پاکستان کے وجود کو پارہ پارہ کرنے والے محرکات

میں جب بھی یہ سوچتا ہوں کہ ہندوستان نے نفرت کے بیج بو کر مشرقی پاکستان کو علحیدہ کیا تو میری روح چھلنی ہوجاتی ہے دل انگاروں سے بھر جاتا ہے۔ اور خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح ایک سازش کے تحت ہمارئے بنگالی مسلمان بھائی ہم سے جُدا ہوئے اور کس طرھ مکتی باہنی نے نفرتوں کی آبیاری کرکے بھائی کو بھائی کا دُشمن بنادیا اور بنگلادیشی وزیر اعظم مجیب کی بیٹی حسینہ واجد پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والوں کو پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے اور یہ تک کہتی ہے کہ جس نے بھی پاکستان کا دم بھرا اُس کی قبر یہاں نہیں بننے دوں گی۔ نفرتوں کے بیج بونے میں پاکستانی سیاست دان بھی برابر کے شریک ہیں کہ جو اِس بات کا ادراک ہی نہ کر سکے کہ ہندوستان کتنی گہری سازشیں کر رہا ہے پاکستان کی لیڈرشپ جو کہ اُس وقت فوج تھی وہ اِن سازشوں کا توڑ ہی نہ کر سکی اور پھر جس طرح انسانی لاشوں کے انبار لگے اب کہ 1947 کے مقابلے میں زخم کے چرکے بہت شدید تھے کیونکہ وہ جنگ سکھوں اور ہندووں کے ساتھ تھی اور اِس جنگ میں مکار بھارت اپنی بجائے ہمارئے ہی بھائیوں کو ہمارئے خلاف مورچہ بند کروائے ہوئے تھا۔ ایک مشہور چینل کے پروگرام جس میں میں بھی شریک تھا اُس میں ممتاز مذہبی وسیاسی شخصیت جناب حاجی محمس حنیف طیب شریک تھے اُنھوں جو بات کہ تھی وہی حاصل ِ کلام ہے کہ وہ مجیب الرحممان سے جاکر اُس کے گھر ملے تھے وہ اپنے حقوق چاہتا تھا۔ائے کاش اگر پاکستان کی تخلیق کے مقاصد پر عمل ہو جاتا تو سانحہ مشرقی پاکستان رونماء نہ ہوتا۔ چیف جسٹس پاکستان حمودالرحمان خود مشرقی پاکستان کے باسی تھے اُنھوں نے جو اِس سانحے کہ حوالے سے رپورٹ مرتب کی اُس میں سانحہ مشرقی پاکستان کے متعلق اُن وجوہات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو کہ اِس سازش کے محرکات بننے اِس رپورٹ میں سابق فوجی جرنیلوں کے حوالے سے بھی کافی کچھ لکھا گیا اور اُن محرکات کے حوالے سے کوئی احسن قدم نہیں اُٹھایا گیا جس کی وجہ سے اب بلوچستان میں بھی سقوط ڈھاکہ والی کہانی دہرائے جانے کی تیاریاں ہیں ہم ہیں کہ اپنے ہی وجود کو نوچ رہے ہیں۔16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا تاریک پہلو ہے جو اِس المیے کی یاد دلاتا ہے جب اس وطن کو پارہ پارہ کردیا گیاپاکستان اپنے وجود کو برقرار نہ رکھ سکاپاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ نہیں دھڑکتے ۔انگریز کی غلامی ،اور ہندو کی غلامی سے بچنے والے پاکستانی اب بھی غلام ہیں آقا بدل گئے غلام وہی ہیں۔لاکھوں شہادتوں اور عصمتوں کی قربانی کے طفیل حاصل ہونے والا وطن مایوسیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔دہشت گردی، لاقانونیت،بیروزگاری ہر پھیل گئے ہے ۔اشرافیہ کا تمام وسائل پر قبضہ ہے چند ہزار لوگوں نے اٹھارہ کروڑ عوام کو معاشی و سماجی طور پر یرغمال بنا رکھاہے اسی طرح غریب طبقے سے اُبھرنے والی سیاسی قوتیں بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں پھنس کر رہ گئیں مذہب کا نام استعمال کرکے عوام استحصال کیا جارہا ہے موجودہ حالات اور ایسی قیادتوں کے ہوتے ہوئے ہم کیسے اِس گرداب سے نکل سکتے ہیں ،ہے اِس کا کوئی قابل عمل حل ۔حضرت ِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عالماں از علم قران بے نیاز صوفیاں درندہ گرگ ومو درازیعنی آج کے علماء قران کے علم سے لاپرواہ ہیں جب کہ صوفی گویا پھاڑ کھانے والے بھیڑیا بنے ہوئے ہیں اور لمبے بالوں والے ہیں۔