دنیا کے مذاہب میں شاید اسلام وہ واحد مذہب ہے جو اپنے
ماننے والوں کی بعد از مرگ بھی راہ نمائی فرماتا ہے۔ دیگر مذاہب میں میت کی
چھوڑی دولت کی تقسیم اخلاقا رشتہ داروں کو دینے کا حکم ہو تو ممکن ہے ورنہ
ہر ایک کے لیے الگ الگ حصے مقرر نہیں ہیں۔ جبکہ اسلام رشتہ داروں کی تین
اقسام بنا کر ہر ایک کا حصہ اور حق متعین کرتا ہے۔ حتی کہ میت کی وصیت بھی
صرف تہائی حصے میں ہی قبول کرتا ہے، تاکہ پسماندگان کی روح کا تعلق جسم سے
استوار رہے، انہیں فاقوں کی اذیت برداشت نہ کرنی پڑے۔ اسی لیے اس کے ماننے
والوں نے ایک نئے فن ’’فن میراث‘‘ کی بنا ڈالی۔ اﷲ تعالی نے میت کی دولت کی
تقسیم منصفانہ کرنے کا حکم فرمایا اور سورۃ النساء سمیت کئی سورتوں میں اس
کے مفصل احکامات بتائے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت
اجاگر فرمائی۔ چنانچہ فرمایا:
’’تم فرائض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ، کیونکہ وہ نصف علم ہے
اور بے شک وہ بھلا دیا جائے گا اور میری امت سے سب سے پہلے یہی علم اٹھایا
جائے گا۔‘‘(بیہقی) نیز فرمایا ’’تم فرائض ایسے اہتمام سے سیکھو جیسے قرآن
سیکھتے ہو۔‘‘ (سنن دارمی)
یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کے جج اور قاضی بننے کے لیے اس فن کا ماہر ہونا
ضروری سمجھا جاتا تھا۔ دور ِزوال سے قبل ہر مسلمان اس علم سے واقف اور
روشناس تھا۔ اکثر لوگ ریاضی کا علم اس لیے حاصل کرتے تاکہ وہ ’’علم میراث‘‘
کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ لیکن افسوس! مادیت کے اس دور میں جہاں دیگر علوم کا
حصول محض نفسانی خواہشات پوری کرنا رہ گیا ہے، وہیں یہ اہم ترین علم بھی
مریضِ جاں بلب کی مانند دم توڑ رہا ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے فرمایا تھا ’’تم خود بھی اس علم کو
سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ، کیونکہ میں دنیا سے پردہ کرنے والا ہوں اور
علم عن قریب معدوم ہونے والا ہے۔ بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے، حتی کہ دو شخص
ترکہ کے کسی مسئلہ میں جھگڑا کریں گے اور انہیں کوئی ایسا عالم نہیں ملے گا
جو ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر سکے۔‘‘(سنن دارمی)
کیا آج وہی دور نہیں؟ عام عوام تو رہے ایک طرف، درس نظامی کے بعض فضلاء بھی
اسے نہیں جانتے۔ یہ علم ایسا یتیم ہو چکا ہے کہ محض اہل فتوی ہی اس سے کچھ
تعلق رکھتے ہیں ورنہ سوائے ’’سراجی‘‘ کے اس علم کی کسی دیگر کتاب کا نام تک
کوئی نہیں جانتا۔ جبکہ سراجی کا نام بھی محض یاد ہونے کی حد تک ہے، اس کے
مسائل سے آگاہی بہت کم لوگوں کو ہے۔ حالانکہ جمع الفوائد کی ایک حدیث
مبارکہ کے مطابق ’’وہ عالم جو فرائض (علم میراث) نہ جانتا ہو، ایسا ہے جیسے
بے سر کے ٹوپی۔‘‘ یعنی بغیر فرائض کے علم بے رونق اور بے زینت بلکہ بے کار
رہتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے مطابق ’’جو شخص علم میراث،
طلاق اور حج کے مسائل نہیں سیکھتا، اس میں اور جاہل دیہاتیوں میں کوئی فرق
نہیں۔‘‘ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے سن ۸۱ھ میں ملک شام کا سفر محض اس
لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو علم میراث سکھا سکیں۔ نیز انہوں نے حضرت ابو
موسی اشعری رضی اﷲ عنہ کو لکھا کہ اگر تمہیں گفتگو کرنے کا شوق ہو تو محض
علم الفرائض کے بارے میں ہی کرو۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سیدنا عکرمہ کو علم
میراث سکھانے کے لیے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیا کرتے تھے تاکہ یہ کہیں اور
مصروف نہ ہو سکے اور صرف اسی علم کو سیکھنے میں مشغول رہے۔ بڑے اکابر
صحابہ، مثلا خلفائے راشدین، زید بن ثابت، عبداﷲ بن مسعود، عبداﷲ بن عباس
اور ابوموسی اشعری رضی اﷲ عنہم اس علم سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔
دور حاضر میں اس اہم ترین علم سے علماء و عوام کی بے توجہی کی کئی وجوہات
ہو سکتی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں سب سے اہم وجہ اس علم کا جدید خطوط پر
