ایک پر رونق تقریب

منگل کے دن دوپہر کے وقت انتظامی میٹنگ میں یہ ایک اہم فیصلہ ہواکہ ’’جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اضاخیل بالا ‘‘کے یوم والدین میں جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق کو مہمان خصوصی کے طور پر لائیں گے۔ یوم والدین کے لیے 9دسمبر کا دن مقرر ہوا،میٹنگ میں یہ ذمہ داری جامعہ دارالعلوم اسلامیہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا انواراﷲ باچا صاحب حفظہ اﷲ کو سونپی گئی کہ وہ حضرت شیخ صاحب سے بات کرلیں گے۔نائب مہتمم صاحب کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت شیخ صاحب سے بات کر لی اور انہوں حاضر ہونے کی حامی بھر لی،مگر خدا کو جو منظور تھاوہی ہوا،2نومبر 2018 ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒشہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔

9دسمبر2018 ء کو وہی تقریب جس میں بطور مہمان خصوصی کے شرکت کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ نے حامی بھر لی تھی۔ اب وہی تقریب حضرت شیخ کی تعزیتی ریفرنس میں تبدیل ہوگئی۔جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اضاخیل بالا میں 9دسمبر کو تعزیتی ریفرنس برائے شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ اور تقریب یوم والدین وتقسیم انعامات جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اضاخیل بالا کے مہتمم حضرت مولانا سید نثاراﷲ باچا صاحب حفظہ اﷲ کی زیر صدارت رہی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی قائد ابن قائد حضرت مولانا حامد الحق دام فیضوھم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی دام فیوضھم تھے۔مجلس کے اوائل میں مولانا نثاراﷲ صاحب نے جامعہ حقانیہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ کے متعلق حیرت انگیز معلومات سے مجمع کو چار چاند لگادیے آخر میں انہوں نے کہا کہ میں مولانا عبدالقیوم حقانی سے سابق فضلاء میں ہوں مگر یہ ’’حقانی‘‘تخلص سب سے پہلے مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب نے استعمال کیا اور اپنے نام کے ساتھ حقانی لکھا کرتے تھے ۔بعد ازاں یہ تخلص پورے مملکت خداداد میں مشہور ہوگیا،اب آپ جہاں بھی جاتے ہیں تو آپ کو حقانی ہی حقانی نظر آئے گا۔

بہرحال! مولانا عبدالقیوم حقانی کی تقریر پہلی دفعہ سنی،تو جیسے مولانا عبدالقیوم حقانی کو صاحب قلم پایا تو ویسے ہی انہیں صاحب خطاب بھی پایااگر میں یہ کہوں کہ ان کی رفتارگفتار ،قلم کی رفتار سے تیز ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔جہاں میں نے مولاناعبدالقیوم حقانی صاحب کو قلم کے شہسواروں میں پایا تو وہیں پہ انہیں شعلہ بیانی کے میدان میں سر فہرست پایا۔حضرت کی تشریف آوری ہمارے لیے بہت ہی باعث افتخار رہی۔ انہیں کی زبانی شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ کی بہت یاداشتیں سنیں کیونکہ مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب ان کے مایہ ناز شاگردوں میں سے ایک تھے۔ مولانا عبدالقیوم حقانی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒکے ساتھ شہادت سے چند روز قبل ایک ملاقات ہوئی تو شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق ؒنے فرمایاکہ،’’ اﷲ تعالیٰ نے مجھے دو دفعہ چانس دیا ہے،معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے تفسیر مکمل ہونے کا کام لے رہے ہیں،مگر ایک آرزو اور بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ شہادت سے نوازے‘‘۔توساتھ مصاحبین میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ کو ان دونوں آرزووں اور تمناووں میں سے اختیار دیا جائے تو آپ کونسی آرزو اور تمنا کو ترجیح دیں گے؟توشیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ نے فرمایا کہ ،’’شہادت کو‘‘۔

بعد ازاں مولانا عبدالقیوم حقانی نے فرمایا کہ قسم خدا کی !اگر مولانا سمیع الحق نہ ہوتا تو آج عبدالقیوم حقانی بھی آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتاکیونکہ مجھے قلم کی کارستانی شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ نے سکھائی ہے۔ انہیں کے نقوش پر میں اپنا قلم پھیرا کرتا تھا یہاں تک کہ میرے قلم میں بھی اﷲ تعالیٰ نے وہی طاقت ڈال دی کہ اب جب بھی میں قلم پکڑ کر کاغذ پر رکھتا ہوں تو رفتار برق کی طرح میرا قلم چلنے لگتا ہے۔یہی وجہ کہ حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان کے بعد جامعہ کے نائب مہتمم (مولانا انواراﷲ باچاصاحب حفظہ اﷲ )نے قائد ابن قائد حضرت مولانا حامد الحق کو دعوت خطاب دیا،انہوں نے بھی سٹیج کو سنبھالا۔انہوں نے بھی اپنے خطاب میں بہت سی اہم باتوں میں سے ایک بات یہ بھی کہی کہ،’’ حکومت وقت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ فی الفورشیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒکے قاتلوں کو گرفتار کر یں۔انہوں نے کہا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحقؒ ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک مشن کا نام تھااور یہ مشن ان شاء اﷲ تا قیامت جاری وساری رہے گا،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
یہ بازی تم نے چھیڑی ہے،یہ بازی تم ہی ہاروگے
گھر گھر سے سمیع الحق نکلے گا،تم کتنے سمیع الحق ماروگے

تقریب کے آخر میں بندہ (رضوان اﷲ پشاوری،ناظم تعلیمات جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اضاخیل بالا)نے طلبہ کے مابین تقسیم انعامات کے لیے طلبہ کے نام لیے مولانا حامد الحق اور شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالغنی صاحب حفظہ اﷲ کے ہاتھوں طلبہ کرام نے اپنے انعامات وصول کیے۔ آخر میں تمام سامعین سے جامعہ کے نظام تعلیم وتربیت کے حوالے سے بات کی گئی اور اپنے آئندہ منصوبوں سے تمام سامعین کو آگاہ کیا گیا۔جامعہ کے طلبہ کرام اور سرپرستان حضرات نے اس پررونق تقریب میں کثیر تعداد میں شرکت کی،مسجد کی دامن سامعین کے لیے تنگ پڑگئی۔ آخر میں اپنے جامعہ کے تمام منتظمین،اساتذہ کرام اور طلبہ عظام کو عموماً اور جامعہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا انواراﷲ باچاصاحب حفظہ اﷲ کوخصوصاًکامیاب تقریب کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں۔بارگاہ لم یزل کے دربار میں دست بدعا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس جامعہ کو دن دْگنی رات چوگنی ترقی سے نوازے،اور آئندہ کے لیے جو ہمارے نیک ارادے ہیں چاہے تعلیم کے اعتبار سے ہو یا تعمیروترقی کے اعتبار سے اﷲ تعالیٰ ان کو جلد از جلد وجودبخشے ۔آمین بجاہ سید المرسلین

Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 212071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.