لندن کا مہاجر

۱۹۷۹سے قبل مسلمانوں کا یہ بیانیہ بہت مضبوط تھاکہ اسلام مسلمانوں کے علم و عمل اور سیرت وکردار کے بل بوتے پرپھیلا۔ اولین دور میں جب مکہ فتح ہوا تو دینا نے دیکھا کہ فاتح لشکر کی تلواریں نیاموں میں ہیں اور اعلان کرنے والے اعلان کر رہے ہیں کہ بچوں اور عورتوں کو امان ہے ۔ غیر مسلح شہریوں کو امان ہے۔ اپنے اپنے علاقے کے سرداروں کے گھروں میں پناہ گزین ہو جانے والوں کو امان ہے۔ بات آگے بڑھی ، طاقت زیادہ ہو گئی تو اعلان ہوا ، جو علاقہ فتح ہو گا وہاں درخت اور فصلیں کو گزند نہ پہنچنے گا۔ طاقت مزید بڑہی تو غیروں نے آ کر دعوت دی کہ ہم اپنوں سے بیزار ہیں تشریف لائیے اور ہمارے حکمران بن جائیے۔ بات مزید آگے بڑہی تو متکلم نے دوسرے معاشروں میں جا کر اسلام کی دعوت پیش کرتے اور جماعتوں کی صورت میں جاہلوں کو اسلام کے مہذب معاشرے میں شامل کرتے ۔ بات اور آگے بڑہی ۔ اہل علوم نے کتابیں تصنیف کیں لوگوں نے اس کتابوں کے دوسری زبانوں مین تراجم کیے۔ انجان اور دور دراز علاقوں کے با صلاحیت نوجوان ان ترجم کو پڑہتے اور ان کی زندگی بدل جاتی۔

۱۹۱۵ میں لندن کے ایک زمیندار مسیحی گھرانے میں John Gilbert Lennard کے نام سے پرورش پانے والے ایک نوجوان نے حضرت علی بن عثمان ہجویریؓ کی کتاب ْ کشف المجوب ْ کا انگریزی میں ترجمہ پڑہنا شروع کیا ۔ نوجوان جوں جوں ترجمہ پڑہتا گیا اس کا من روشن ہوتا گیا۔ جب کتاب مکمل پڑھ چکا تو اس نے خود جا کر اس معاشرے کا مطالعہ کرنے کی ٹھانی جس معاشرے کے باسی نے یہ کتاب لکھی تھی۔ وہ حیدر آباد میں حضرت سید محمد ذوقی شاہؓ کی خانقاہ میں پہنچا تو شاہ جی نے اس کو اپنا مرید بنا کر اس کا نام شہیداللہ رکھا ۔ جو بعد میں شہید اللہ فریدی کے نام سے معروف ہوا۔ سید محمد ذوقی شاہ کے پاس پہنچ کر شہید اللہ کو ادراک ہو ا کہ یہ طرز ندگی اس کی پڑہی ہو ئی کتاب کی عملی تجربہ گاہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جس عمل پر انسان کا وقت، مال اور محنت صرف ہو ، اس انسان کے لیے وہ عمل قیمتی بن جاتا ہے۔ اہل تصوف کے آستانوں میں نوجوانوں سے وقت کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ وقت اپنے پیر و مرشد کے آستانے پر گذاریں۔ عام تجربہ ہے کہ جو مرید مہینہ میں ایک بار اپنے پیر کے آستانے پر حاضری دیتا ہے اس کی نسبت وہ سالک جلد ترقی کی منزلین طے کرتا ہے جو ہر ہفتے اپنی حاضری یقینی بناتا ہے۔ اس سے تیز رفتار ترقی اس کی ہوتی ہے جو روزانہ اپنے پیر کے آستانے پر حاضر ہوتا ہے۔ شہیداللہ تو دن رات سید ذوقی شاہ کی صحبت میں تھا۔مطالعہ انسان کے ذہن کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے تو عملی تربیت قلب و ذہن میں پیدا ہونے والی تحریک کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ شہید اللہ کے خیالات اپنے مرشد کی زیر نگرانی بہت جلدی اعمال میں ڈہلنا شروع ہو گئے۔ ہوا یہ کہ جو منازل علم و عمل برسوں میں طے کراتا ہے وہ ساری منازل شہیداللہ کے مرشد نے نظروں میں طے کرا دیں۔

اینٹیں بنانے والے بھٹے پر جب مٹی کو گوندھ کر اس سے اینٹیں بنائی جاتی ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے دہوپ میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس دوران بارش آ جائے تو اس پر ترپال ڈال کر ان اینٹوں کو بارش سے بچایا جاتا ہے کہ وہ بھیگ کر دوبارہ گارا نہ بن جائیں۔ مگر ان کچی اینٹوں کو جب بھٹے کی آگ میں پکا کر نکالا جاتا ہے تو پھر ان پر ترپال ڈال کرموسموں کے تغیرات سے بچانے کی ضرورت نہیں رہتی۔اہل تصوف کے آستانے کچی اینٹوں کو پکانے کے بھٹے ہوتے ہیں۔سید ذوقی شاہ کے بھٹے میں شہیداللہ فریدی نام کی اینٹ تیار ہو چکی تو انھیں کراچی بھیج دیا گیا۔ ہجرت ایسا عمل ہے جو ہر صوفی کرتا ہے کہ یہ مکہ سے مدینہ ہنتقل ہونے والی ہستی ﷺ کی سنت ہے ۔شہید اللہ نے کراچی میں ۳۰ سال وہی کام کیا جو ہر صوفی کرتا ہے یعنی ْ خدمت خلق ْ ۔ خدمت خلق کی ابتدا محبت ہے تو اس کی انتہا بھی محبت ہی ہے۔ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ کا فرمان ہے ْ محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے ْ ۔ شہید اللہ فریدی نے محبت کے نشے میں ڈوب کر جو کتابیں لکھیں ان میں سب سے مشہور ہونے والی کتاب کا نام : Inner Aspects of Faith ہے۔اس کے علاوہ ان کی تصانیف کے عنوان یہ ہیں ۔
Every day Practice in Islam انگریزی
Vision for Speakers of the Truth انگریزی
Spirtuality in Religion انگریزی
Ciencia Y Creencia اسپانوی
Dagling Praksis ڈینش
Vigleding for Muslims ڈینش

ان کی وفات ۱۹۷۸ میں کراچی میں ہوئی اور کراچی کے قبرستان سخی حسن میں محو استراحت ہیں۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 147381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.