نوان:قوم اسرائیل کا final solution

قوم اسرائیل کی بدکاریوں ،مکاریوں اور سازشوں کے باعث انیسویں صدی کے آغاز میں ہی جرمنی میں ان کے خلاف نفرت کی شدید لہر موجودتھی ، جسے ہٹلر نے حکومت سنبھالتے ہی بام عروج پہ پہنچادیا۔ حکومت نے یہودیوں کے خلاف اپنا پہلا سوشل بائیکاٹ 1933ءمیں شروع کیا جب اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ یہودی دکانداروں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کے پاس نہ جائیں ۔اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے یہودی طلباء کو بغیر کوئی وجہ بتائے بیدخل کیا جانے لگا، 1935ءمیں یہودیوں کے ساتھ شادی بیاہ کرنا ایک جرم قرار دے دیاگیا ۔1937ء سے کسی بھی یہودی صنعت کار کے کاروبار پہ قبضہ کرلیا جاتا یا اسے بند کرنے پہ مجبور کردیاجاتا۔9جون 1938ءکو میونخ کی سب سے بڑی یہودی عبادت گاہ(synagogue) کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مسمار کرنے کے بعد پورے ملک میں تمام یہودی عبادت گاہوں کو توڑدیا گیا، اسی سال انہیں پاسپورٹ کی سہولت سے محروم کردیاگیا، گرمیوں میں رات نو اور سردیوں میں آٹھ بجے کے بعد کسی یہودی کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ستمبر 1939ءمیں جب ہٹلر نے پولینڈ پہ حملہ کیا تو تیس لاکھ یہودی اس کے رحم وکرم پہ تھے ، انہیں خاص کیمپوں میں منتقل کیاگیا جن کے گرد بڑی مضبوط دیواریں اور سیکیورٹی کے انتہائی سخت اتظامات تھے ۔

1941ءمیں یہودیوں کی مردم شماری کی گئی اور انہیں عام آبادی سے الگ تھلگ محلوں میں منتقل کیاگیاجنہیں" ghetto" کہاجاتا۔ انہیں ذلیل کرنے کے لئے ان پہ پبلک ٹرانسپورٹ اور فون استعمال کرنے پہ پابندی لگادی گئی اور ساتھ ہی احکامات دئیے گئے کہ چھ سال سے اوپر عمر کا ہر یہودی اپنے گلے میں چھ کونوں والا پیلے رنگ کا ڈیوڈ سٹار ضرور پہنے گا اوراپنے محلے سے باہر جانے کے لئے خصوصی پاس بنوائےگا۔

1942ءمیں یہود سے بائیسیکل ، ٹائپ رائٹر اور دیگر برقی آلات بحق سرکار ضبط کرلئےگئے،دکانداروں کو سخت تنبیہ کی گئی کہ ان کے ہاتھ گوشت ، دودھ،مچھلی اور انڈے فروخت نہ کئے جائیں ۔جیسے جیسے ہٹلر یورپ کو فتح کرتاجاتاتھا قوم یہود پہ مشکلات کا اضافہ ہورہاتھا۔ مفتوح علاقوں سے چھان بین کے بعد یہودی پولینڈ کے کیمپوں میں منتقل کئے جارہے تھے۔

20جنوری1942ءکو جرمنی میں ہٹلر نے ایک اہم کانفرنس منعقد کی جس میں یورپ کے 34ممالک میں پھیلے 11ملین یہودیوں کے آخری حل(final solutin)کے بارے فیصلہ کیاگیا۔اس کانفرنس کا متفقہ فیصلہ یورپ کو یہودیوں سے مکمل طور پہ پاک کرنا تھا۔ اس منصوبے پہ عمل کے لئے مشہور زمانہ " ایڈولف ایشمین"کو سربراہ(death minister) بنایاگیا۔( ایشمین کو 31مئی 1962ءکی صبح تل ابیب کی جیل میں پھانسی دی گئی )فرانس ، ہنگری،سلواکیہ،ہالینڈ،ناروے ، یونان اور اٹلی کے لاکھوں یہودی ٹرینوں میں بھر بھر کے پولینڈ لائے جاتے ، جہاں ابتداء میں انہیں جنگلوں میں لے جاکر چھوٹے بڑے کی تمیز کئےبغیرگولیوں سے اڑا دیا جاتا، بعد میں جنگ میں ایمونیشن کی ضرورت کے پیش نظر اسلحہ بچانے کےلئے بڑے بڑے گیس چیمبرز بنائے گئے ۔پولینڈ میں auschwiz کے مقام پر پانچ بڑے گیس چیمبر بنائے گئے ، جن میں بیک وقت پندرہ ہزار افراد ایک وقت میں مارے جاسکتے تھے۔ یہودیوں کو گیس چیمبر میں دھکیلنے سے پہلےتلاشی لےکر انہیں مکمل برہنہ کردیاجاتاتھا، چیمبربندکرکےCyclone-B گیس چھوڑی جاتی جو چند سیکنڈ میں پندرہ ہزار انسانوں کو نگل جاتی، اس کے بعد آتشی بھٹیوں کی باری آتی جہاں مرنے والے یہودیوں کی لاشوں کو چیر کر ان سے چربی حاصل کی جاتی (جسےبعدمیں صابن کی صنعت کےلئےاستعمال کیاجاتا) اس کے بعد انہیں جلاکر راکھ کردیا جاتا ، ایک آتشی بھٹی اوسطا" دن میں 17280لاشوں کو راکھ بناتی جسے بعد میں دریا بردکردیاجاتا۔ہٹلر نے یہودیوں کامکمل صفایا کرنے کےلئےبڑے عجیب و غریب اور دلچسپ طریقے اختیارکئے، جنہیں لکھتے ہوئے قلم بھی کانپ اٹھتا ہے۔ اسرائیلی اعدادوشمار کےمطابق ساٹھ لاکھ یہودی ہٹلر نے قتل کئے۔ بعد میں نازی فوج کی شکست اور اتحادی افواج کی برتری کے باعث یہ سلسلہ رک گیا، نہیں تو یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی تھی۔

" میں نے کچھ یہودی اس لئے چھوڑے کہ دنیا جان سکے کہ ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیوں کیاتھا؟" ہٹلر سے منسوب یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نفرت اور تیاریوں کا اگر بغور مشاہدہ کیاجائے تو وہ مکمل طور پہ اس دنیا سے قوم اسرائیل کا خاتمہ چاہتاتھا۔

ہٹلر باوجود کوشش کے یہود کا آخری حل نہ نکال سکا ، لیکن بہرحال یہ قوم اپنے انجام تک ضرور پہنچے گی، حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مہدی کے ساتھ مل کر اس قوم کا خاتمہ کریں گے،اور احادیث میں آتا ہے کہ" اس وقت اگر کوئی یہودی کسی درخت کی آڑ لے کر بھی چھپاہواہوگاتو وہ درخت بھی مسلمان مجاہد کو اس کا پتہ بتائے گا" ۔تاکہ وہ اس یہودی کا آخری حل (final solution) کرسکے۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.