کٹے ہوئے گلے سے خون کا دھارا تیزی سے بہہ رہا تھا حواس
باختہ باپ کے کپڑے اور ہاتھ ابھی خون سے لت پت تھے پہلی نظر میں یوں ہی
لگتا تھا کہ باپ نے بیٹے کا گلا خود ہی کاٹا ہے ہسپتال پہنچنے تک کافی خون
بہہ چکا تھاباپ کی منت سماجت سے ایمرجنسی وارڈ میں فلمی صفحے میں مگن ڈاکٹر
نے معمول کی کاروائی کے مطابق اشارے سے بچے کو بیڈ پر لیٹنے کا حکم صادر
فرمایا بڑے اطمینان سے تشریف لائے اسٹتھو سکو پ سے سینہ اور ہاتھ سے نبض
ٹٹولی اور مایوسی سے گردن ہلادی عملے نے باپ کو تھانے جانے کا مشورہ دیا
لیکن غم زدہ باپ نے گھر کی راہ لی کہ بچہ اگر وقت پر سکول نہیں پہنچ سکا تو
قبر ستان تو وقت پر پہنچ جائے سکول سے واپسی کا وقت ہو چلا تھا کہ باپ خون
میں لت پت بیٹے کے ساتھ گھر پہنچا ماں دیر تک سکتے کی حالت میں بچے کو
دیکھتی رہی پھر دھڑام سے گر پڑی اڑوس پڑوس سے جلد ہی ایک ہجوم جمع ہو گیا۔
کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔باپ تو بے ہوش ماں کو ہوش لانے کی فکر
میں تھا اس لیے تصویر کے لیے نامہ نگار نے تفصیل بتائی کہ بچہ باپ کے آگے
موٹر سائیکل پر سوار تھا پتنگ کی تنی ہوئی ڈور عین گلے پر آٹھہری موٹر
سائیکل کی رفتار نے اسے چھری بنا دیا بریک لگنے تک بھل بھل کرتا گرم خون
زمین تک پہنچ چکا تھا
َ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں توکسی کو کلام نہیں کہ بسنت نامی ہندوانہ تہوار میں جو پتنگ بازی
طوفا ن بد تمیزی ہے ۔ لاہور کے ایک گستاخ رسولﷺ بت پرست کی اختراع کردہ ایک
منحوس رسم تھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ شہر جو غازی علم الدین شہید ؒجیسے
اسلام کے نامور سپوتوں اور شمع رسالت کے جان نثاروں کی آخری آرام گاہ ہے
اسی شہر کے باسی آج ایسی رسم کو اپنی پہچان بناچکے ہیں جو ایک کھتری لونڈے
کی توہین رسالت کی ناپاک جسارت اور پھر اس کی عبرت ناک موت کی یاد میں ایک
متعصب ہندو سیٹھ نے شروع کروائی تھی تاریخی حقائق کے مطابق 1707ء سے 1759کے
دوران پنجاب کے گورنر زکریا خان کے دور میں سیالکوٹ کے ہندو کھتری باغ مل
کے بیٹے حقیقت رائے نے رسالت مآب ﷺاور حضرت فاطمہؓ کی شان اقدس میں نازیبا
الفاظ کہے اس جرم کی تحقیق ہوئی اور جرم ثابت ہو گیا ۔
چنانچہ سزا کے طور پر اس گستاخ رسول ﷺ کو پہلے کوڑے لگائے گئے پھر ایک ستون
سے باندھ کر گردن اڑا دی گئی یہ 1734ء کا واقع ہے تحریری کتب میں ذکر ہے کہ
جس دن حقیقت رائے کو سزائے موت دی گئی وہ’’بسنت پنچمی ـ‘‘ کادن تھا اس
گستاخ رسول ﷺ کی یاد میں ہندووٗ ں نے لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں
سمادھی تعمیر کی مورخین کے مطابق ایک ہندو رئیس کا لورام نے اس جگہ ایک
مندرتعمیر کروایا باقاعدہ بسنت میلے کا آغاز کیا اور پتنگ بازی کو رواج دیا
ایک سکھ مورخ اس با ت کی تصدیق کی ہے اور یہاں لکھا ہے کہ یہاں کالورام نے
حقیقت رائے کی یاد میں بسنت میلے کا آغاز کیا تھا دیکھئیے ’’ پنجاب آخری
