متوقع گرفتاری اور دم پر پاؤں رکھنے سے واویلا

تحریر:ابن نیاز
’’کراچی جرگے کے ایک عہدیدار کے مطابق اگر نقیب اﷲ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا تو آج منظور پشتین کو کوئی جانتا بھی نہیں۔ بدقسمتی سے صرف ایک پولیس افسر کو بچانے کے لیے پشتون تحفظ موومنٹ جیسی ریاست مخالف تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع دے دیا گیا۔ آج ملک کو اس فتنے کا شدت سے سامنا ہے۔منظور پشتین نے 2014ء میں محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے تنظیم بنائی تھی۔ لیکن اس کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ تاہم منظور پشتین اس وقت خبروں میں آیا جب رواں برس نقیب اﷲ محسود کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا۔ جس کے بعد اس نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر پشتون تحفظ موومنٹ رکھ لیا۔ نقیب اﷲ کے لیے انصاف کے حصول کی تحریک دراصل سہراب گوٹھ کراچی سے شروع کی گئی تھی۔ جس میں محسود اور دیگر قبائل کے مشران شامل تھے۔ تاہم اس تحریک کو اسلام آباد دھرنے کے دوران منظور پشتین نے ہائی جیک کر لیا، اور اب اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے‘‘۔
مندرجہ بالا پیرا گراف ایک اخبار کی خبر کا حصہ ہے۔ مقصد صرف منظور پشتین کا تعارف کرانا تھا۔ منظور پشتین نے جب جب جہاں جہاں جلسہ کیا ، ہر جلسے میں اس نے بظاہر تو پشتون کے تحفظ کے لیے بات کی۔ لیکن اس کے شروع کی تقاریر میں کچھ الفاظ، کچھ جملوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اندر ہی اندر کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ میری موجودگی میں اگر کبھی کسی محفل میں منظور پشتین کا ذکر آیا تو میں نے وہاں برملا کہا کہ بہت جلد اس کی اصلیت سامنے آئے گی ۔ یہ فی الحال تو پشتون کے تحفظ کی بات کر رہا ہے لیکن عنقریب اس کے اندر کا غبار باہر آئے گا یا پھر یہ اپنے آقاؤں کی زبان بولنے لگے گااور وہی ہوا۔ منظور پشتین نے پہلے وزیرستان میں پاک فوج کے خلاف لغویات شروع کردیں۔ جب کہ وہ جانتا بھی تھا کہ وزیرستان میں دنیا بھر کے دہشت گرد بھرے ہوئے ہیں اور ان کو پناہ دینے والے بھی بیرونی دنیا سے لفافے بٹورتے رہتے ہیں۔

ان کو پناہ گاہیں دیتے ہیں، ہر قسم کے اسلحے تک ان کی رسائی کراتے ہیں۔ توپاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو کہ کراچی تا خیبر اور چمن تا لاہور ہر شہر میں بچوں، بوڑھوں ، خواتین میں فرق کیے بغیر خون کی ندیاں بہاتے ہیں، ان ناسوروں کو جڑ سے اکھاڑنا کیا برا ہے۔ یقینا پاک فوج نے یہی کیااور نیشنل ایکشن پلان کے تحت بھرپور ایکشن لیا۔ جہاں پہلے ہفتے میں ایک دھماکہ ہوتا تھا، اب اﷲ کے فضل و کرم سے ان برے حالات میں اسی فیصد تک کمی آئی ہے۔ اب وہ دہشت گرد کم از کم وزیرستان سے نکل کر واپس اپنے آقاؤں کے ٹھکانے پر پہنچ گئے ہیں۔ منظور پشتین اور اس کے آقاؤں کو دکھ اسی بات کا ہے کہ اب انھیں پاکستان میں تخریب کرنے کے لیے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔

منظور پشتین کے مطالبات بڑھتے گئے۔ چونکہ پاک فوج نے وزیرستان سے مکمل طور پر دہشت گردی کے خاتمے کا اعلان کیا ہوا تھا تو وہاں مختلف مقامات پر چیک پوسٹس اور مضافات میں جہاں سے دہشت گردوں کی آمد ورفت ہوتی تھی، وہاں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں۔ منظور پشتین نے چیک پوسٹس اور یہ سرنگیں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ صرف پاکستان میں امن کی خاطر یہ مطالبہ بھی منظور کر لیا گیا۔ لیکن منظور پشتین اپنی اوقات سے باہر ہی رہا۔ ایک یونیورسٹی کا طالب علم جب پاکستان مخالف بیان دینا شروع کرے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو بیرونی آقاؤں کی آشیرباد لازمی ہے۔ چند دن پہلے وانا میں ایک مظاہرہ ہوا جس میں ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے نے ریاستی اداروں کے خلاف وہ مغلظات اپنی ناپاک زبان سے نکالیں کہ پچھلے کسی بھی غدار کی تقاریر کے شاید سارے ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ چاہے وہ الطاف حسین کے الفاظ ہوں یا اچکزئی کے۔ تب تک تو منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے خلاف حکومت وقت نے کوئی ایکشن بھی نہ لینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔لیکن ان کو یہ تنبیہ بھی ضرور کی ہوئی تھی کہ وہ ریڈ لائن عبور نہ کریں۔ لیکن اس تقریر نے ساری سرخ حدیں پار کرا دیں۔

