اُس نے پہلی نظر میں ہی مجھے پسند کر لیا تھا ۔ جبکہ میں
دوسری نظر میں اُس کے وجود کے دام میں پھنس چُکا تھا ۔ اُس کی محبت وجود سے
ہوتی روح میں اُترنے لگی ۔
گندمی رنگ کے اندر کی شفاف روح سے کبھی نہ کبھی میرا تعلق ضرور رہا ہو گا
جو ان بظاہر جسموں کے وجود سے بہت پہلے کی بات ہو گی۔ جب ہم زمان و مکاں سے
آزاد کسی آزاد وقت کی کسی خوبصورت سکون آور وادی میں رہتے قریب رہے ہوں گے۔
حامد یہ سب باتیں سوچ رہا تھا ۔ اُس کی سانولی سے محبت اس حد تک گہری ہو گئ
تھی کہ وہ تصور میں بھی اُس سے مل کر خوشی محسوس کرتا مگر جسم کی قید اور
مجبوریوں کا کیا کریں کہ پھر بھی اُس کا شدت سے انتظار کر رہا تھا ۔
اُسے دوسرے شہر اپنے گھر گئے بہت دن ہو چُکے تھے ۔ کوئ رابطہ نہیں ہو پایا
تھا ۔
بے قراری نے اضطراب کی شکل اختیار کر لی تھی۔
وہ کب آے گی؟
اُس کے دل کی آواز اور خیال کا ارتعاش سانولی کے دل تک پہنچ چُکا ہے
فون پر پیغام آ گیا
کہاں تھے؟
تمہارے خیالوں میں اور کہاں !
حامد نے جواب دیا
وہ لا شعور سے نکل کر شعور میں داخل ہو چکی تھی
اب وہ آواز کی صورت حامد کے سامنے آگئ
ہیلو
اور میں بھی اُس کا انتظار کر رہا ہوں جس کا مُجھے شدت سے انتظار ہے جس کے
بنا رہ نہیں سکتا ، وہ بھی میرے سامنے آ گئ
میری سانولی ۔۔۔۔
میرے پسند کی سانولی چاے میرے سامنے آ گئ۔
|