جو انسان پچاس سال سے ایک جگہ رہ رہا ہوں وہ غیر قانونی کس طرح سے ہوسکتاہے ؟۔اور پھر کچھ ہی جگہ کیوں ،جب یہ پوری مملکت اور سلطنت ہی حکومت کی ہے تو پھر یہ کیوں کہا جارہاہے کہ فلاح جگہ سرکار کی ہے ؟۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ عجیب وغریب منطق ہے جسے نہ تو میں سمجھ سکتاہوں اور نہ ہی کسی اور کی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ وہ پاکستان ہے جسے برصغیر کے تمام مسلمانوں نے متحد ہوکر بنایا جس میں یوپی کے مسلمان ،سی پی کے مسلمان ،ایم پی کے مسلمانوں سمیت بنگال کے مسلمان بھی شامل تھے اس میں سارے پنجاب کے مسلمان بھی شامل تھے اور اس ملک کو حاصل کرنے میں ساری قربانیاں بھی ان ہی مسلمانوں کی تھی جن کی اولادوں کو آج اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ ہی مسلمان جب ایک ملک آزاد کرواکر اس میں آباد ہونے کے لیے آئینگے تو کس کی زمین پر آکر آباد ہونگے اگروہ حکومت کی زمین پر آکر آباد نہیں ہونگے تو کیا اس پاکستان کو کیا پھر دیکھنے کے لیے بنایا تھا؟۔ کیا اس پاکستان کے لیے لاکھوں قربانیاں دینے کے ساتھ اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آنے کا مقصد یہ تھا کہ اس پورے ملک پر چند امراؤں کوراج پاٹ دیدیاجائے اور غریب عوام کو رہنے کے لیے چاند پر بھیج دیا جائے؟ ۔خدارا مت کیجئے۔ ایسا یہ مکان اور گھر بہت مشکل سے بنتے ہیں ایک عمر گزرجاتی ہے ۔بلکل میرے ابا کی طرح۔ جس نے مکان بنا تو لیا مگر اسے رہنا نصیب نہیں ہوا۔
آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔
 

Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 67448 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.