انسان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جن معاملات
سے واسطہ پڑتا ہے، ان میں ایک انتہائی اہم معاملہ ’’فیصلہ سازی ‘‘ ہے ۔ ہر
انسان کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب اس کوکسی بھی درجہ
میں’’فیصلہ ‘‘ کرناپڑرہا ہوتا ہے ، ’’فیصلہ سازی ‘‘ کے ان مواقع میں ’’درست
فیصلہ ‘‘ کا انتخاب انتہائی ضروری ہوتا ہے اور یہی ہر انسان کی خواہش بھی
ہوتی ہے کیونکہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے ، مستقبل میں اچھے یا برے نتیجہ کا
انحصار اسی پر ہوتا ہے ۔ پھر انفرادی زندگی کے مقابلہ میں اجتماعی زندگی
اور معاملات میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ،کیونکہ انفرادی
معاملہ میں ’’درست فیصلہ‘‘ نہ کرنے کا نقصان فرد واحد تک محدود رہتا ہے
لیکن اجتماعی معاملات میں اس کا نقصان بھی اجتماعی ہوتا ہے اور اس سے متاثر
ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔اس لیے کسی بھی اجتماعی سطح پرفیصلہ
کرنے والے انسان میں ’’درست فیصلہ‘‘ کرنے کی صلاحیت کا ہونا انتہائی ضروری
ہے۔
انسان کو زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے جس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا
ہو توسب سے پہلے متعلقہ مسئلہ میں اس نکتہ کی تشخیص کی جائے جس کے بارے میں
فیصلہ کرنا ہے ۔تشخیص کے بعد اس کے بارے میں فیصلہ کے لیے جتنے آپشن ہیں،ان
سب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے تمام مثبت اور منفی پہلووں،فوائد اور نقصانات
پر مکمل سکون و اطمینان کے ساتھ غوروفکر کیا جائے ۔اس سلسلے میں محض اپنی
ذاتی عقل و دانش پر اکتفا کرنے کے بجائے متعلقہ مسئلہ کی سمجھ بوجھ رکھنے
والے صاحب رائے لوگوں سے مشورہ اور اﷲ تعالی سے استخارہ بھی کیا جائے ۔مذکورہ
سب کام کرنے کے بعد جس جانب دل مطمئن ہوجائے ،اﷲ تعالی کی ذات پر توکل اور
بھروسہ کرتے ہوئے بلا خوف وتردد ہی فیصلہ کرلیا جائے ،ان شاء اﷲ اسی میں
بہتری ہوگی ۔
مشورہ اور استخارہ کرنا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک مسنون عمل ہے جو
اس فیصلہ میں خیر اور برکت کا باعث ہوتا ہے۔ اﷲ تعالی نے اپنے حبیب محمدصلی
اﷲ علیہ وسلم کو بھی قرآن پاک میں صحابہ کرام سے مشورہ کرکے اﷲ تعالی کی
ذات پر توکل کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ،’’
جو شخص استخارہ کرتا ہے وہ نامراد نہیں ہوتا اور جو مشورہ کرتا ہے وہ
پشیمان نہیں ہوتا ہے‘‘ ۔اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دونوں عمل
کرلینا بہتر ہے ۔
انسان کو فیصلہ سازی کے وقت بسا اوقات مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ’’درست
فیصلہ ‘‘ کرنے میں مخالفت کا سامناکرنا پڑرہا ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں ’’
درست فیصلہ‘‘اور اس کے مقابلہ میں’’مقبول فیصلہ‘‘ جس میں مخالفت کا سامنا
نہیں ہوتا ہے ، ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو بے شک
مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ’’ درست فیصلہ‘‘ ظاہری اور وقتی طور پرناگوار ہوتا ہے
لیکن حقیقت میں مستقبل کے لحاظ سے وہ بہتراور مفید معلوم ہوتا ہے۔ اس کے
مقابلہ میں’’ مقبول فیصلہ‘‘ ایسا نہیں ہوتا ہے ، چنانچہ ان دونوں میں سے
غیر مقبول مگر درست فیصلہ کا انتخاب انسان کے لیے ایک آزمائش کا وقت ہوتا
ہے ۔اب یہ انسان میں موجود فیصلہ کرنے کی قوت اور اعصاب کی مضبوطی پر منحصر
ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے فیصلہ کو ترجیح دیتا ہے۔ جس انسان میں ایسے مواقع
پر وقتی ناگواری اور دباو کو برداشت کرکے درست فیصلہ کے انتخاب کی صلاحیت
موجود ہوروہ اکثر کامیاب رہتا ہے اور مستقبل میں اس کو پشیمانی نہیں ہوتی
ہے اور جس انسان میں ایسے مواقع پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو
اس کو اکثر بعد میں اپنے فیصلہ پر ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سیرت طیبہ میں سے صلح حدیبیہ کا واقعہ اس سلسلہ میں ہمارے لیے عملی نمونہ
بھی موجود ہے ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ عمرہ کی ادائیگی
کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے،راستہ میں حدیبیہ کے
مقام پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓکے ہمراہ قیام کیا،مشرکین
مکہ مسلمانوں کو مکہ آکر عمرہ کی ادائیگی کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں
تھے ۔کافی گفت و شنید کے بعد بالآخر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور مشرکین
مکہ کے درمیان اسی حدیبیہ کے مقام پر ایک معاہدہ ہواجس کوتاریخ اسلامی میں
’’صلح حدیبیہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔صحابہ کرا م تقریبا سب ہی
معاہدہ کے اس فیصلہ سے اس وقت خوش نہیں تھے کیونکہ وہ عمرہ کی ادائیگی سے
بلا وجہ روکے جانے پر پہلے ہی غمگین تھے ۔مستزاد یہ کہ جن شرائط پر یہ
معاہدہ کیا گیا وہ بھی ظاہری اور وقتی لحاظ سے مسلمانوں کے حق میں کمزور
تھیں لیکن یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک ’’درست فیصلہ ‘‘تھا جو
مسلمانوں کے حق میں مستقبل کے لحاظ سے اس قدر مفید اور بہتر تھا کہ اﷲ
تعالی نے اس معاہدہ کوقرآن کریم میں ’’فتح مبین‘‘ سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ
اسلام اس کے بعد تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا اور مسلمانوں کو کئی فتوحات
نصیب ہوئیں۔
غرض یہ کہ انسان کے لیے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں’’ فیصلہ سازی
‘‘ کامرحلہ انتہائی اہم اور حساس ہوتا ہے جس میں ’’درست فیصلہ ‘‘کرنا ضروری
ہوتا ہے۔ انفرادی معاملات کے مقابلہ میں اجتماعی معاملات میں اس کی اہمیت
زیادہ ہوتی ہے ، اس لیے کسی بھی درجہ میں اجتماعی سطح پر فیصلہ کرنے والے
انسان کے لیے اس کا زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے بالخصوس ملک و قوم کی قیادت
کے منصب پر فائز فیصلہ ساز افراد اور اداروں پراس سلسلہ میں زیادہ ذمہ داری
عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کے کسی بھی ایک غلط فیصلہ کے منفی اثرات پورے ملک ا
ور قوم کو جھیلنے پڑتے ہیں اور وہ منفی اثرات بسا اوقات برسوں پر محیط ہوتے
ہیں۔ |