تعلیم و تربیت اور ہمارا مستقبل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم نے گزشتہ کالم میں امریکی و مغربی نظامِ تعلیم کے نتیجے میں دنیا میں ہونے والے مظالم کی نشاندہی کی تھی، ہم نے عرض کیا تھا کہ پرانے عہد میں جھانکنے کے بجائے اپنے دور میں ہی امریکی و مغربی سوچ، سماج اور نظام تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، اس مناسبت سےہم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی وائٹ ہاوس میں کی جانے والی اس تقریر کا حوالہ بھی دیا تھا جس میں انہوں نے صلیبی جنگ (crusade) کا لفظ بھی استعمال کیا تھا۔ہم نے عرض کیا تھا کہ امریکی و مغربی جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے ، فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب ،فحش فلموں، اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی ، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان ، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔اس کے لئے ہم نے کشمیر، فلسطین، ہیروشیما، ناگا ساکی، فلوجہ، بوسنیا وغیرہ کی مثالیں بھی پیش کی تھیں۔

ہمارا مدعا یہ تھا کہ جب تعلیم کامقصد پیسے کمانا اور مفاد حاصل کرنا ہو تو انسان جتنا تعلیم یافتہ ہوتا جاتا ہے، اسی قدر دوسرے انسانوں کے لئےمہلک اور خطرناک ہو جاتا ہے۔ حتی کہ ایک انسان علم حاصل کر کے ڈاکٹر بنتا ہے اور ڈاکٹر بننے کے بعد پیسے اور مفاد کی خاطر ایک مریض کو بے ہوش کر کے اس کا گردہ نکال کر بیچ دیتا ہے، یا مریض کے دل میں جعلی سٹنٹ ڈالتا ہے یہ در اصل اس کی تعلیم و تربیت کانتیجہ ہے۔اس تعلیم و تربیت نے اسے پڑھنا لکھنا تو سکھا دیا ، اسے جدید ٹیکنالوجی سے بھی لیس کر دیا لیکن اس کے اندر کی انسانیت اور انسانی شعور کو کچل دیا ۔

یہ واقعات ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اورمورخ وہ ہے جو واقعات کو انتہائی سادگی سے بیان کرنے میں کامیاب ہوجائے جبکہ تجزیہ کاروہ ہے جوان سادہ سے واقعات کی کڑیاںمنطقی طور پر آپس میں ملا کر استدلال کرتا ہےاور کسی نتیجے تک پہنچتا ہے۔ ہمارے دور کا مورخ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ہم نےبخوشی اپنی نئی نسل کو امریکی و مغربی نظامِ تعلیم اور معاشرے کی گود میں ڈال دیاہے۔

یہاں سے ایک تجزیہ کارباآسانی یہ تجزیہ کرسکتا ہے کہ افراد اور معاشرہ باہم لازم و ملزوم ہیں،اگر کہیں پر افراد غریب ہونگے تو وہاں کا معاشرہ بھی غریب ہوگا،اگرافراد ان پڑھ ہونگے تو معاشرہ بھی ان پڑھ ہوگا، اگرافرادامریکی و مغربی تعلیم وتربیت کے عاشق و دلدادہ ہونگے تو وہ معاشرہ بھی امریکی و مغربی تعلیم و تربیت کا عاشق اور دلدادہ ہوگا۔یاد رہے کہ انسان کی تعلیم و تربیت میں دوچیزیں بنیادی کرداراداکرتی ہیں: زبان اور ماحول

ہمارے معاشرے کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کے بچوں کو انگلش زبان و ماحول میں تعلیم ملے تاکہ کل کو وہ اچھی ڈگری، خوب درآمداور بے تحاشا منافع کما سکیں۔اس زبان اور ماحول کا ایک چھوٹا سا نتیجہ مالی کرپشن کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیوں کی وضع قطع جیسے لڑکے اور لڑکوں کی چال ڈھال جیسی لڑکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں،ساتھ ساتھ فحاشی،بے حیائی اور جنسی بےراہروی بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔

خوب درآمداور کمائی کی ہوس کا سلسلہ ہمارے سکولوں سے شروع ہوتا ہےاور تھانے و کچہریوں سے ہوتا ہوا منی لانڈرنگ اور طرح طرح کی لوٹ مارکی شکل اختیار کر لیتاہے۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں رہنے والے افراد اپنے معاشرےکوکسی بھی دوسرے معاشرےسےقریب یانزدیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرےنےاپناسارازور امریکی و مغربی معاشرےسے نزدیک ہونےاورعہدنبوی ﷺنیز سلف صالحین سےدورہونے میں لگارکھاہے۔ہم تعلیم وتربیت کے لحاظ سے جس قدرعہد نبویﷺ سےدورہوتے جا رہے ہیں اسی قدرامریکی و مغربی دنیا کے بچھائے ہوئے جال میں پھنستے جا رہے ہیں اورپھر ساتھ ساتھ یہ شکوہ بھی کر رہے ہیں کہ برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر۔جب مسلمانوں نے اپنی تعلیم و تربیت کا مقصد اللہ تعالی اوراس کے رسولﷺکے قرب اوررضاکے بجائے، کفارکی طرح مال و دولت کی جمع آوری بنا لیا ہےتو پھر برق تو گرنی ہی ہے۔

