حنان موٹرسائیکل کو تیز رفتاری سے نہر کی سڑک پر چلا رہا
تھا۔ وہ موٹر سائکل پر عجیب عجیب حرکت کرنے کا ماہر تھا۔ ون ویلنگ کرنا
موٹر سائکل پر کھڑے ہو جانا تیز رفتاری میں موٹر سائکل سے ایک طرف اْتر
جانا اِس طرح کی حرکتیں کرنا اْس کا شوق تھا اور وہ ان حرکتوں کو فن سمجھتا
تھا۔ دوستوں میں اْس کا نام ون ویلر مشہور تھا سب اْس کو ون ویلر کہتے تھے۔
حنان اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور تین بہنوں کا اکیلا بھائی۔ ون
ویلنگ کی وجہ سے کئی دفعہ پولیس والوں نے بھی پکڑا جیل بھی گیا۔ ماں نے
اپنی قسم بھی دی اور باپ نے اْس کی حرکتوں کی وجہ سے اْس کی موٹر سائکل بھی
قبضے میں لی مگر ہواوں کو کون روک سکتا ہے۔
آج بھی وہ نہر والی سڑک پر موٹرسائکل اپنے دوستوں کے ساتھ تیز رفتاری سے
چلا رہا تھا۔ کبھی کسی گاڑی کو کٹ لگاتا اور کبھی کسی گاڑی کو اوور ٹیک
کرتا ہوا آگے نکلتا جا رہا تھا ۔وہ اپنی موج میں تھا اس کے کچھ دوست پیچھے
آرہے تھے ۔وہ سب دوستوں میں سب سے زیادہ ماہر تھا ۔اس نے خالی سڑک دیکھی
اور موٹر سائیکل کو ایک پہیے پر اٹھا دیا۔ پیچھے کچھ دوست اس کی ویڈیو بنا
رہے تھے۔ حنان کے بال ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ اونچی انچی آوازیں نکال
رہا تھا۔ حنان اپنے آپ کو بہت ماہر سمجھتا تھا اور اِس ماہرانہ حرکتوں کی
وجہ سے کافی چوٹیں بھی کھانی پڑیں اسے مگر کوئی نتیجہ اْس کو روک نہیں
سکا۔اچانک ایک شخص سڑک کے درمیان میں آگیا جو کہ بہت اچانک ہوا حنان سے
موٹر سائکل سنبھالی نہ گئی ۔
اْس نے حد تک کوشش کی کہ سامنے والا شخص بچ جائے اچانک اس کی موٹر سائکل
پھسلی اور حنان پہلے ہوا میں اڑا اس نے ہوا میں کئی چکر کھائے اور کتنی دیر
دنیا اسے گھومتی ہوئی دکھائی دی ۔گول گول چکر کھانے کے بعد وہ دھڑام کر کے
زمین پر گر گیا۔ اس کو کچھ سمجھ نہ آیا، اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ زمین پر
گرنے کے بعد اس کے اندر ہمت نہ رہی۔اس میں مکمل طور پر قوت ختم ہو گئی تھی۔
پھر اچانک وہ بے ہوش ہو گیا وہ کتنی دیر بے ہو ش رہا اس کو کچھ معلوم نہ
تھا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ سڑک کے درمیان میں گرا ہوا تھا، سورج کی
روشنی بتا رہی تھی دوپہر کا وقت ہے۔ جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی تو بہت بڑا
مجمع اس کے اوپر تھا۔ جس میں سے کچھ کلمہ پڑھ رہے تھے، کچھ استغفار پڑھ رہے
تھے کئی موبائل پر اس کی ویڈیو بنا رہے تھے ۔ کوئی کانوں کو ہاتھ لگا رہا
تھا، حنان نے دیکھا تو وہ بہت گھبرایا اور سب سے پوچھنے لگا،’’کیا ہوا
بھائی کیا ہوگیا‘‘؟ ،حنان نے اْٹھ کر کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا۔ مگر کسی نے
کوئی جواب نہیں دیا۔
’’ ارے کیا دیکھ رہے ہوں سب‘‘،پاس کھڑے اْس کے دوست رو رہے تھے۔’’ ارے کیوں
رو رہے ہو، سب ٹھیک تو ہے دیکھو‘‘،حنان بولے جا رہا تھا مگر کوئی اس کا
جواب نہیں دے رہا تھا۔ سب نیچے کی طرف دیکھ رہے تھے۔اس کو بہت پریشانی ہوئی
میں چیخ رہا ہوں مگر کوئی جواب ہی نہیں دے رہا۔ جب اس نے نیچے دیکھا تو اس
کے اندر عجیب سا ہی سما تھا۔ اس کی شکل اور اس کے جیسا دکھنے والا جسم زمین
پر پڑا ہوا تھا۔ ایک ٹانگ اس جسم سے الگ تھی کہاں تھی کوئی پتہ نہیں تھا
اور ہر طرف خون ہی خون تھا، منہ دیکھنے کے لائق نہ رہا تھا۔ وہ حیران تھا
کہ وہ بالکل صحیح سلامت ہے تو نیچے کون پڑا ہوا ہے۔حنان کے اندر کھلبلی سی
مچنے لگ گئی۔اس نے علی کو دیکھا جو مو ٹر سائیکل پر پیچھے اس کی ویڈیو بنا
رہا تھا۔ حنان نے علی کو ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی مگر حنا ن اس کو چھو
نہیں پا رہا تھا۔اس کے ہاتھ علی کے جسم کے آر پار ہو رہے تھے وہ سمجھ چکا
تھا مگر وہ یقین نہیں کرنا چاہتا تھا جس وقت پر وہ راج کر رہا تھا تھا آج
وہ وقت اْس پر ہنس رہا ہے۔ بازی بدل چکی تھی جدھر وہ اپنے آپ کو سب کا ہیرو
سمجھتا تھا وہ عبرت بن چکا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد نیوز چینلز کی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں نیوز اینکر
