رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام عالم اسلام کے مرکز
مکۃ المکرمہ میں12،13دسمبر2018ء کو ’’گروہ بندی اور مخالفت کو دور کرنے کے
خطرات ‘‘ کے موضوع پردوروزہ بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی ،شاہ
سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی سرپرستی میں ہونے والی کانفرنس کا مقصدر
قومی حکومت اور مشترکہ اقدار کے تصورات کو فروغ دینا تھا۔کانفرنس میں سعودی
عرب کے علاوہ یمن ،شام ، عراق ،پاکستان ،لبنان ،افغانستان ، بھارت ، مصر ،
سری لنکا ،سوڈان ، عمان ، متحدہ عرب امارات ،فرانس ، کویت ،بحرین ،اردن ،
امریکہ ، جنوبی افریقا،جرمنی انگلینڈ ، بیلجیئم ، آسٹریلیا اورچیچنیا سمیت
دنیا کے 127ممالک سے 28مسالک کے 1200سے زائد علماء ،مفکرین ، دانشور اور
مفتیان کرام نے شرکت کی ۔ کانفرنس میں پاکستان سے بھی تمام مکاتب فکر کے
ایک اعلیٰ سطحی وفد نے شرکت کی ۔جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق
قادری ،علامہ طاہر محمود اشرفی چیئرمین پاکستان علماء کونسل ،بین الاقوامی
اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمد یوسف الدرویش ،مفتی اعظم پاکستان مفتی
محمد رفیق عثمانی سمیت اہم شخصیات شامل تھی ۔کانفرنس کا افتتاح شاہ سلمان
بن عبدالعزیز آل سعود کے تحریری پیغام کے ساتھ ہوا ۔گورنر مکہ شہزادہ خالد
الفیصل نے کانفرنس کے مندوبین کو خوش آمید کہتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب
اتحاد بین المسلمین کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا ۔ شاہ سلمان بن
عبدالعزیز آل سعود نے کانفرنس کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس میں
کوئی شک نہیں کہ آپ ایک مشکل مشن کی تکمیل کیلئے ارض حرمین میں اکھٹے ہوئے
ہیں اور یہ مشن اسلام اور مسلمانوں کے بارے قائم ہونے والے غلط اور انتہا
پسندی کے رجحانات کو دور کرکے ایک روشن خیال معاشروں کے قیام کا ہے آپ کا
سامنا ان انتہا پسند قوتوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اسلامی اخلاقیات ثقافت اور
تہذیب کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے ۔ہم سب نے مل کر اسلام کے بارے اس
منفی تصور کو دور کرناہے۔ شاہ سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اعتدال پسندی کے
تصور پر قائم کیا گیا تھااور ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کی امنگوں اور توقعات
پر اترنے کیلئے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے ۔رابطہ عالم اسلامی کے
سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ
مسلمانوں کو اپنے اختلافات کو ختم کرکے اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا ہوگا ۔انہوں
نے کہا کہ اس کانفرنس کے بہت سے مقاصد ہیں لیکن سب سے اہم ہدف مسلمانوں کے
تمام فرقوں کے درمیان موجود اختلافات کو بتدریج کم کرکے ایک ایسا ماحول
پیدا کرنا ہے کہ جہاں تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مکالمے کے زریعے ان
اختلافات اور تنازعات کو دور کریں ۔
دو روزہ کانفرنس میں جامع اسلامی وحدت ، مسلمان اور آداب اختلاف ، وحدت
اسلامی میں درپیش رکاوٹیں اور موئثر اسلامی اتحاد کی طرف اقدامات ، اسلامی
امور کے مشترکہ پہلو ، دعوتی اور ذرائع ابلاغ پیغام کی رہنمائی،امت اور
قومیت کا مفہوم ، فرقہ واریت کے نعرے، تکفیراور انتہا پسندی، اسلامی نشاۃ
ثانیہ اور منفی چیلنجز ، اسلامی مکالمہ اور اس کی وسعتیں، اسلام فوبیا کے
مقابلے کیلئے حکیمانہ تدابیر ،قومی حکومت اور اس کے مشترکہ اقدار کے فروغ
کے موضوع پرسات اجلاس منعقد ہوئے ۔کانفرنس سے مفتی اعظم مصر ڈاکٹر شوقی
علام، شیخ عبداﷲ بن بیہ صدر امارات کو نسل برائے شرعی فتاویٰ جات ، ڈاکٹر
عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس ،صدر امور مسجد الحرام و مسجد نبوی ، ڈاکٹر
عبدالوہاب لطف الدینی سابق وزیر عدل یمن ،شیخ احمد المرابط بن شیخ احمد
مفتی اعظم موریطانیہ ،ڈاکٹر محمد ہدایت نور وحیدنائب صدر شوریٰ کونسل
انڈونیشیا ، ڈاکٹر احمد محمد ہلیل سابق چیف جسٹس اردن، الشیخ عبدالعزیز بن
عبداﷲ آل شیخ مفتی عام سعودی عرب و صدر رابطہ سپریم کونسل ، ڈاکٹر صالح بن
عبدالﷲ بن حمید مشیر دیوان ملکی ، پیر نو ر الحق قادری وفاقی وزیر مذہبی
امور پاکستان ،شیخ عبدالحمید اسماعیل ،چیئرمی اہل سنت علماء اتھارٹی ایران
،استاد عبدالرشید بدیع الدین وزیر صنعت و تجارت سری لنکا، ڈاکٹر محمد
البشاری سیکرٹری جنرل اسلامی کانفرنس یورپ ، علامہ طاہر محمود اشرفی
چیئرمین پاکستان علماء کونسل ،ڈاکٹر سلیمان عبداﷲ اباالخیل مدیر جامعہ امام
محمد بن سعود ، ڈاکٹر سید شیخ علی الامین لبنان و دیگرنے خطاب کیا۔
مصر کے مفتی اعظم شوکی ابراہیم عبدالکریم علام نے عالم اسلام کے جید علماء
