انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ
سےانسان کے بس میں بہت کچھ ہوتا ہے.وہ دریاوں میں راستہ بنانے سے لے
کراسمان پر کمندیں ڈالنے تک کہیں بھی بے بس نظر نہیں ٓاتا؛اللہ تعلی نے
انسان کو بے حساب خوبییاں اور ان گنت صلاحیتیں دی ہیں جن کو استعمال کر کے
دنیا میں انسان ترقی کی منازل طے کرتا جاتا ہے -
مگر ٓاج کا انسان اتنی ترقی کرنے کے باوجود اخلاقی طور پر اتنا کمزور ہو
چکا ہے کہ اسے اخلاقیات کے کونسےدرجے پر شمار کیا جاےسمجھ سے بالاتر ہے .
یہ بات ھمارے لئے کسی سبق سے کم نہیں ہے کہ انسان جتنا اونچائ کی طرف جاے
گا اس کا وزن کم ہوتا جاے گا لیکن ہم جتنی زیادہ ترقی کرتے جارہے ہیں ھمارا
وزن بڑہتا جا رہا ہے .چال میں اکڑ اور دماغ میں غرور انکھ میں حیا کی کمی
ہو تی جا رہی ہے . ہم اپنے علاوہ دوسرں کو صرف لوگ سمجھتے ہیں انسان نہیں .
ہمدردی انسانیت اخلاص برداشت جیسے الفاظ ہمارے معاشرے سے ناپید ہو رہے ہیں
.
اپنی قسمت خود بنانے والا انسان اپنی ہی شخصیت کے اگے کتنا بے بس اور مجبور
ہے کتنا خود نما اور کتنا خود پسند ہےکہ گاڑی چلاتے وقت وہ کسی دوسری گاڑی
سے ٓاگے نکلنے کے لیے پیدل چلنے والوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روند کر نکل
جاتا ہے .دوکان دار سے سودا لیتے وقت بحث کرتےکرتے گالی گلوچ اور پھر ہاتھا
پائی پر اترنا معمول بن گیا ہے . سکول میں ایک استاد کب ایک شاگرد کی کھال
اتار کر رکھ دےکچھ پتہ نہیں .گھر میں کام کرنے والی ایک معصوم و مجبور بچی
یا عورت کی عزت کب تار تار کر دی جاے یا پھر کب مار مار کر اسے زندگی بھر
کے لیے معزور کر دیا جایے اس بارے کیا کہا جا سکتا ہے.
گلی محلے میں ہونے والی لڑایاں کب دو چار گھروں کے اکلوتے سہارے چھین لیں .
کچھ کبھی کہنا بعید از قیاس ہے .یا پھر گلی میں کھیل رہے بچوں پر کون اپنی
ہوس زدہ نظریں گاڑے کھڑا ہے کیا پتہ؟ یہ تو چند ایک مثا لیں ہیں ا یسی
ہزاروں کہانیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہویی ہیں . بہت سی ایسی مجبوریاں
ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہوتیں ہیں اور وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں جو ان
مجبوریوں کا فایدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں .
ظاہر کی انکھ سے کسی رند کو نا دیکھ
نجانے اس کریم کی نظر میں تو ہے کہ وہ عظیم
برداشت اور بردباری ختم ہونے کا یہ عالم ہے کہ عدالت میں جیسے ہی کسی کیس
کا فیصلہ سنایا جاتا ہے فریقین تو بعد کی بات ہے اسی وقت وکلٰاپس میں گتھم
گھتا ہو جاتے ہیں اور اس قسم جھگڑے بڑھ کر لمبی دشمنیوں کی شکل اختیار کر
لیتے ہیں .ایک کیس کا فیصلہ ہوتا نہیں دس اور کیس بن جاتے ہیں .ہماری مساجد
سے لے کر یونیورسٹیز تک ایوانوں سے عدالتوں تک کھیل کے میدانوں سے لے کر
گلیوں بازاروں تک کوی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں کی مثال دے کر ہم بول سکیں
یہاں اخلاقیات کی پاسداری اور تحفظ کا احساس ہو تا ہے .
اخلاقی طور پر کمزور ہونے اور انسان کو انسان نا سمجھنے کی سب سے بڑی وجہ
مذہب سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے نا ٓاشنای ہے .اسلام بردباری اور
رواداری کا درس دیتا ہے مساوات کا درس دیتا ہے.ہمارے نبیﷺ کی زندگی عمل کے
لیے ایک بہترین نمونہ ہے .ایک کامیاب زندگی کا راز ان کی تعلیمات میں چھپا
ہے .مگر ٓاج ہمارا آئیڈیل نبی پاک ﷺ کی ذات کی بجائے فلمی ستارے ہیں. ہمیں
سادگی میں پسماندگی دکھای دیتی ہے. ہماری تعلیم اخلاق سنوارنے کی بجایے
اخلاقی بگاڑ کا سبب بن رہی ہے.بے حیائی کو جدیدیت کا نام مل گیا ہے .سمجھوتہ
کرنا کمزوری گردان لیا گیا ہے اور جھک جانا بذدلی مانا گیا ہے .مگر یہ سب
دنیاوی حد تک ہی ہے وہ جسے چاہتا ہے ْہدایت سے بھی نواز دیتا ہے .اگر ہم سب
دوسروں کی اصلاح کرنے کی بجایے صرف اپنی ہی اصلاح کر لیں کوشش کر کے اپنا
قبلہ درست کر لیں اور بارش کا پہلا قطرہ بنیں تو کم سے کم ہم اپنے اپ کو
اور اپنے ٓاس پاس کو بہت سی انہونی مشکلات سے نکال سکتے ہیں . |