اور کیمرہ مین اس کی لاش کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ وہ لاش بے جان تھی مگر کچھ
ہی لمحوں میں اس کے بے جان جسم نے نیوز چینلز مین جان ڈال دی تھی۔ حنان جس
کو زندہ کوئی نہیں جانتا تھا اب اس کو مرا ہوا سب دیکھ رہے تھے، ہر نیوز
چینل پر بس اسی کی خبر تھی۔ ایمبولینس بھی پہنچ گئی ،ایمبولینس والوں نے
حنان کے جسم کو سنبھال کر گاڑی میں رکھ دیا اور گاڑی وہاں سے چلی گئی اور
ایمبولینس کے جانے کے فوراً بعد ایک دم سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہو گیا۔ کچھ
ہی لمحوں میں ایسے لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں سارا ماحول ایسے ہو گیا جیسے
حنان اِس دنیا میں آیا ہی نہیں تھا۔حنان سڑک کے کنارے بیٹھ گیا سڑک پر چلتی
گاڑیوں کی رفتار میں بالکل بھی کمی نہیں آئی تھی ۔
اس دنیا کی رنگینیوں کو دیکھ رہا تھا جو کہ ویسی ہی تھی مگر اب وہ اس کا
حصہ نہیں رہا تھا حنان کی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گے اور وہ زور زور
سے رونا شروع ہو گیا روتے روتے اس نے چیخنا شروع کر دیا مگر نہ ہی کوئی
گاڑی رکی اور نہ ہی کوئی اسے چپ کرانے آیا۔ اس کو سمجھ نہ آئی کہ اب وہ کیا
کرئے پھر اسے اپنا گھر یاد آیا اور سب کی فکر ہونے لگی جب اس کو اپنی ماں
کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا تو وہ اٹھا اور بھاگناشروع ہو گیا وہ بہت تیز
بھاگا اس کی رفتار بہت تیز تھی اور عجیب بات یہ تھی اس کو سانس نہیں چڑھ
رہی تھی اور نہ ہی اْس کو تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ گھر کے
دروازے پر تھا۔گھر کے دروازے پر پہنچنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونے کی
ہمت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔
گھر میں چیخنے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔کافی لوگ گھر میں اکھٹے تھے حنان
کی ماں اس کی لاش کے ساتھ چپک کر رو رہی تھی۔ حنان بے بس دیکھ رہا تھا وہ
اپنی ماں کو چپ کرانا چاہتا تھا مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا ۔’’میں اب
کچھ نہیں کروں گا امی! مجھے معاف کر دیں،میں اب کوئی حرکت نہیں کروں گا میں
اب اچھا انسان بن جاوں گا ‘‘، حنان بولے جا رہا تھا مگر وہ بھول گیا تھا کہ
اب وہ زندہ نہیں تھا۔ بہنیں بھی ایک طرف بیٹھی رو رہی تھی اور چیخ رہی تھیں
۔وہ اپنے اکلوتے بھائی کے ساتھ ایسا ہوتا دیکھیں گی ان کے وہم و گمان میں
بھی نہیں تھا۔ حنان کے ابو ایک جگہ بیٹھے سر پر ہاتھ رکھے رو رہے تھے اور
بول رہے تھے ،’’میرا وارث اب اس دنیا میں نہیں رہا میرا پیارا بیٹا‘‘،حنان
کا دل چاہا کہ وہ ابو کو گلے لگا لے۔’’ ابو مجھے معاف کر دیں میں آپ کو خوش
نہیں کر سکا میں آپ کا سہارا نہیں بن سکا مجھے معاف کر دیں‘‘،حنان اپنے باپ
کے پاس کھڑا ہو کر روتا ہوا بول رہا تھا۔
اچانک حنان کو پیچھے سے کسی نے آواز دی جو کہ بڑی ڈرا دینے والی آواز
تھی۔’’ حنان!‘‘، حنان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک فرشتہ جس کے پر بڑے بڑے
تھے اور ہاتھ میں عصا پکڑا ہوا تھا۔ جیسے ہی حنان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو
وہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا اس کی خوف سے ایک زور کی چیخ نکلی اور
ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ صبح کے دس بج رہے تھے باہر سے طوطے کی آواز آ
رہی تھی۔ جو حنان کے گھر کے صحن میں لگا ہوا تھا وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اس کے
ماتھے پر پسینہ تھا اور ڈرا ڈرا تھا اس کا جسم کانپ رہا تھا ، ’’شکر ہے یہ
خواب تھا‘‘، حنان نے اپنے آپ سے کہا۔ وہ بیڈ پر سے اترا اور باہر صحن میں
چلا گیا۔ صحن میں حنان کی امی چاول کے دانے چن رہی تھیں۔ حنان بھاگتا ہوا
گیا اور ان کی گود میں سر رکھ دیا اوکہا،’’امی آج کے بعد میں کبھی آپ کو
تنگ نہیں کروں گا، کبھی ون ویلنگ نہیں کروں گا وعدہ‘‘۔ ماں نے مسکرا کر
حنان کو دیکھاتووہ پرسکون ہوگیا۔ |