اور مفکرین کو ارض حرمین میں ایک چھت کے نیچے جمع کرنے پر شاہ سلمان بن
عبدالعزیز آل سعود کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو مذہبی
معاملات سے آگے بڑھ کر سیاسی سماجی و اقتصادی میدان میں بھی ایک دوسرے کے
ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کرنا ہوگا ۔ لبنان کے ممتاز شیعہ رہنما ڈاکٹر سید
شیخ علی الامین نے وحدت اسلامی میں درپیش رکاوٹیں اور فرقہ واریت کے موضوع
پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ واریت نے پورے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا
ہے ۔ ہم سب کو مل کر نفرت کی دیوار کو توڑنا ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم
کردار مسلمانوں کی قیادت اور علماء پر ہے ہمیں ایک ایسا مفاہمتی لائحہ عمل
ترتیب دینا ہوگا کہ جس سے ان نفرتوں کو کم کیا جاسکے۔ ڈاکٹر یوسف بن احمد
العثمین سیکرٹری جنرل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) نے انتہا پسندی اور
فرقہ واریت کے خاتمے کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے شاہ
سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں تشدد اور دہشتگری کے خلاف نمایاں
کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔اور آج سعودی عرب کے یہ اقدامات ان منفی رجحانات کو
قابو کرنے کیلئے ایک نمونے کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں ۔کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری نے کہا کہ اسلام
اعتدال اور امن پسند دین ہے اسلام کا درس یہ ہے کہ اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے
تھاموں اور فرقوں میں نہ تقسیم نہ ہوں امت کا اتحاد قرآن و سنت پر عمل پیرا
ہوکر لوگوں کو انسانیت کی فلاح کا درس دینے میں ہیں ۔ پاکستان علماء کونسل
کے چیئرمین علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ سعودی عرب امت مسلمہ کی
امیدوں کو مرکز ہے آج سازشی عناصر اور اسلام کے دشمنوں نے مملکت کیخلاف
زہریلاپروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے اس موقع پر ہم سعودی عرب کے دشمنوں کوواضع
پیغام دیتے ہیں کہ ہم سعودی عرب کی پہلی دفاعی لائن ہیں اور مملکت کے دفاع
کیلئے اپنی جان مال قربان کرنے سے دریغ نہیں کرینگے ۔انہوں نے کہا کشمیر ،
فلسطین سمیت امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے عالم اسلام کی مشترکہ
لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔مقررین نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ تمام مسلمانوں کو محور و مرکز ہے اور یہاں
سے اٹھنے والی ہر آواز کو عالم اسلام میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
انہوں نے کہا کہ رائے کا اختلاف زندہ معاشروں کی علامت ہے تاہم اختلافات
رائے کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر اور تکفیر کے فتوے لگانے حرام ہے ۔
کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامہ جاری کیا گیا جس میں ہر قسم کے
تشدد ، انتہا پسندی اور دہشتگری کی مذمت کی گئی اس امر پر تمام علماء اور
مفتیان اکرام کا اتفاق تھا داعش،القاعدہ اور اسلام کے نام پر قائم دیگر
دہشتگرد تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ مستقبل
میں ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا جس سے مسلمان نوجوانوں کو ان
دہشتگرد تنظیموں کا ایندھن بننے سے بچایا جاسکے۔علماء کا اس امر پر اتفاق
تھاکہ مسلم ممالک اور معاشروں کو داخلی اور خارجی معاذ پر کئی مسائل کا
سامنا ہے داخلی طور پر ، فرقہ واریت اور انتہا پسندی جیسے مسائل ہیں ،جبکہ
خارجی محاذ پر اسلام فوبیا جیسے مسائل ہیں کانفرنس کا سب سے نمایاں پہلو’’
میثاق مکہ ‘‘ کے نام سے ایک فورم کے قیام کا اعلان تھا جو مستقبل میں تمام
مسالک اور مکاتب فکر کے درمیان پل کا کردار ادا کریگا رابطہ عالم اسلامی کے
زیر اہتمام اس فورم میں تمام مسالک کے نمائندے ایک جگہ بیٹھ کر ان تنازعات
و اختلافات پر مکالمہ کرکے سفارشات پیش کرینگے اور ان سفارشات کی روشنی میں
فورم ان تنازعات کو کم کرنے کیلئے عملی اقدامات تجویز کریگا۔کانفرنس کے
اختتام پر شرکاء نے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود
اور ولی عہد محمد بن سلمان کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے امت مسلمہ
کے اتحاد و اتفاق کیلئے ایک ایسا فورم مہیا کیا کہ جس میں تمام مسالک اور
مکاتب فکر کے لوگوں نے کھل کر اپنے جذبات کو اظہار کیا۔شرکاء کا کہنا تھا
کہ سعودی عرب اسلام کا قلعہ ہے جس نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہمیشہ
اپنا کردار اداکیا او ر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) اور رابطہ عالم
اسلامی کی کاوشیں اس امر کی واضع دلیل ہیں- |