مغل دور حکومت میں از ڈاکٹر بی ایس نجا رص 279‘‘ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل
ماخذ سے پتا چلتا ہے کہ یہ میلہ ہندوانہ ہے اور کچھ سے پتا چلتا ہے کہ پتنگ
بازی تو ایسی شرم ناک حرکت ہے جو ایک گستاخ رسول ﷺ کی یا د میں شروع کی گئی
تھی ’’تاریخ لاہور از عبدالطیف ص 260‘‘
بعض لوگ اسے خوشی کا بہانہ اور موسم بہارکا استقبال جیسے پر فریب نام دے کر
سند جواز عطا کرنا چاہتے ہیں مگر متعصب اور مسلم دشمن ہندو لیڈر بال ٹھاکرے
کے طنزیہ بیان نے جہاں ہماری غیرت کو للکار اہے وہیں ایسے نام نہاد
دانشوروں کی باطل نوازی اور حقیقت کشی پر بدنما سیاہ مہر لگا دی ہے
خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان میں بسنت کا انعقاد ہندو مذہب کی کامیابی ہے ‘ بال
ٹھاکرے
مرنیوالے ہمارے شہید ہیں مسلمان ہندو ثقافت اپنا لیتے تو لاکھوں زندگیاں بچ
جاتیں
(ضر ب مومن جلد 5 شمارا9)
40 بلین ڈالرسے زائد کی مقروض قوم لاکھوں کروڑوں روپے ڈوروں پر چڑھا کر
پھونک دیتی ہے مسلمان آباد یوں کے اوپر تنا آسمان جو کبھی ایمان کی روشنی
سے منور اور ذکر و عبادت کے انوار سے سجاہوتا ہے اخلاقیات سے گرے ہوئے
نعروں اور رنگ برنگے گڈے گڈیوں سے بھرا ہوتا ہے نوجوان لڑکے ،لڑ کیوں کا
آزاد انہ اختلاط ہوتا ہے
بسنت کے لیے تہرے گناہ کا لفظ کہنا چاہیے
1۔ ایک گنا ہ فضول جاہلانہ رسم کو اپنانے کا
2 ۔ دشمن دین و ملت ہندووٗ ں کی نقالی کا
3۔ تیسرے گستاخان رسولﷺ کی دوغلی حرکت میں ان کا ساتھ دینے کا
نبی ﷺ کے امتیو! آپ کے نام لیواوٗ ! عشق رسولﷺ میں جان کی بازی لگا دینے کا
دعوی کرنے والوں کیا بسنت کی غلط اور حرام ہونے کے لیے یہ کم ہے کہ یہ
تہوار ایک گستاخ رسول ﷺ کی یاد میں منا یا جاتا ہے
ذرا سوچیے ! ہم مسلمان ہیں ہمارے آباو اجداد نے بے پناہ قربانیاں دے کر
ہندووٗ ں سے علیحدہ وطن حاصل کیا ہے کیاہم بسنت منا کر تحریک آزادی کے
شہداء سے غداری نہیں کر رہے 5 فروری کو کشمیر ڈے منانے والو! اتنی جلدی
کیوں بھول گئے کہ بسنت ایک ہندووٗ ں تہوار ہے
اگر ہم یوں ہی بضد ہوکر ان تہواروں کو مناتے رہے تو سوچیے کل اﷲ کی بارگاہ
میں کونسا چہرہ لے کر حاضر ہوں گے اور نبی ﷺ کی شفاعت کی اور کیسے امید
رکھیں گے۔
(تاریخی کتب سے حوالہ جات)
۔ کتاب الہند: البیرونی
۔ پنجاب ، تمدنی و معاشرتی جائزہ : ڈاکٹر انجم رحمانی
۔ تاریخ لاہور : کنہیالال (ہندو)
۔ فرھنگ آصفیہ : مولوی سید احمد دہلوی
۔ تاریخ لاہور: سید محمد لطیف
۔ تاریخ لاہور کا انسائیکلو پیڈیا: ’’تحقیقات چشتی ‘‘: نوراحمد چشتی
۔ بسنت لاہور کا ثقافتی تہوار : نذیر احمد چوہدری
۔ مغل شہنشاہوں کے شب و روز: سید صباح الدین عبدالرحمن
۔ ہندو تیوھاروں کی دلچسپ اصلیت اور ان کی جغرافیائی کیفیت : منشی رام
پرشاد بی ۔اے(ہندو)
۔ ہندو تیو ھاروں کی دلچسپ اصلیت : منشی رام پرشاد ماتھر (ہندو)
۔ ہندن جامکیہ دٹ : وینجھر اج (ہندی میں لکھی گئی کتاب)
۔ احسن الفتاوی : مفتی رشید احمد صاحبؒ کراچی |