کائنات میں ہر سو حق ہی حق ہے باطل انسان کے اندر ہے

ارشادباری تعالیٰ ہے’’ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ انکے درمیان ہے حق کے ساتھ پیدا کیا ہے‘‘(القرآن)۔ حق سے کیا مراد ہے تو اس سے مراد سچ، عدل قرآن پاک، قطعی اورواقعی چیز ہے اور حق اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک نام بھی ہے اور بعض مفسّرین کائنات کی پیدائش کا ایک اور مقصد بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی تمام صفات کمالیہ جلالیہ و جمالیہ کا اظہار ہے اس کی تائید ایک حدیث قدسی سے ہوتی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایک مخفی خزانہ تھا تو میں نے یہ چاہا کہ میں پہچاناجاؤں تو میں نے مخلوقات کو پیدا کیا (البدائع از مولانا اشرف علی تھانویؒ )۔

صفات کمالیہ جلالیہ مثلاً جبّاریّت،قہّاریّت ،ذوالبطش، عزیز ذوانتقام اور وغیرہم اور صفات کمالیہ جمالیہ یعنی بے پایاں رحمت، جود و کرم، عدل و انصاف، ذرّہ نوازی اور بخشش وغیرہم کا اظہار ہی اس کائنات کی پیدائش کا مقصد ہے۔اس مقصد کی تکمیل کیلئے انسان کو پیدا کیا گیا اور اسکی فطرت میں دو قسم کی خاصیّتیں رکھی گئیں، مثلاً خواہش نفسانی، حرص و ہوس، غصّہ اور انتقام لینا وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ جذبہ عبادت یعنی کسی مافوق الفطرت ہستی کے آگے جبین نیاز خم کرنا، عاجزی انکساری تواضع، اپنے گناہوں پر شرمندگی اور پشیمانی اور رجوع الی اللہ وغیرہم۔

لہٰذا جب انسان بتقاضائے بشریّت کفر و شر ک اور نافرمانی کے گھٹاگھوپ اندہیروں میں ڈوبتاچلا جاتا ہے تو پھر صفات کمالیہ جلالیہ قہّاریت و جبروت اور ذوالبطش یعنی گناہوں پر پکڑ جیسی صفات کا اظہار ہوتا ہے اور اسکے برعکس جب وہ اپنے گناہوں پر شرمندہ و پشیمان ہوتا ہے اور خدا کے خوف سے توبہ کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی صفات کمالیہ جمالیہ یعنی بخشش اور جود وکرم کا اظہار ہوتا ہے۔

اور انسان میں گناہ گاری اور نافرمانی کا جو مادہ موجود ہے وہ نفس امّارہ اور شیطان ابلیس پر مشتمل ہے ، نفس امّارہ جس کے بارہ میں قرآن پاک میں فرمایا گیاکہ’’ میں اپنے نفس کو بری الذمہ قرار نہیں دیتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم کرنے والا ہے‘‘(سورۃ یوسف پارہ:۱۳)، اور شیطان کو قرآن پاک میں عدو مبین یعنی کھلا ہو دشمن قرار دیا گیا۔

اور ازروئے حدیث شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے ، یہ دونو ں منفی طاقتیں ہی وہ باطل ہے جو انسان کے اندر موجود ہے اور اپنا تصرف کرتاہے اور اسے حق پر چلنے سے روکنے میں اپنی پوری طاقت صرف کرتا ہے مگر جو رحمٰن کے بندے ہیں ان پر اسکا زور نہیں چلتا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں شیطان سے کہ کہہ دیا ہے کہ’’جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا‘‘۔لہٰذا جب رحمٰن کے بندے نفس اور شیطان کے داؤ پیچ میں نہیں آتے اور انکے خلاف شدید مزاحمت کرتے ہیں تو ایک جنگ کی سی صورت حال پید اہو جاتی ہے اور حق و باطل کی اس جنگ کا اصل محور دراصل انسان کا دل او ر یہی جہاد اکبر ہے۔

آنحضرتﷺ جب غزوہ بنی مصطلق سے واپس ہوئے تو آپ نے صحابہ کرامؓ سے ارشاد فرمایا کہ ’’جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف چلو‘‘۔

اس حدیث شریف میں آپ ﷺ نے کفّار سے جنگ کو جہاد اصغر اور نفس امّارہ اور شیطان سے جنگ کو جہاد اکبر فرمایا۔مقصد یہ ہے کہ اگر انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کاکامل فرمانبردار بندہ بننا چاہتاہے اور دائمی کامیابی اور نجات کا طالب ہے تو اسے اپنے اندر کے باطل سے جنگ کرنا ہوگی کیونکہ کفار و مشرکین سے جہاد کا موقعہ تو کبھی کبھی پیش آتا ہے اور پھر ہر شخص بھی اس جنگ میں حصّہ نہیں لے سکتا مگر حق و با طل کی اصل جنگ جو انسان کے اندر ہمیشہ جاری رہتی ہے جو نفس امّارہ اور شیطان کے خلاف ہے اس جنگ کو جیتنے کیلئے اسے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اسی میں دونوں جہان کی کامیابی ہے۔
 

Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 321125 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More