سنا ہے

یہ بات غلط بھی نہیں کہ لوگ چلتی گاڑی پر سواری کرتے ہیں۔ کھڑی گاڑی پر سواری بلاشبہ کھلی حماقت ہے۔ زندگی کے سماجی تعلقات پر بھی یہ ہی کلیہ اپلائی ہوتا ہے۔ جب تک آدمی چلتا پھرتا اور آسودہ حال ہوتا ہے‘ اپنے پرائے ساتھ رہتے ہیں۔ گرہ کا ضعف کب کسی کو اپنا رہنے دیتا ہے۔ اعضائی معذوری بھی تنہائی کا سیلاب لے کر آتی ہے۔ ہاں چار و ناچار قریب رہنے والے‘ اس شخص کے لیے نہیں اس کی گرہ کے بندھن سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر لمحہ ان کے لیے قیامت خیز ہوتا ہے لیکن اس کی گرہ کا بھاری ہونا‘ انہیں اس کے نزدیک رکھتا ہے۔ دوا دارو خاک لا کر دینا ہوتا ہے‘ وہ یہ دیکھنے آتے ہیں کہ بابا یا بابی گیے ہیں یا ابھی ان کے سوچ کا وبال بنے ہوئے ہیں۔ یہ طور نیا نہیں‘ ازل سے زندگی کے ہم رکاب چلا آتا ہے۔
تنور جب تک زندہ تھا‘ زندگی روانی پر تھی۔ اپنے پرائے سلام دعا میں تھے۔ ادھر وہ اگلے جہان کو سدھارا‘ ادھر زیست کا دھارا ہی بدل گیا۔ نائلہ نے جمع پونجی گرہ میں کی اور نیا جہاں آباد کر لیا۔ اس نے اپنے تین سال کے معصوم بچے کی بھی پرواہ نہ کی کہ اس کے بعد اس کا کیا بنے گا حالاں کہ وہ اس سے بڑا پیار کرتی تھی۔ لارڈ لارڈتی تھی۔

گھر میں بوڑھی دادی اماں اور کچھ نہیں کا بسیرا ہو گیا۔ مامے چاچے تائے‘ جو کبھی اس بچے کے صدقے واری جاتے تھے‘ یوں غائب ہو گیے‘ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بوڑھیا کی اپنی اولاد فاقہ کے عالم میں اسے تنہا چھوڑ گئی۔ زندگی تو کرنا ہی تھا۔ اپنے لیے ناسہی‘ اس معصوم بچے کے لیے اسے ہاتھ پاؤں ہلانا ہی تو تھے۔ بےچاری کیا کرتی۔ لوگوں کے برتن مانجنے پر مجبور ہو گئی۔ سارا دن جھڑکیوں میں گزارتی۔ اسے اس معصوم کو نظرانداز کرنا پڑتا۔ جینا تو تھا‘ جینے کے لیے ہاتھ پؤں ہلانا پڑتے ہیں۔ اس کے بغیر اور کوئی رستہ بھی تو نہ تھا۔

وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔ اسی حالت میں دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال گزر گیے۔ دادای کے ہاتھ پاؤں جواب دے گیے۔ مجبوراٰ اس معصوم کو دال پانی کی حصولی کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ پہلے ایک ہوٹل میں کام کرنے لگا۔ شام کو بچا کچا اور چند سکے لے کر گھر کو لوٹتا۔ کچھ دن اوپر ایک سال اس ہوٹل میں رہا پھر سبزی منڈی میں کام کرنے لگا۔ شام کو گھر لوٹتا۔ کچھ دیر آرام کرتا۔ دادی انڈے ابال دیتی۔ رات دیر گیے تک گلیوں میں گرم انڈے کے آوازے لگاتا۔ اس مشقت سے اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ جاتا۔ کیا ہوتا‘ اس کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہ تھا۔

دادی اماں آخر کب تک ساتھ چلتی۔ ہر کسی کو ایک روز جانا ہی تو ہے‘ وہ بھی چلی گئی۔ اماں کے ورثا بیدار ہو گیے۔ گھر اور سامان پر قابض ہو گیے۔ پہلے کی طرح کسی کو اس معصوم کا خیال تک نہ آیا۔ چند دن بعد‘ سر کی چھت بھی چھن گئی۔ اب اسے منڈی میں کھلے آسمان تلے سونا پڑتا۔ کسی نے شرم تک نہ دلائی کہ اس معصوم کو بھی اپنا لو۔ کسی کو یاد تک نہ تھا کہ وہ بھی ہے۔