دنیا میں انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے انسان اور مسلمان میں فرق کیا ہے۔ مسلمان بننا کس طرح کے افعال کا متقاضی ہے۔اگر ہم سب ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ سے جسے ضمیر بھی کہا جاتا ہے اُس کی بھی مدد لیں کہ کیا انسان کی تخلیق کا وہ مقصد ہے جو دنیا میں ہور ہا ہے۔کیا انسان اور مسلمان میں کوئی فرق ہے۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے۔کیا مسلمان بن کر ہم معاشرے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں کیا ہمارئے اور غیر مذاہب کے افعال و اعمال میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔وقت جس سُرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور وطن پاک کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے کیا سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی بھی سبق سیکھا گیا۔اصل میں پاکستان میں حکمران طبقہ اور ہے اور عوام الناس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہے۔ حکمرانوں کے قلوب و اذہان عوام کے جذبات سے کوسوں دور ہیں۔عوام ہے کہ دہشت گردی، لاقانونیت بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہے جبکہ حکمران اپنے محلات میں خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ عوام بھوک اور افلاس کے گرداب میں پھنس چُکے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکمرانوں نے اپنا وطیرہ بدلہ ہو۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا اور عام لوگوں کا یہ سوال کہ پہلے تو ہندو اور انگریز کی غلامی سے چھُٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اور علیحدہ مسلم ریاست بنانے کے لیے بٹوارا کیا گیا لیکن 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا کس سے آزادی کے لیے تھا۔مسلمان کو مسلمان سے ہی آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایک ہوں مسلم حرم کے پاسبانی کے لیے کے نظریئے کو کس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان روس اسرائیل گٹھ جوڑ نے پاکستان دو لخت کیا ،اور ان ممالک کی سازشوں نے ایک نوزائیدہ ملک کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تو اُس وقت اِس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنیوالے کہاں تھے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اِس بات کا جواب ہمیں جسٹس حمود الرحمان کی رپورٹ سے بھی ملتا ہے کہ اِس سانحے کے پیچھے غیر ممالک کے علاوہ پاکستانی سول و فوجی اسٹیبلیشمنٹ کا بھی غفلت اور کوتاہیوں سے بھر پور کردار ہے۔ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است، وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ غیر ملکی سازشوں کے لیے ان سازشی ممالک کومیر جعفر و میر صادق میسر آ تے رے رہے اور میر جعفروں کی ہوس نے وطن کو پارہ پارہ کردیا۔تاریخ میں یہ رقم ہے کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی قوت کو مغربی پاکستان کے سیاستدان نے عملاً تسلیم نہ کرکے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے مطالبہ کو پورا ہونے میں اہم کردار ادا کیا اور ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا گیا۔ بنگالی عوام جہاں سے مسلم لیگ کا خمیر اُٹھا تھا وہاں مکتی باہنی اور ہندوستانی انٹلیجنس اداروں نے مل کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کیونکہ پاکستان کی عوام کی آواز حکمرانوں سے بہت دور تھی اور حکمرانوں کو عوام کے جذبات کی کوئی قدر نہ تھی ۔