استوار نہ ہونا ہے۔ جیسے ریاضی اب پرانے قواعد سے نکل کر اعشاری نظام کی
حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ اگر علم میراث کو اس سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو
نہ صرف پرانی بھاری بھرکم اصطلاحات (تصحیح، توافق، تداخل،تباین وغیرہ) سے
جان چھوٹ جائے گی بلکہ کیلکولیٹر کی مدد سے چند منٹوں میں لاکھوں کی
جائیداد بآسانی تقسیم ہو سکے گی۔ اسی طرح آٹھویں، چوتھائی، تہائی وغیرہ
جیسی مشکل اصطلاحات کی بجائے 12.5 فیصد، 25 فیصد، 33.33 فیصد کا استعمال
اور حل زیادہ آسان ہے۔ یوں امام سجاوندیؒ کی آٹھ سو سال قبل لکھی گئی کتاب،
جسے درس نظامی کی مشکل ترین کتب میں شمار کیا جاتا ہے سہل ترین ہو جائے گی۔
جب میں درجہ سادسہ میں سراجی پڑھ رہا تھا تو اکثر گنجلک میں پڑ جاتا۔ کئی
مرتبہ خیال آتا، کوئی ایسا طریقہ ہو جسے اپنا کر میراث کے مسائل آسان صورت
میں حل کر لیے جائیں، لیکن چند ایک ذاتی ایجاد کردہ نتائج کے سوا کوئی
حوصلہ افزا صورت سامنے نہ آتی۔ اپنے کچھ دوستوں کو وہ اصول دکھائے تو بجائے
حوصلہ افزائی کے حوصلہ شکنی ہوئی۔ پھر بھی میں اس جستجو میں تھا کہ شاید
کہیں سے کوئی کتاب ہاتھ لگ جائے۔ انٹرنیٹ سرچنگ کے دوران 2015ء میں
ہندوستان کے ایک عالم دین مولانا ثمیرالدین قاسمی صاحب کی کتاب ’’ثمیرۃ
المیراث‘‘ ہاتھ لگی، جو میری سوچ کے مطابق تھی۔ لیکن اہل ہند کی عادت ہے کہ
وہ بات سمجھانے کے لیے اسے بہت زیادہ پھیلا دیتے ہیں جس سے گنجلک پیدا ہو
جاتی ہے۔ نیز مصروفیات بھی اتنی اجازت نہ دیتی تھیں کہ اسے پوری تن دہی اور
حاضر دماغی سے پڑھا جا سکے۔ لہذا خاص فائدہ نہ ہوا۔ کچھ عرصے بعد غالبا
صوابی کے عالم دین مولانا شوکت علی قاسمی صاحب کی ’’اسلام کا قانون وراثت‘‘
نظر سے گزری۔ یہ کتاب بہت مفید تھی، اور شاید میرے مزاج کے عین مطابق تھی۔
لیکن وہی بات کہ انتہائی طویل ہونے کی وجہ سے حضور ذہنی سے نہ دیکھی جا
سکی۔
چند ماہ پہلے کراچی سے ایک عالم دین، مفتی امیتاز خان جدون صاحب نے رابطہ
کیا۔ وہ مجھ سے اپنی کتاب کا سرورق بنوانا چاہتے تھے۔ کتاب کا نام انہوں نے
’’نخبۃ السراجی‘‘ بتایا۔ میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ ’’سراجی‘‘ کی
شروح میں ایک مزید شرح کا اضافہ ہو گیا ہے اور بس!!! جس کی اہمیت کاپی پیسٹ
سے زیادہ نہ ہوگی، لیکن جب حضرت نے تفصیل بتائی تو میں حیران رہ گیا۔
کیونکہ ان کے مطابق یہ کتاب A5 سائز کے محض 55 صفحات پر مشتمل نہایت مختصر
تصنیف تھی، جس میں جدید طریقے سے علم میراث کو مکمل حل کرنا سکھایا گیا
تھا۔ جس سے نہ صرف عالم دین بلکہ عام میٹرک سطح تک کا پڑھا لکھا نوجوان بھی
بآسانی استفادہ کر سکتا تھا۔ کتاب دیکھی تو دعوی کے عین مطابق نکلی۔ جوئندہ
یابندہ، بندہ جب اسے پڑھنے بیٹھا تو آدھے گھنٹے میں ساری کتاب نظر سے گزار
لی۔ مزے کی بات یہ کہ اس میں اصول و قواعد بتانے کے ساتھ ساتھ مشقیں بھی دی
گئی ہیں، جنہیں کوئی بھی باشعور شخص کیلکولیٹر کی مدد سے حل کرتا جائے تو
تھوڑی دیر میں اس علم پر عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور
کتاب بھی اسی موضوع پر حضرت نے تالیف فرمائی ہے ’’فہم میراث کی آسان
راہیں‘‘۔ اس کتاب کو پاک و ہند کے اکثر علما خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔ اس
کتاب کا انگریزی ترجمہ Meerath made easy کے نام سے تیاری کے مراحل میں ہے۔
امید ہے کہ چند ماہ تک منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جائے گی۔ مفتی امتیاز خان
جدون صاحب اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ وہ علم میراث کورس چالیس سے زائد
بار پڑھا چکے ہیں۔ ان کے شاگرد پاکستان، ہندوستان، برصغیر حتی کہ وسطی
ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مفتی صاحب یہ کورس واٹس ایپ گروپ کی شکل میں بھی
پڑھاتے ہیں، جو لوگ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، وہ گھر بیٹھے اس
فاصلاتی تعلیم سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ بہرحال علم میراث کے حصول کے شائقین
کے لیے یہ دونوں کتب کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں ہیں۔
*** |