عمران خان اور عافیہ صدیقی، امریکہ کی خوفناک غلطی!

کالم نگار: گورڈن ڈف، امریکی سینئر ایڈیٹر
مترجم : محمد ایوب

پاکستان کا پس منظر رکھنے والی ایک نوجوان عورت ایک جعلی کیس میں سزا سننے کے بعد ایک امریکی جیل میں عمرقید کی سزا بھگت رہی ہے۔ اس غریب کو یہ سزا اس لئے دی گئی تاکہ ڈک چینی کو عراق پر یورینیم خریدنے کے جھوٹے الزام کی شرمندگی اور پکڑے جانے سے بچایا جاسکے۔

یہ خاتون عافیہ صدیقی ہے اورمیں نے اس کیس پر 2010 ء میں کام کیا اور اس کے بعدبھی، وہ بہت جذباتی تھے اور پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مل کر کام کیا ۔ ایک موقع پر خان نے مجھے عافیہ کے والدین کے گھر سے بھی فون کیاتھا۔ میں نے وہ گفتگو ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر بھی ڈالی لیکن بعد میں اس کو ’’قابل اعتراض ‘‘ قرار دے کر ہٹا دیا گیا۔

اس کے بعد میں نے پاکستانی جے سی او ایس(JCOS) کے چیئرمین ایڈمرل سروہی کا ایک خط بھی جنرل کولن پاؤل کو پہنچایا ، سروہی ایک معزز فوجی قائد تھا جس کے پنٹاگون میں بہت سے دوست تھے اور وہ میرا بھی اچھا دوست تھا، اس کا خیال تھا کہ پاؤل مداخلت کرے گا۔ پاؤل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاؤل ایک بزدل آدمی تھا۔

پھر 2011 ء میں سی آئی اے(CIA) کا ریمنڈڈیوس نامی ایک ایجنٹ قتل کے الزام میں پاکستان میں گرفتار ہوا۔ اس کو عافیہ کے بدلے میں رہا کرنے کا ایک خفیہ معاہدہ ہوا لیکن وزیراعظم گیلانی نے اس معاہدے کو روک دیا اور عافیہ کی رہائی ممکن نہ ہو سکی ۔گیلانی کو ویٹرن ٹوڈے نے اسرائیلی نیوکون منشیات کے گروہ میں جان مکین(John McCain) اور لنڈسے گراہم(Lindsay Graham) کے ساتھی کے طور پر بے نقاب کیا ہے جو افغانستان میں ہیروئین کے پیسے کی لانڈرنگ میں ملوث رہے۔

آج ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے والی ہے اور پاکستانکو امریکہ کو مجبور کرنا ہو گا کہ جو کچھ سازباز ہوئی ہے وہ ان کی قیمت چکائے، جس سے مراد امریکہ کا انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ وہ طویل پروگرام ہے جس کا مقصد پاکستان میں دہشت گرد حملے کرانا تھا جن میں ہزاروں لوگ پاکستان کے اندر مارے جا چکے ہیں۔

اور ہم پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ خان اس کو بالکل قبول نہیں کرے گااور کسی وقت یہ بھانڈا پھوٹ جائے گا اور عافیہ رہا ہوگی اورانصاف کا بول بالا ہوگا ۔ ہم 2010 ء سے اس وقت کا انتظار کررہے ہیں۔

بہت کم لوگوں کو چینی(Cheney) کے دوراقتدار کے جرائم کا پتہ ہے، جسے فلم ’’وائس‘‘ (Vice) میں دکھایا گیا ہے۔

ہم اس معاملے میں ہالی ووڈ سے متفق ہیں۔ آپ میں سے ان لوگوں کو یاد دہانی کیلئے جن کو پتہ نہیں یا جو بھول گئے ہیں، ہم نے عراق پر نائیجر(Niger) سے خام یورینیم خریدنے کے الزام میں حملہ کیا تھا، تاکہ اس سے وہ(عراق) ایٹمی ہتھیار بناسکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خریداری سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی، یہ کہانی مکمل جھوٹی اور گھڑی ہوئی تھی اور بعد میں سی آئی کی ایجنٹ ولیری پلامے (Valierie Plame) اور اس کے شوہر،سفیر جو ولسن نے اس کا بھانڈہ پھوڑا۔