اگر تعلیم و تربیت کا مقصد روزگار کا حصول اور آمدن میں اضافہ ہو تو اس کی خاطر دی جانے والی تعلیم اس تعلیم سے قطعا مختلف ہوگی جس کا مقصد روزگاراورآمدن کے حصول کے بجائے روزگار اور آمدن کے ذریعےخداکو خوش کرنا ہے۔

اسلامی نظام تعلیم سے مراد ایک ایسا نظامِ تعلیم ہےجو دنیاوی اسباب کو استعمال کرکے انسان کو قربِ الٰہی حاصل کرنا سکھاتا ہے۔دنیا وی اسباب سے ہمای مراد تمام مادی وسائل، قدیم و جدید علوم اور ماڈرن ٹیکنالوجی ہے۔ہمارے نزدیک تعلیم ، تعلیمی سند یا تعلیمی ادارہ خود کوئی مقصد نہیں ہےبلکہ ایک مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔

یہ اصل میں دوطرح کے نظام تعلیم و تربیت کا فرق ہے کہ جہاں ایک طرف تو ایک پڑھا لکھا، ڈگری ہولڈر، تعلیم یافتہ، سند یافتہ اور ماہر ڈاکٹر اپنی آمدن کی خاطر ایک مریض کو بے ہوش کر کے، اس کا گردہ نکال کر بیچ دیتا ہے اور دوسری طرف ایک آدمی ، اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا گردہ کسی مرتے ہوئے آدمی کو دے کر اس کی جان بچا لیتا ہے۔ جب نظامِ تعلیم و تربیت تبدیل ہوجاتاہے تو تربیت پانےوالوں کے اہداف بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔

کیا آج ہم نہیں دیکھتے کہ ہمارے دور کا طالبعلم اور مسلمان ، اسلامی مسائل اوراسلامی دنیا کے حالات سے یا تو لاتعلق نظرآتاہےاور یا پھرشدت پسند بن کر ابھرتا ہے۔

یہ دونوں طرح کے طالبعلم غلط نظام تعلیم وتربیت کےپروردہ ہیں۔ہمیں بحیثیت مسلمان کسی بھی نظام تعلیم و تربیت پر اعتماد کرنے سے پہلے اس نظام کے اختراع کرنے والے فرد یا گروہ کوقریب سے دیکھنا چاہیے کہ یہ لوگ خود علم التعلیم اور دینی و جدید علوم کے لحاظ سے کتنے ماہراور تجربہ کار ہیں اور انہوں نے خود کس زبان، ماحول اور معاشرے میں تعلیم حاصل کی ہے!؟

جنہیں خود علم التعلیم سے آگاہی نہیں، یا جدید تعلیم سے آشنائی نہیں اور یا دینی تعلیم سے نابلدہیں اوریا پھردوسری طرف مکمل انگلش زبان و ماحول کے رسیا ہیں ، اپنی نئی نسل کوایسے لوگوں کےسپرد کرنے کا نتیجہ یہی افراط و تفریط کی صورت میں نکلناہے جو آج ہمارے سامنےہے۔

ہمارے مسائل کا حل ایک ایسے نظامِ تعلیم میں ہے جس کے اختراع کرنے والے علم التعلیم، جدید علوم اور دینی تعلیم یعنی ان تینوں چیزوں میں ماہر ہوں اور ان کا مقصدمال و زر بٹورنےکے بجائے،قربِ خداوندی، انسانیت کی خدمت،مظلومین کی حمایت اوردوسروں کے ساتھ رواداری ہو۔

جس دن ہم نےاپنےمعاشرے کو امریکی و مغربی نطام تعلیم کے متبادل کےطورپر حقیقی معنوں میں مدنی و نبوی ﷺ نظام تعلیم وتربیت دےدیا اس روزکشمیر سےلےکرفلسطین تک ہمارےمسائل کی گرہیں کھلنی شروع ہو جائیں گی۔قوموں کامستقبل ان کے جوان سنوارتے ہیں اگر ہم نےاپنےجوانوں کوامریکہ و مغرب کی آغوش سے نکال کر اسلام کی آغوش میں جدید تعلیم و تربیت دینے کا انتظام کر لیا تو پھر یہیں سے ہمارا مستقبل سنورناشروع ہوجائے گا۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64531 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.