تحریر: فخرالدین پشاوری
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒکا شمار ایسے ہی گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ جن کو ہم بانیِ پاکستان کے نام سے بھی جانتے ہیں
25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ہر سال 25 دسمبر کو قائداعظمؒ کا
یوم پیدائش پاکستان میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے ملک بھر
میں تقریبات اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ جن میں ان کی شاندار خدمات پر
روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ تقریبات شغل اشغال کے لیے نہیں بلکہ ان کی یاد تازہ
کرنے کے لیے ہوتی ہے کہ وہ کیسے پاکستان چاہتے تھے اور اس کے لیے خود کیسے
بطورِ مثال پیش ہوئے۔ ان کی زندگی سے کچھ سیکھنے کے لیے ہوتے ہیں اور ان کے
دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کے لیے ہوتے ہیں۔ان کے زندگی کے چند واقعات جو
ہمارے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔
1943ء میں آلہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلباء کے درمیان اس بات
پر تنازعہ ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرا یا جائے یا مسلم
لیگ کا۔ مسلمان طلباء کا کہنا تھا کہ کا نگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات
کا عکاس نہیں اور چونکہ آلہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر
تعلیم تھی اس لیے یہ پر چم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا ۔ابھی یہ
تنازعہ جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلباء کی یونین سالانہ
انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی ۔یونین کے طلباء کا ایک وفد قائداعظمؒ کے
پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کے پر چم
لہرانے کی رسم ادا کریں۔ قائداعظم ؒنے طلباء کو مبارک باد دی اور کہا اگر
تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد
اپنے غلبے کی نمائش کرنا نازیبا حرکت ہے ۔کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے کسی
کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں کہ ہم
خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔
یہ 25 اکتوبر 1947ء کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ
کا تہوار منایا جانا تھا۔ عید الاضحیٰ کے نماز کی امامت کا فریضہ مشہورعالم
دین مولانا ظہور الحسن نے انجام دینا تھا۔ قائد اعظم کو نماز کے وقت سے
مطلع کردیا گیا مگر قائد اعظم ؒعید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے
مولانا ظہور الحسن کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی
لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ
نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن نے
فرمایا،’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل
کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘۔ چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کر کے تکبیر فرما
دی۔ ابھی نماز کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی
عید گاہ پہنچ گئے۔
نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی
وہ اگلی صف میں تشریف لے جائیں مگر قائد اعظمؒ نے ان کی درخواست مسترد کردی
اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چنا نچہ ایسا ہی ہوا اور
قائد اعظم ؒنے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظمؒ کے برابر کھڑے
نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا
ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ قائد اعظم نمازیوں
سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن کی جراتِ
ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علماء کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا
چاہیے۔
ایک بار قائداعظمؒ ریل میں سفر کر رہے تھے۔ سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ
غلطی سے ان کا ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے
ہیں۔ جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ
میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔ ٹکٹ ایگزامنر نے
کہا آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں۔ قائداعظمؒ یہ
سن کر طیش میں آگئے۔ انہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف
ورزی اور میری توہین کی ہے۔ بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکھٹے ہو گئے ٹکٹ
ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم ؒاسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر
کے پاس لے گئے۔ بالآخر اس سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔
اس وقت انگریزوں نے ایک قانون بنایا تھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں اس
کے آگے لائیٹ لگائی جائے۔ ایک دفعہ قائداعظم ؒکچھ نوجوانوں سے بات کر رہے
تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا سب مسلمان بچوں نے
ہاتھ کھڑے کیے پھر آپ نے پوچھا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائیٹ موجو د ہے۔
صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جا ئے
گا، نوجوانوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا،’’جو قانون پر عمل نہیں کرتا
اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
وفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔
یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظمؒ اپنی علالت کے باوجود شریک
ہوئے۔ وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی
اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں۔ انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع
کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ حکم کی تعمیل
ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان
میں کئی سرکاری افسران کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان
بھی شامل تھے۔ وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذرا سی غلطی قائد اعظمؒ نے
برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولیں گے۔
قائداعظم ؒجیسے شخصیات صدیوں میں کوئی ایک پیدا ہوتی ہے اور کسی قوم کو
انعام کے طور پر ملتے ہیں۔ پاکستانی قوم اﷲ تعالی کا جتنا شکر ادا کریں کم
ہے کہ اﷲ نے ہمیں قائداعظمؒ جیسا عظیم لیڈر عطا کیا۔ قائداعظم کی شخصیت ان
خوبیوں اور خصوصیات کا مجموعہ تھی جو کہ جو کہ خود ایک مثال تھی اور ان کو
اپنا کر کوئی بھی شخص عظمت کے میناروں کو چھو سکتا ہے اور بحیثیت قوم ہم ان
کو اپنا کر ایک عظیم قوم بن کر قائد کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔ |