پیر

ہر لفظ کے اندر کئی داستان چھپی ہوتی ہیں پیر فارسی زبان کالفظ ہے جس کے معنی ہیں بزرگی والا دور قدیم میں انسان کی معاشرت آج سے بہت مختلف تھی ابتدائی دور میں خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرتا ہواترقی کی طرف سفر کرنے لگا و قت کی ضروری تعلیم کے لئے اللہ کے منتخب بندے ان کی اصلاح کے لئے آتے رہے جن کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو معجزے بھی دیکھا تا رہا لیکن یہ معجزے نبی کی حیات طیبہ تک ہی ہوتے چونکہ ہمارے نبی ﷺ آخرزمان ہیں ا س لئے زندہ اور سب سے بڑا معجزہ قر آن پاک دیاگیا یہ ہما ری خوش بختی ہے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا زمہ خود لے کر ہمیں اس کی پیروئی کا حکم دیا اور اس کی سچائی بھی اس طرح بیان کردی ۔ ترجمہ۔:اے پیغمبر ہم نے تجھ پر سچی کتاب (قرآن پاک) اتاری وہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی حفاظت کرتی ہے۔المائدہ ۔۴۸۔چونکہ اس میں زندگی گزارنے کے اصول بتائے گئے جن کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کا جاننا ضروری تھا علمی فقدان کے باعث ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ،اس لئے وہ لوگ جو اس نعمت سے محروم رہ گئے اپنے دینی و دنیاوی مسائل کے حل کے لئے کسی صاحب علم وعقل حکمت ودانش باعمل زاہدبزرگ کے پاس جاکر اپنی تشنگی بجھانے کے لیے رہنمائی حاصل کرتے یہاں سے پیری کا آغاز ہوایہ بزرگ لوگ اپنے قریہ کے لئے بڑے بابرکت ہوتے اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے والے سب کی اصلاح اپنا فریضہ سمجھتے اور ملنے والوں کا اس حد تک احساس ہوتا کہ ان کے بتائے بغیر اندازہ لگا لیتے کہ کون تنگ و مصائب کا شکار ہے پھر اپنی حیثیت کے مطابق ان کی رہنمائی کرتے آدھی تکلیف تو ان کے ہمدرد انہ لہجے سے دور ہو جاتی جب کسی کو احساس ہو جائے کہ کوئی اس کا اپنا ہے جو اس کے دکھ کو سمجھتا ہے تو اس کے اضطراب کی شدت کم ہو جاتی ہے اور اگر وہ کسی بااعتماد تک اپنی بات پہنچادے تو پھر لاشعور میں دھکیلنے کی ضرورت پیش نہیں آتی انتقالیت کے بعد ذہنی طور پر انسان خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتاہے جس سے اسکی جسمانی صحت میں بھی بہتری آتی یہ اللہ کے ولی آج کے دور کے ڈاکٹر بھی ہوتے جج ، میڈیا ، رہنما ، مذہبی سکالر بھی وہ جو بھی ہوتے مثبت ہوتے منفی کوئی پہلو ان کی ذات کا حصہ نا بن پاتا۔ ان کی تعلیم سب کے لئے ایک ہوتی جس کی ابتدا یہ ہوتی کہ تمام مسلمان برابرہیں لٰہذا اپنے بھائی سے صلح و آشتی رکھو ایک دوسرے سے لطف ومہر بانی سے پیش آؤ کسی کی دل شکنی نہ کرووہ چلتے پھرتے تعلیمی تبلیغی اصلاحی ادارے ہوتے نہ ان کو کسی کیمرے کی ضرورت ہوتی نہ اشتہار کا شوق پھر بھی لوگ ان کا نام سن کر شخصیت کو پہچان جاتے ہمیشہ اچھی صحبت میں رہنے کی تلقین کرتے کیوں کہ اسے انسان کی اصلاح ہوتی ہے یہاں ایک واقعہ یاد آجاتا ہے۔،ایک شخص دوران طواف خانہ کعبہ میں دعا مانگ رہا تھا ،اے اللہ میرے بھائیوں کی اصلاح فرما لوگوں نے پوچھا اس مقام پر تم اپنے لئے دعا کیوں نہیں مانگ رہے تو جواب دیا میں چونکہ انہیں کے ساتھ واپس جاؤں گا اگر وہ درست رہے تومیں بھی درست رہوں گا اور اگر وہ خراب راستے پر چل نکلے تومیں بھی ان کے ساتھ خراب ہو جاؤں گا۔