اُنھیں قدر تھی تو صرف اپنی حکمرانی کی بھلے ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے اور پھر وہی ہوا جس پاکستان کی فوج کو دُنیا کی بہترین فوج مان جاتا ہے وہی فوج ہتھیار ڈال کر پوری دنیا میں خود بھی رُسوا ہوئی اور پاکستان اور اُس کی عوام کو بھی رُسوا کیا گیا۔ترانوئے ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا اور فوجی بھی وہ جن کا نعرہ تکبیر ہو جس نعرے سے قیصروکسریٰ کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا تھا ۔ وہی نعرہ تکبیر لگانے والی فوج شرمناک شکست کی حامل قراردے دی گئی۔ آخر ہماری اندر اتنی سمجھداری کیوں نہیں آسکی کہ ہم اُس بدترین شکست سے کوئی سبق سیکھ سکتے۔تاریخ کے پُرانے اوراق اپنے ساتھ بہت ہی دردناک حقیقتیں لیے ہوتے ہیں اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ہماری چشم پوشی کی وجہ سے تاریخ کے دھارئے نہیں بدلا کر تے۔پاکستان کی آزادی دوقوموں سے حاصل کردہ تھی انگریزوں کے علاوہ ہندووں سے بھی۔ اور ہندوستان کے مطابق پاکستان کا بننا بہت بڑا پاپ ہوا ہے کہ بھارت ماتا کو تقسیم کیا گیا۔خود کو ایک رب کی مخلوق سمجھنے والی مسلمان قوم اپنے نئے بننے والی مملکتِ خدادِ پاکستان کو متفقہ آئین دینے کے لیے نو برس گزار گئی اِس دوران پلوں سے بہت سا پانی گزر چکا تھا قائد اعظم ؒکی وفات اور خان لیاقت علی خان کی شہادت نے قوم کو اِس طرح بے آسرا کردیا کہ قوم میر جعفروں اور میر صادقوں کے ہاتھوں یرغمال بنتی چلی گئی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ایوب خان کی شکل میں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے ملک کے عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے لاٹھی گولی کا سہارا لیا۔اِس طرح ملک میں یہ سوچ پروان چڑھتی چلی گئی کہ فوجی حکمران وطن کے ساتھ سیاستدانوں کی نسبت زیادہ وفادار ہیں۔ یوں وطن کو ا سلامی اصولوں پر چلانے کی بجائے فوجی اصولوں پر چلایا گیا سانحہ مشرقی پاکستان کا رونماء ہونا پاکستان کی انتہائی بدقسمتی تھی اور یہ سانحہ فوجی حکومت کے دوران رونماء ہوا۔اور مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کے زخم آج بھی اتنے ہرئے ہیں کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم ہر اُس شخص کو پھانسی لگانے کے درپے ہے جس نے سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت پاکستان کی حمایت کی ۔ دو قومی نظرئیے کو پامال کرنے کے لیے اسرائیل بھارت اور روس کے گٹھ جوڑ نے پاکستان سے ایک حصہ علیحدہ کردیا اور ہم نے نالائق طالب علموں کی طرح ہر بار امتحان میں فیل ہونے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ روس نے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے افغانستان کو میدان جنگ بناڈالا اور امریکہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کو ہوا دینے کے لیے افغانستان میں روس کو شکست دینے کے لیے آنکلا۔ یوں پاکستان پر امریکی ڈالروں کی ایسی بارش ہوئی کہ فوجی حکمرانی جو کہ ضیاء کے زیرِ قیادت تھی گیارہ سال تک حکومت میں رہی ۔پھر نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں قوم کا مورال بلند ہونا شروع ہوا ہی تھا کہ جنرل مشرف بھی تارئیخ میں اپنا نام لکھوانے کے لیے بے چین ہو گے اور اُنھوں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا۔ابھی ایک برق بیچارئے پاکستان پر گرنا باقی تھی کہ نائن الیون کا واقعہ کیا ہوا پاکستان کی بدقسمتی کا آغاز ہو گیا اور امریکہ نے پاکستان میں دہشت گردی کی آڑمیں خیبر پختون خواہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔مشرف نے امریکی فوج کو فوجی اڈے دے دئیے اور ہر طرح کی لاجسٹک سپورٹ کا انتظام بھی کردیا۔ پاکستان کو کھربوں ڈالر کا نقصان اِس جنگ میں ہوا ہے اور قیمتی جانوں کا نقصان بے حساب ہے۔اب ملک میں دہشت گردی کے ساتھ نمٹنے کے لیے آپریشن عضب جاری ہے۔ امریکہ افغانستان کو خدا حافظ کہنے والا ہے ۔پاکستان کی معاشی وسماجی حالت انتہائی بُری ہے۔ سماجی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ ملک میں یکجہتی نام کی کوئی چیز نہیں بے لگام میڈیا نے عوام کو عجیب نفسیاتی کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سرکاری سکولوں کا میعار ختم، ہسپتالوں میں ڈاکٹر قصاب کا روپ دھارئے ہوئے ہیں۔ انصاف کا جنازہ نکل چُکا ہے۔گُڈ گورنس نام صرف حکومتی دعووں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔معاشیات میں ایک تھیوری ہے جس کو غربت کا منحوس چکر کہا جاتا ہے اُس چکر کے مطابق غریب اتنا پھنس جاتا ہے کہ وہ غربت کے گرداب سے نکل نہیں پاتا ہماری قوم بھی اِسی طرح کے منحوس دائرے میں پھنس چکی ہے اور یہ منحوس دائرہ اشرافیہ نے بنا رکھا ہے ۔ اب جب یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ لوگ جھوٹ کیوں لو گ بولتے ہیں چوری کیوں کرتے ہیں یہ سب کچھ حکمران تو نہیں کہتے کہ کرو۔اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے جب ماحول ہی ایسا تخلیق کر ڈالا ہے تو پھر سچ اور جھوٹ میں فرق روا رکھنے کا علمبردار کون ہوگا۔جب رہنماء راہزن کا روپ دھار چکے ہیں تو خیر کہاں سے آئی گی۔بقول اقبالؒ چوں بنام مصطفیٰ خوانم درود ازخجالت آب میگردد وجود (مسافر مثنوی) یعنی جب میں نبی پاک ﷺ کی ذات والا صفات پر درود بھیجتا ہوں تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے مزید فرماتے ہیں کہ، عشق می گوید کی اے محکوم غیر، سینہ تواز بتاں مانند دیر یعنی کہ عشق کہتا ہے کہ او غیر کے محکوم: تیرا سینہ تو بتوں کی وجہ سے بت خانہ بنا ہوا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اعمال کچھ ہیں افعال اور طرح کے ہیں جو اقوال کی تصدیق نہیں کرتے۔قوم کو ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو کہ قوم کو ذہنی پستی سے نکا لے اور خودار قوم بنائے۔ لیکن بقول اقبالؒ پہلے مسلمان تو بن جائیں غیر کے محکوم نہ بنیں،مسلمانی کی ابتدائی تعریف پر پورا اُترنے کی ضرورت ہے باقی کام تو بعد کے ہیں جیسے بقول اقبالؒ کہ تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں۔پہلے توحید کو تو اپنے اندر وارد تو کرلیں جب تک ہم مکمل طور پر رب کو ماننے والے نہیں بنیں گئے تب تک ہم رسوا ہوتے رہیں گئے۔ہے جُرمِ ضیفی کی سزا مرگِ مفاجات ۔ سقوط ڈھاکہ چیخ چیخ کر ہمیں دعوت ِ فکر دے رہا ہے۔ ملک کے دانشوروں، سیاستدانوں اور فوج کو ایک مضبوط حکمتِ عملی اختیا رکرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دُشمن بھارت امن کی آشا سے ہمیں تو بہلا رہا ہے خود نہیں بہلے گا اور بھیڑئیے کی طرح گھات لگائے ہوئے ہے اور وہ بھارت ماتا کو تقسیم کا پاپ کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرئے گا ۔بھار کا چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے پاکستان نے کرتار پور کا بارڈر کھول کر بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات سنبھل نہیں پا رہے ۔ عمران خان کی حکومت ملک کو پچھلے تین ماہ سے معاشی طور پر مستحکم نہیں کر پائی۔ پاکستان میں اِس وقت پھر سے بے یقینی ہے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381990 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More