اللہ تو سب کا ہے‘ وہ کب اپنے بندوں کو اکیلا چھوڑتا ہے۔ آڑھتیا مہربان ہوا اس نے اسے اندر کے کام سونپ دیے۔ روٹی پانی اور چھت مہیا کر دی۔ چھے سال اسی طور سے گزر گیے۔ آڑھتیے نے اس کی مزدوری جمع کر لی تھی۔ اب وہ اپنا کام کرنے کے قابل ہو گیا اس نے اسے الگ سے سودا لگانے کا اڈا مہیا کیا‘ ساتھ میں چھت بھی میسر رکھی۔ ہاں اس صلے میں فراغت کے بعد اس کے گھر کے کام کرنے لگا۔

پیسے والا‘ کسی گریب کو گھر کا فرد نہیں بناتا‘ ہاں البتہ اسے ورکنگ مشین کے طور پر استعمال میں ضرور رکھتا ہے۔ جب اللہ کی نظر عنایت ہو تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔ آڑھتیے نے یہ سوچتے ہوئے کہ غلام کا غلام داماد کا داماد‘ اپنی اکلوتی بیٹی اس کے عقد میں دے دی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی اس کا بھی گھر اور گھر والے ہوں گے۔ اب گھر اور گھر والے تقریبا اس کے ہو گیے تھے۔ اب وہ اس گھر میں رہ رہا تھا ساتھ میں غلامی کا فریضہ بھی انجام دے رہا تھا۔ اس کی بیوی صفیہ اچھی تھی۔ جب گھر کے لوگ کچھ زیادہ ہی کام لیتے تو وہ ان سے لڑ پڑتی۔ یہاں تک کہ ماں کے بھی منہ لگ جاتی۔

وہ منہ پر خاموشی کا تالہ لگائے رکھتا‘ ہاں صفیہ اس زیادتی پر ادھم مچائے رکھتی۔ روز کی چخ چخ سے مجبور ہو کر‘ باپ نے اسے الگ کر دیا۔ سامان کے ساتھ ساتھ ایک مکان‘ جو کرائے پر چڑھا ہوا تھا‘ خالی کرا کر وہاں جا بسی۔ محنتی تھا‘ اللہ نے ضرورت کی ہر شے انہیں میسر کر دی۔ اولاد بھی دی۔ جائداد بھی بنی۔

وقت پھر واپس آ گیا۔ وہ بوڑھا ہو گیا تھا۔ صفیہ چل بسی۔ سب کے ہوتے وہ گھر میں اکیلا تھا۔ ہر کسی کو اس کے مرنے اور کولیوں چھنیوں پر قبضہ جمانے کی فکر لگی ہوئی تھی۔ وہ بڑھاپے میں ایک بار پھر اکیلےپن کی گرفت میں آ گیا۔ ایک بیٹی ہی تھی‘ جسے اس کے کھانے پینے اور بیماری کی فکر لاحق ہوتی۔ آخر کب تک‘ وہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔ سسرال والوں کو بھی بڈھے کی جائداد سے دلچسپی تھی۔ وہ وہاں رہ کر اس کی کیا دیکھ بھال کر سکتی تھی۔

کل کا منا آج کا بڈھا‘ صبح کو گلی میں منتقل کر دیا جاتا‘ رات کو مختصر اور گھر کی ٹٹ پج رکھے کمرے میں لٹا دیا جاتا۔ سارا دن وہ یہ ہی سوچتا یہ زندگی ہے۔ کتنا گھوماتی پھراتی ہے۔ کوئی بھی یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ ایک روز بوسیدہ ہو کر‘ زمین بوس ہو جائے گا۔ اس کا جمع کیا‘ سب یہاں ہی رہ جائے گا۔ آتے وقتوں میں کہ وہ بھی کبھی تھا‘ کسی کو یاد تک نہیں رہے گا۔ اگر کبھی یاد کیا گیا تو اس یاد کو سنا ہے‘ کا نام دیا جائے گا۔ تھوڑا اور وقت گزرنے کے بعد‘ سنا ہے بھی باقی نہ رہے گا۔ مگر کیا کریں‘ انسان اپنے انجام کو بھول جاتا ہے۔ وہ بھی تو آسودگی میسر آنے کے بعد گزرے اور آنے والے کل کو بھول گیا تھا۔

فانی مقصو حسنی
About the Author: فانی مقصو حسنی Read More Articles by فانی مقصو حسنی: 184 Articles with 210981 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.