اب قانون کے مطابق حکومت مجبور ہو گئی ہے کہ وہ پی ٹی ایم کے خلاف کوئی ایکشن لے۔ یقینا پی ٹی ایم کے بڑے بڑے عہدیدار گرفتار ہوں گے ۔ منظور پشتین کی گرفتاری بھی غیر متوقع نہیں۔ جب منظور پشتین یا دیگر عہدیدار یا دونوں گرفتار ہوں گے تو ان کے آقاؤں کو آگ لگے گی۔ پی ٹی ایم کا ایک اور ایجنڈا لاپتہ افراد کے بارے میں عوام میں شعور پیدا کرنا تھا کہ جو جو افراد لاپتہ ہوئے ہیں ان کو بازیاب کرایا جائے۔ یہاں یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ شاید ایک آدھ فیصد کوئی فرد بے گناہ پکڑا گیا ہو (وہ بھی ممکن نہیں) باقی سب کے سب کسی نہ کیس لحاظ سے پاکستان میں یا تو تخریب کار عناصر کے سہولت کار تھے اور ہیں یا پھر براہ راست ’’را‘‘ ، ’’موساد‘‘ وغیرہ کے ایجنٹ ہیں۔ان کو گرفتار بھی پلک جھپکنے میں نہیں کیا گیا۔ باقاعدہ ان کے خلاف ملنے والی خبر کی تحقیق کی گئی۔

جب ہر لحاظ سے دیکھا گیا کہ ثبوت مکمل ہیں اور اب اگر ان ایجنٹس کو، ان افراد کو کھلا چھوڑا گیا تو وہ کوئی نہ کوئی گھٹیا گل کھلائیں گے تو ان پر ہاتھ ڈالا گیا۔ جن پر صرف شک تھا ان کو تو ہفتہ دس دنوں میں ہی چھوڑ دیا گیا۔ اب ہوا یہ کہ جب ہندوستان اور اسرائیل کے راستے بند ہونے لگے تو انھوں نے مسنگ پرسنز کا شوشا چھوڑا۔ اس شوشے کو شہہ دینے کے لیے انھوں نے منظور پشتین اور اس جیسے دیگر افراد کو آگے کیا۔ درحقیقت ان افراد کو جب اٹھایا گیا تو گویا ہندوستان اور اسرائیل کی دم پر پاؤں رکھ دیا گیا۔اب بھی یہی ہونے والا ہے۔ پہلے تو صرف دم پر پاؤں رکھا گیا تھا۔ اب منظور پشتین یا اس کے حواریوں کو گرفتار کرنے کی وجہ سے نہ صرف ان دو ممالک بلکہ اور بھی بہت سے ممالک جو ظاہری یا خفیہ طور پر ان کا ساتھ دیتے ہیں یا انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، ان کو بھی مرچیں لگیں گی اور خوب لگیں گی۔ پھر یہ سوال جائز ہو جائے گا کہ مرچیں منہ کے علاوہ اور کہاں لگتی ہیں۔ یہ پی ٹی ایم تو عنقریب بی ایل ایف سے بھی ہاتھ ملانے والی تھی۔ وہ بی ایل ایف جو بلوچستان میں تخریب کاری کرنے میں سب سے آگے ہے۔

بندہ پوچھے کہ جب تمھارے اپنے ملک میں اصل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انڈین مقبوضہ کشمیر میں یہ خلاف ورزی ہوتی ہے، فلسطین میں ہوتی ہے تو اس وقت تم کیا گدھے بیچ کر سو رہے ہوتے ہو؟ خود میاں فصیحت دیگر را نصیحت۔ اپنے گریبا ن میں بھی بندہ جھانک لیتا ہے۔ لیکن بزعم خود یہ نام نہاد سپر پاورز کیوں ایسا کام کریں۔ ان کا تو کام ہی کسی ملک میں امن قائم نہ رہنے دینا ہے۔ کیونکہ اسی وجہ سے تو ان کی دکان چلتی ہے۔ تو انھوں نے یہ دکان چلانی ہے۔ آج پی ٹی ایم کو لگام ڈالی جائے گی تو اس کا متبادل انھوں نے یقینا رکھ چھوڑا ہوگا۔ بہت جلد ہمیں کوئی اور پارٹی نظر آئے گی جو اس طرح کے نعرے بلند کرتی پھرے گی۔اﷲ پاکستان کی اندرونی و بیرونی دشمنوں سے حفاظت کرے، آمین۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.