کیوں کہ اپنی درستی مصلحین کی درستی پر موقوف ہے لٰہذا میں اپنے بھائیوں کے لئے دعا کرتا ہوں تاکہ میرا مقصود ان سے حاصل ہو،اصل میں وہ جان گیا تھا کہ نفس کی عادت ہے وہ اپنے ساتھیوں سے راحت پاتا ہے جن کی صحبت اختیار کی جائے ان کی خصلت اپنا لیتا ہے ایسی وجہ سے تمام مشائخ سب سے پہلے صحبت کے حقوق کے نہ صرف خواہاں رہتے ہیں بلکہ مریدوں کو بھی اس کی تر غیب دیتے کینہ بغض،حسد ،عداوت،دشمنی سے اجتناب کی نصیحت میں کوتاہی نہ کرتے وہ اپنے وقت کے ادیب مفکر دانشور حکیم سمجھے جاتے ہروقت انہیں مخلوق کی فکر رہتی یہ تھیں ابتدائی دورکے پیر کی خصوصیات جن کی وجہ سے مرید ان کی حکم عدولی کو گناہ سمجھتے بلکہ ایسے کام شوق سے کرتے جن میں انکے پیروں کی خوشی شامل ہوتی تاکہ اللہ کے ولی کی دعادل سے نکلے حق وباطل میں فرق بتانے والے یہ لوگ ہوتے ان کی طریقت پر چلنا باعث فخر سمجھتے بر صغیر میں ان کی وجہ سے اسلام پھیلا اس لئے یہاں بڑی عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتاان کے مرید اس حد تک عاشق ہوتے کہ اپنے ہر مسئلے کا حل پیر سے پوچھتے ۔اب یہ ضروری بھی نہیں کہ ان کی اولاد بھی انہیں جیسی ہو نوع علیہ اسلام کے گھر میں کنیان پیدا ہوسکتا ہے تو پیر کے گھر میں کیوں نہیں بس یہاں سے مریدوں سے غلطی ہوگئی انہوں نے اس کو وراثت سمجھ لیاکسی بزرگ کی اس دنیا فانی سے پردہ پوشی کے بعد اسکی اولاد وں میں سے کسی کو اس کے برابر درجہ دیا جانے لگاوہ جیسے بھی ہوتے ان کو سجادہ نشینی کا تاج پہنا کر پیری سیکھائی جانے لگی اب ضروری نہیں کہ اس کی فطرت اپنے جد امجد جیسی ہواس وجہ سے مثبت کردار کا زوال شروع ہونے لگا ان کی تعلیمات کو بھلاکر مزارات پر دربار بننے لگے میلے ٹھیلے ہونے لگے وہ کام جن سے منع کیا کرتے وہ سب کچھ ہونے لگا اس کو عقیدے کا نام دیا گیا ان کی تصانیف کو نظر انداز کرکے نام سے فائدہ اٹھایا جانے لگایہاں تک کہ اب پیری کا مطلب ہی بدل کے رہ گیا ہے ۔ آج پیر کب اور کہاں نظر آتاہے جب الیکشن کا دور ہو تو سننے میں آتا ہے کہ پیر ووٹ مانگنے آئیں گے اور عقیدت مند اس ڈر سے ان کا حکم نہیں ٹالتے کہ کہیں بد دعا نہ دے دیں آج کے پیر پر اگر لکھا جائے تو ایک کتاب کی کئی جلدیں بنیں اس لئے یہ کہانی پھر سہی ہماری قوم ذہنی طور پر پیر کی عادی ہو چکی تھی لیکن پیرکے پاس اسلام سکھانے کے لیے یا تبلیغ کے لیے اب فرصت نہیں اور مریدکسی اور کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے اس وجہ سے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوکر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ماہر نفسات کے پاس جانے کو یہ تیار نہیں ہمارے معاشرے میں اس کردار کی اشد ضرورت ہے اب ہمیں کوئی متبادل رستہ اختیار کرنا ہے اس کے سوا پستی سے نکلے کا کوئی رستہ نطر نہیں آتا اب پیری سے لو گ اس حد تک بے زار ہو چکے ہیں کہ اس کی تعمیر نوبھی ممکن نہیں اس لئے ہمیں ایک نئے کردا ر کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے وہ کونسل اور کونسلی ہے یہی اس کی جگہ لے سکتا ہے کیونکہ پیر اور مرید کا رشتہ اصل میں یہی رشتہ تھاپیر مریدوں کی کونسلنگ کرتے اوران کو زمانے کی تلخیوں سے بچنے اور اور سامان آخرت جمع کرنے کی ترغیب دیتے ان کے بعد اس سائے کو بڑی شدت سے محسوس کیا جارہا ہے اس ہمدرد کی تلاش ہے محمد حمزہ حا می نے اس کی بڑی خوبصورت تصویر کشی کی
وہ بوڑھا شجر گھر کا جب سے گرا ہے
کڑی دھوپ ہے سائے انجان ہیں اب
میری خشک آنکھوں کے صحرامیں جھانکو
کہ اندر سے یہ کتنی ویران ہیں اب

Kaneez Batool Khokhar
About the Author: Kaneez Batool Khokhar Read More Articles by Kaneez Batool Khokhar: 3 Articles with 1697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.