ملتان شہر کو اولیاء اکرام کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ ملتان
پاکستان کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ ملتان پاکستان کا ایک تاریخی شہر ہے۔ملتان
پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے ۔ یہ شہر جنوبی پنجاب میں دریائے
چناب کے کنارے آباد ہے ۔ آبادی کے لحاذ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر
ہے ۔ یہ ضلع ملتان اور تحصیل ملتان کا صدر مقام بھی ہے ۔ ملتان کی بقیہ
تحصیلوں میں تحصیل صدر ، تحصیل شجاع آباد اور تحصیل جلال پور پیر والا شامل
ہیں ۔تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ملتان کا ابتدائی نام کیسا پور تھا
بعد میں ایک قوم جس کا نام مالی تھا یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں
آباد ہونے کو استھاان کہتے ہیں یوں اس کا نام مالی استھان پڑھ گیاجو بعد
میں مالی تان بن گیا پھر وقت کے ساتھ ساتھ مالیتان ، مولتان اور اب ملتان
بن گیا ہے ۔ ملتان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسان کی خود اپنی تاریخ
ہے ۔ ملتان کی قدامت پر اگر غور کریں تو اس میں پاکستان اور ہندوستان تو
کیا پورا جہان سما سکتا ہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ جیسے سینکڑوں نہیں بلکہ
ہزاروں شہرآباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر پھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے
لیکن بزرگ شہر ملتان بلکہ بزرگوں کا شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ
تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی کوششیں کرنے
والے حملہ آور خود نیست و نابوط ہوگئے اورانکا آج بھی کوئی نام لیوا نہیں
ہے مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے اور زندہ ہی رہے گا ۔
ملتان شہر کی چار چیزیں بہت مشہور ہیں جن میں گرد ، گدا گر ، گرمی اور
گورستان شامل ہیں ۔ ملتان کو اولیاء اکرام کی سرزمین کہا جاتا ہے کیوں کہ
یہاں دربار بہت زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ ملتان آج تک آباد ہے ۔ ملتان کو
اصل شہرت اسلامی عہد حکومت میں حاصل ہوئی جب نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم
نے سات سو بارہ میں لشکر کشی کی اور یہاں نو دس ہزار عرب آباد کئے ۔ ایک
جامع مسجد تعمیر کروائی ۔ اسی کے زمانے میں مشہور مورخ و مفکر البیرونی
یہاں آیا اور پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک ملتان میں زندگی گزاری اور مشہور
کتاب الہد لکھی جس میں خصوصی طور پر ملتان کی تہذیب و ثقافت کو زیر بحث
لایا گیا ۔قیام پاکستان کے بعد ملتان شہر نے کافی ترقی کی ہے ۔ پرانا شہر
تو اپنی تنگ گلیوں اور بازاروں سمیت چھ دروازوں میں گھرا ہوا ہے یعنی دہلی
گیٹ ، لوہاری گیٹ ، حرم گیٹ ، پاک گیٹ ، جوہر گیٹ اور دولت گیٹ ۔ اندرون
شہر میں تو کشادگی کی گنجائش نہ تھی سوائے اس کے بہت سی قدیم عمارتوں کو
منہدم کر کے نئی عمارتیں استوار کی جائیں البتہ بیرونی اور نواحی علاقوں
میں ملتان نے بہت وسعت اختیار کر لی ہے ۔
ملتان شہر اپنی ثقافت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ معاشی حوالے سے
ملتان جنوبی پنجاب کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ملتان کے نزدیکی بڑے شہروں میں
بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔ دریائے ستلج ملتان اور بہاول پور کے
درمیان سے بہتا ہوا گزرتا ہے جبکہ ملتان اور مظفرگڑھ کے درمیان سے دریائے
راوی روانی کے ساتھ گزرتا ہے۔ملتان کا شمار پاکستان کے گرم ترین شہروں میں
ہوتا ہے۔ ملتان کے مغرب کی جانب دس کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان انٹرنیشنل
ایئرپورٹ واقع ہے۔تعلیم کے حوالے سے ملتان کی بہت اہمیت ہے مگر بہاول الدین
زکریا یونیورسٹی اپنے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ سارے پاکستان سے
لوگ پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لئے
نشتر ہسپتال کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
اسپورٹس کے حوالے سے ملتان شہر کی ایک اور بڑی خصوصیت ملتان کرکٹ اسٹیڈیم
ہے جو بہت سے انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ ملتان شہر کی ایک اور
بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پھلوں کا بادشاہ آم کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے
اور ہر نسل کے آم ملتان میں پائے جاتے ہیں۔ ملتان کا علاقہ بہت زرخیز ہے۔
ملتان نے بڑے نامور لوگ پیدا کیے ہیں۔ جن میں مشہور شاعر شاکر شجاع آبادی ،
ملتان کے مشہور سیاست دانوں میں پاکستان کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا
گیلانی، پاکستان کے وزیر داخلہ شاہ محمود قریشی اور سابق وفاقی وزیر مخدوم
جاوید ہاشمی شامل ہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں انظام الحق، راحت علی، صہیب
مقصود اور امام الحق شامل ہیں۔ جبکہ اداکاروں میں مشہور اداکارہ صائمہ نور
اور اسٹیج کی دنیا کے مشہور اداکار آغا ماجد شامل ہیں۔ میری اس سے پچھلی
تحریر بہاول پور شہر کے حوالے سے تھی اور اب کی تحریر ملتان شہر کے بارے
میں ہے۔ ان دونوں کے لکھے جانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو اگاہ کیا
جائے کہ جنوبی پنجاب کی صورت میں ایک علیحدہ صوبہ بننے جارہاہے۔ ملتان اور
بہاول پور کے لوگوں کے درمیان اس بات کو لے کر مسئلہ ہے کے صوبے کا ہیڈ
کواٹر ہمارا شہر بنے تو مہربانی فرما کر اس سوچ کو ختم کر دیں تاکہ پاکستان
ترقی کرسکے۔ لیکن ایک بات یہاں قابل غور ہے کہ ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے ملتان
شہر بہاول پور شہر سے بہت آگے ہے اس لیے پاکستان کا نیا صوبہ جنوبی پنجاب
اگر بنے تو اس کا ہیڈ کواٹر ملتان کو ہی ہونا چاہئے۔ اگر جنوبی پنجاب صوبہ
بن جاتا ہے تو ملتان اور بہاول پور کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کے لیے بھی بہت
بہتر ہوگا۔ |