حالانکہ یہ بات امریکہ کے لئے بہت شرم کا باعث ہوگی کہ اس نے ایک جنگ کا بہانہ گھڑا جس میں بیس لاکھ لوگ مارے گئے اور بعد میں امریکہ یہ جنگ ہار گیا، جیسے امریکہ نے ویت نام میں جنگ ہاری تھی اور افغانستان میں ہار رہا ہے، سچ ایک دن منظرعام پر آئے گااور بتائے گا کہ کس طرح ہمیں بے وقوف بنایا گیا تھا۔

ابھی تک سچ نہیں بتایا گیاہے۔

اس مرتبہ بش سرکار اور اس کے اسرائیلی آقاجھوٹے اور جنگی مجرم ثابت ہونے کے باوجود، عراق میں بڑی تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اور یہ الزام دہائیاں گذرنے کے باوجود ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا۔

اس الزام کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے انہیں قربانی کے ایک بکرے کی تلاش تھی جو انہیں MIT کی ایک نوجوان Ph. D کی شکل میں مل گئی جس کا نام عافیہ صدیقی تھا اور جس کی بوسٹن میں مقیم ایک بے ہوشی کے ماہر ڈاکٹر سے شادی ہوچکی تھی۔ اس وقت عافیہ کے دو بچے تھے اور وہ اپنے والدین سے ملنے کراچی، پاکستان آئی ہوئی تھی۔

عافیہ کو سی آئی اے کی فرمائش پر دو بچوں سمیت (کراچی کی) ایک سڑک سے اغواء کیا گیا۔ اس کو اغواء کرنے والوں کو 55 ہزار ڈالر معاوضہ ادا کیا گیا۔ ان اغواء کاروں کو بتایا گیا تھا ، اور میں اس کو ثابت بھی کرسکتا ہوں، کہ اگر وہ عافیہ کو تلاش نہ کرسکیں تو کسی اور کو اغواء کرکے لائیں۔چینی(Cheney) کو بس قربانی کے ایک بکرے کی ضرورت تھی۔

( ویٹرینز ٹوڈے ڈاٹ کام (VT) آزادی اظہار، رائے اور بلاگ کا متبادل ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جوامریکہ کی خارجہ پالیسی اور فوجی معاملات پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ VT پریس کی آزادی اور جمہوریت کی روح کے عین مطابق سینسرشپ کے بغیر امریکہ اور دنیا بھر کے آزاد رائٹرزکو خبروں اور ان کے نقطہ نظر کے اظہار کیلئے 100 فیصد کھلا اور آزاد پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ایک ریٹائرڈ بزنس مین اور امریکی شہری جان ایلن نے 2004 ء میںVT کو قائم کیا تھا۔

اس مضمون کے مصنف گورڈن ڈف VTکے چیئرمین و سینئر ایڈیٹر اورویت نام کی جنگ میں حصہ لینے والے تجربہ کار امریکی سمندری فوجی ہیں۔وہ کئی دہائیوں سے سابق امریکی فوجیوں کے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ گورڈن ڈف ایک معزز ڈپلومیٹ بھی ہیں اور انہیں ’’اعلیٰ عالمی انٹیلی جنس ماہر‘‘ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا نجی انٹیلی جنس تنظیم کا انتظام چلا رہے ہیں اور حکومتوں کے ساتھ سیکوریٹی کے مسائل کا حل پیش کرنے میں باقاعدگی سے مشغول رہتے ہیں۔ڈف نے بڑے پیمانے پر دنیا کا سفر کیا ہے، ان کے مضامین دنیا بھر میں شائع ہوتے ہیں اوروہ کئی ممالک کے ٹی وی اور ریڈیو پر مبصرکی حیثیت سے باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں۔

وضاحت مترجم: مصنف نے ’’دو بچوں سمیت ایک سڑک سے عافیہ کے اغواء‘‘ کے بارے میں لکھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عافیہ کو کراچی کی کسی سڑک سے اس کے تینوں بچوں سمیت اغواء کیا گیا تھا۔ 6 ماہ کا شیرخوار سلیمان اس وقت اپنی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گود میں تھا جو اغواء کے وقت زمین پر گر کر زخمی ہوگیا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ اغواء کاروں نے ڈاکٹر عافیہ کو دو بچوں سمیت امریکیوں کے حوالے کیا ہوکیونکہ پانچ سال تک ڈاکٹر عافیہ اوراس کے کمسن بچوں کو جبری لاپتہ رکھنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان سے امریکہ منتقل جبکہ احمد اور مریم کو پاکستان واپس لایا گیا تھا جبکہ سلیمان2003 ء سے اب تک لاپتہ ہے)۔
 

Muhammad Ayoob
About the Author: Muhammad Ayoob Read More Articles by Muhammad Ayoob: 11 Articles with 8772 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.