وہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔ اچانک اُس نے چادر سر سے لے لی ۔
اب وہ اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ صرف چہرہ اور تھوڑی تھوڑی چہرے پر آتی
زُلفیں عجب کہانی کا غضب ڈھا رہی تھیں ۔ اُس کا ہلکا سا بناؤ سنگھار اور
گلابی چادر خدا کے دئے قدرتی حُسن کو نزاکت دے کر مزید نکھار رہی تھی جو
حامد کے اندر پہلے سے موجود جزبات کو مزید اُبھار رہی تھی جو نہ دیکھتے ہوے
بھی سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔
جو دکھ رہا تھا اُسے بھی پتہ تھا کہ وہ دِکھا رہا ہے۔ وہ نہ دکھاتے ہوے سب
کچھ دکھا رہی تھی ۔ شریف سے شریف عورت بھی کچھ نہ کچھ اپنا آپ دکھانے پر
اپنی قدرتی ساخت سے مجبور ہوتی ہے اور ایک کتاب کے مطابق مومن سے مومن عورت
کے سراپے کو خوب اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ کون اُس کو کس زاویہ سے اور کس
نظر سے دیکھ رہا ہے۔
جو مرد اس فطرت کو سمجھتا ہے وہ اُلجھتا نہیں اور جو نہیں سمجھتا وہ
اُلجھتا ہے ۔ جو اُلجھتا ہے وہ سُلجھتا نہیں ۔ جس کو عورت کی مجبوری کا پتہ
چل جاے پھر اُس پر گرجتا نہیں اور جو گرجتا ہے وہ برستا نہیں لیکن محبت تو
برستی ہے اور کھُل کر برستی ہے اور بنا دیکھے برستی ہے کہ وہ کس پر برس رہی
ہے۔
مرد بھی ہر حال میں مرد ہی ہوتا ہے اور تمام تر سمجھداری کے باوجود نہ جانے
کب اُس کی غیرت جاگ پڑے اور کسی بھی عُمر میں اُس کا سویا ہوا مرد جاگ پڑے
اور وہ کس سمت بھاگ پڑے ۔
لشکاری نے دوپٹہ سنبھالتے ہوے اور بھی نظریں جھُکالیں اور حامد کے دل نے
محبت کی اور بھی موم بتیاں سُلگا لیں ۔ محبت کا موم پگھل پگھل کر نیچے کہیں
جا کر جمنے لگا اور بظاہر تھمنے لگا لیکن پھر سے بھڑکنے کے لئے پھڑکنے لگا
اور حامد کا دل بھٹکنے لگا۔
لشکاری کا اپنے آپ کو دکھا کر چھُپانا چیلینج بن رہا تھا ۔ حالانکہ اگر وہ
نارمل رہتی تو شائد شعلہ نہ بھڑکتا اور دل نہ دھڑکتا اور کسی کی آنکھ میں
نہ کھٹکتا اور یہ جو صرف ایک کھٹکا تھا ، ۴۴۰ وولٹ کا جھٹکا نہ بنتا اور
محبت کا مٹکا مٹک مٹک کر جھٹکہ پہ جھٹکہ دے کر اُس بیچارے کو بے دردی سے نہ
پٹکتا ۔
شائد یہی راز ہے معاشرہ میں محبت کے پروان چڑھنے کا اور نسل کے آگے بڑھنے
کا ورنہ پھر وہی ہوتا ہے کہ دوسرے معاشروں کی طرح عورت کی ایک سمت سے
بیزاری اور دوسری سمت سے ہلاکت تک لے جانے والی بیداری اور مشرق سے اُبھرتی
ہوئ مغربی راہداری اور مغرب میں سیکھنے کی روش سے اُٹھتی مُثبت سمجھداری ۔
بات محبت کی ہو رہی تھی جو جسم سے بھی ہوتی ہے اور روح سے بھی ۔ جسم کی
وقتی اور روح سے کُل وقتی جو بنتی ہے آخر کار کسی کی خوش بختی لیکن اس دنیا
میں تو روح اور جسم دونوں کی ضروریات ضروری ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر
گُزارا نہیں۔
جسم کی ضرورت پوری کرنے سے اطمینان اور روح کی ضرورت پوری کرنے سے سکون
حاصل ہوتا ہے۔
انسانوں کی زندگیوں میں منفی جزبات اور جزبات سے زیادہ چیزوں کی بڑھتی ہوئ
محبت انسانوں سے محبت میں رُکاوٹ بنتی جا رہی ہے ۔
جسم سے بڑھتی محبت روح کے روحانی نقصان کا باعث ہے مگر روح سے محبت جسم کو
کم ہی نقصان دیتی ہے۔
شادیوں میں دو دلوں کے ملاپ سے زیادہ سامان کے الاپ پر زور ہوتا ہے جو کئ
گھرانوں کے لئے بہت مشکل پیدا کر رہا ہے۔
سامان سے یاد آیا کہ ایک ادیب کی دلچسپ کتاب یاد آئ جو حج کے سفر پر تھی ۔
اُس مقدس سفر میں واپسی پر بھی ائر پورٹ پر سامان کی صدائیں بلند ہو رہی
تھیں ۔
میرا سامان کہاں ہے!!!
جو شروع تو ہوا تھا اس سے
اے خُدا میں حاضر ہوں !!!
اور اختتام یہ
اے سامان میں حاضر ہوں !!!
سامان انسانوں کی ہی نہیں خدا کی محبت میاں بھی آڑے آ جاتا ہے۔
تحفوں کا تبادلہ محبت بڑھاتا ہے اگر محبت سے دیا جاے مگر رسم و رواج کی
ہتھکڑیاں تحفوں کو بھی مجبوری بنا کر دل آزاری کا باعث بنا کر دل کی چھلنی
سے چھن رہی ہیں اور فرحت کا باعث نہیں بن رہی ہیں ۔
زندگی کی ضروریات جو اتنی ضروری بھی نہیں ہوتی ہیں مگر ازدواجی و سماجی
زندگی میں دراڑ پڑنے کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون بربادیِ رشتہ داری و سکون اور نہیں ہونے
دیتا انسان کو سادہ و ممنون جو بھُلا دیتا ہے وہ بچپن کی معصومیت ، وہ کاغز
کی کشتی اور محبت کا موم سون۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مُجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغز کی کشتی وہ بارش کا پانی
جگجیت کی مشہور زمانہ غزل چل رہی ہے
اور میں لکھ رہا ہوں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر جس میں مردانہ وجاہت اور
حُسن کی نزاکت آس پاس موجود ہے جس نے تحریک پیدا کی اور سردی کے موسم میں
قہوہ نُما چاے کے تیسرے اور آخری کپ سے اُٹھتا دھواں مجھے بھی وہاں سے
اُٹھا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے۔
|