پاکستان یوں تو ہر طرح کے قدرتی وسائل اور نعمتوں سے
مالامال ہے ۔ جہاں سوئی کے مقام پر گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں تو دوسری
جانب تھر میں کوئلہ تو کہیں تیل ، قیمتی پتھر اور نمک کی صورت میں قدرت کے
تحائف موجود ہیں ۔ قدرت کی عطا کردہ انہی انمول قدرتی نعمتوں میں سے ایک
پانی بھی ہے ۔ جو انسان کے ذندہ رہنے کے لیئے آکسیجن کے بعد اوّل hحیثیت
رکھتا ہے ۔ پاکستان ، گو ، کہ آبی وسائل کے لحاظ سے دوسرے ممالک سے کافی
مستحکم رہا ہے مگر گذشتہ چند سالوں سے اسکے بےدردی سے استعمال ، چوری ، نئے
آبی زخائر کے نہ بننے، حکومت کی عدم توجہ اور مِنرل واٹر کمپنیز کے بےدریغ
زیرِ زمین پانی کے استعمال کی وجہ سے زیرِ زمین واٹر لیول کو شدید نقصان
پپہنچا ہے ۔ رہی سہی کثر فیکٹریوں اور پلانٹس کے آلودہ پانی کو بغیر
ٹریٹمنٹ دریاؤں اور زیر زمین بہانے سے پوری ہو رہی ہے، جسکی وجہ سے زیرِ
زمین صاف پانی بھی تیزی سے آلودگی کا شکار ہورہا ہے ستم تو یہ کہ اس سب کی
روک تھام کیلئے سرکار کی جانب سے اب تک کوئ واضح پالیسی ہی نہیں بنائ گئ۔
حالیہ سال ہی کی پاکستان کونسل آف ریسرچ فار واٹر ریسورسز ( PCRWR ) کی
رپورٹ کے مطابق کے بلحاظ آبادی سب سے بڑے صوبے پنجاب کے کچھ بڑے شہروں میں
سطح زمین کے نیچے پانی کا لیول نوے فیصد تک کم ہو چکا ہے جو کہ مستقبل میں
ہونے والی پانی کی بد ترین قِلت کا ایک واضح اشارہ ہے جبکہ بقیہ دس فیصد
پانی بھی پینے کے لیے مضر ہے ۔ جس کی وجہ اس میں موجود ( Arsenic ) کی ایک
خاص حد سے زیادہ موجودگی ہے جو اس پانی کو استعمال کرنے والوں کیلیے پیٹ،
گُردوں اور جلدی امراض کا موجب بنتا ہے ۔ رپورٹ میں درج چند بڑے شہروں میں
سرگودھا خوشاب فیصل آباد اور جہلم شامل ہیں ۔ اقوامِ عالم نے جہاں تیزی سے
گزرتے وقت کے ساتھ دنیا کے ہر شعبہ میں ترقی کی وہیں دن بدِن ہماری قوم نے
اخلاقی پستیوں کو چھوا، ہر طرز سے بدعنوانی اور کرپشن کیلئے نِت نئ راہیں
تلاش کیں۔حکمرانوں نے صحت، روزگار، اور تعلیم کے نام پر ہر طرح سے کرپشن کو
شعار بنایا۔ یونین کونسلز سے لے کر ملکی سطح تک کھربوں روپے کی کرپشن سامنے
آئ مگر اب ہمارے معیار کے کیا کہنے کہ ہم نے اپنی حوسِ زر کی خاطر قدرت کی
اس عظیم نعت کو بھی نہ بخشا، جو کہ ہمارے جینے کا باعث ہے۔ اور یوں آر او
پلانٹس، صاف پانی اور پانی چوری جیسے کیسز بھی عدالتوں کی ذینت بننے لگے،
جو ابھی بھی زیرِ سماعت ہیں۔ جب چیف جسٹس صاحب کو ملک میں پانی کے مسائل
اور اس معاملے پر حکومتی عدم توجہ اور نئے ڈیمز کی ملک کو اشد ضرورت کا علم
ہوا تو انہوں نے اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائے ۔ ملک میں ڈیم کی تعمیر
کے حوالے سے قوم کی بیداری کا سحرا بھی انہیں کے سر سجتا ہے۔ چیف جسٹس نے
"سپریم کورٹ آف پاکستان اینڈ پرائم منسٹر آف پاکستان دیامیر بھاشہ اینڈ
مہمند ڈیم" کے نام سے ایک اکاؤنٹ کا آغاز کیا جس کے ذریعے ڈیمز کے لئے فنڈ
اکٹھا کرنے کی ملک گیر مہم شروع کی جس میں اب تک تقریباً نو ارب روپے جمع
ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ ثاقب نثار صاحب نے "water secure pakistan" کے
عنوان سے تین روزہ کانفرنس کا کامیاب انعقاد کروایا جس میں ملکی اور غیر
ملکی ماہرین نے کثیر تعداد میں شرکت کی، اگرچہ ترقی پذیر ہوں یا ترقی
یافتہ، تمام ممالک میں ایسے کام حکمرانوں کو کرنے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں
یہ فریضہ بھی چیف جسٹس صاحب ہی کو انجام دینا پڑ رہا ہے۔ عالمی ماہرین نے
گذشتہ کئ برسوں سے سینہ پیٹ پیٹ کر مسقبل میں پاکستان میں ہونے والی پانی
کی شدید قلت اور موسمی تبدیلیوں پر توجہ دلانے کی کوشش کی مگر حکومتوں نے
مجرمانہ غفلت کا روائتی مظاہرہ فرمایا اور اپنی کرسیاں بچانے میں مگن رہے،
یوں آج معاملہ اس نہج تک آن پہچا ہے کہ ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے
بھی چندے مانگنے پڑ رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کٹاس
راج مندر کے تالاب کی خشکی پر سوموٹو لیا گیا جسکی باقاعدگی سے سماعتوں کے
دوران سیمنٹ فیکٹریوں اور پھر مِنرل واٹر بنانے والی کمپنیوں کے گھوٹالوں
کا انکشاف ہوا ۔ مِنرل واٹر کمپنیوں سے متعلق کیس کی ایک سماعت کے دوران
عدالتی کمیشن نے چیف جسٹس کو آگاہ کیا کہ کراچی میں زیرِ ذمین پانی کی سطح
1300 فٹ تک پہنچ چکی ہے،منرل واٹر کمپنیز ماہانہ سات ارب لیٹر پانی زمین سے
نکالتی ہیں جس پر کمپنیاں کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتیں اور حکومت کی جانب سے
کمپنیوں کیلئے زمینی پانی کے اتنے وسیع پیمانے پر انخلاء کیلئے بھی کوئ حد
مقرر نہیں کی گئ تاہم اسکے باوجود بھی کمپنیاں اس مفت نکالے گئے پانی میں
ایک خاص پیمانے پر منرلز ملا کر چند روپیوں میں تیار شدہ مِنرل واٹر کی
بوتلوں کو عوام میں مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں۔ جبکہ آلودہ پانی کو بغیر
کسی ٹریٹمنٹ زیرِ ذمین بہا دیا جاتا ہے۔صنعتیں نہروں اور دریائے سندھ کا
پانی مفت استعمال کر رہی ہیں، تاہم اس موقع پر چیف جسٹس صاحب نے اظہارِ
برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی پانی ہر گز چوری نہیں کرنے دیں گے اگر
منرل واٹر کمپنیوں کیلئے زیرِ ذمین پانی کی قیمت ایک روپیہ فی لیٹر مقرر کی
جائے تب بھی ماہانہ سات ارب روپے بنتے ہیں اس طرح ایک سال کے 84 ارب اور نو
سالوں میں یہی 756 ارب روپے جمع ہونگے جنہیں ڈیم کی تعمیر کے لئے خرچ کیا
جا سکے گا۔
واضع رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں گذشتہ 50 سال سے کوئ بھی بڑا ڈیم تعمیر
نہیں کیا گیا جس کی ضرورت میں اب روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ایک عرصے سے عوام
کو ترقی کا لالی پاپ دینے والے حکمرانوں نے آج کہیں قوم کے ہی ساتھ مل کر
انہیں اس دہانے پر لاکھڑا کیا ہے کہ جسکا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا
ہوگا۔
اسے ایک لکھاری کیلئے غربتِ قلم کے سوا اور کیا نام دیا جائے کہ اسے آج اس
موضوع پر بھی اسے چلانا پڑ گیا اگر حالات مزید چند سال ایسے ہی رہے تو وہ
وقت دور نہیں جب قلمکاروں کا موضوع "ہوا" ہو۔۔۔ |