اﷲ تعا لیٰ نے انسان کو اشرف ا لمخلو قات کے در جہ سے سر
فراز فر مایا اور اس کی جان ومال، عزت و آبرو(عصمت،ناموس، پاک دامنی) کی
حفا ظت کے قوانین بھی بتا ئے اور فر مایا کی زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، امن
وسکون سے رہو،قرآن کریم اس کے لئے واضح حکم دے رہا ہے۔تر جمہ:بیشک جو اﷲ
اور اس کے رسول سے جنگ کرتے پھر تے ہیں(یعنی مسلما نوں میں خونریزی،رہزنی
اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مر تکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے
جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخا لف سمتوں سے
کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین میں ( چلنے پھر نے) سے دور یعنی قید یا ملک
بدر کردیئے جائیں کہ وہ اﷲ اور اس کے رسول سے لڑ تے ہیں اور ملک میں فساد
کرتے پھر تے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کر دیئے جا ئیں، یہ
دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے، مگر وہ
جنھوں نے تو بہ کر لی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لو کہ اﷲ
بخشنے والا مہر بان ہے ۔(القرآن،سورہ مائدہ۵،آیت ۳۳سے ۳۴)فساد فی الارض کی
تفصیل بہت لمبی ہے،چند اہم ملاحظہ فرمائیں،فساد فی الارض کو اﷲ رب ا لعزت
نے اﷲ ورسول سے جنگ قرار دیا ، یوں تو قر آن کریم میں چار جرم ایسے آتے ہیں
جو حدود(شرعی احکام کے مطابق سزا دینا) کے در جہ میں آتے ہیں وہ جرم ہیں،۱۔
زنا، ۲۔چوری، ۳۔ رہزنی(ڈکیتی)، ۴۔کسی پر بد چلنی کا بہتان لگا نا۔ یاد رہے
فساد فی الا رض کی جو سزا ئیں بیان ہوئی ہیں،وہ صرف ڈکیتی کے ساتھ خاص نہیں
ہیں، بلکہ ان سب مجرموں کے لیے ہیں جو قانون سے بغا وت کرتے ہیں لو گوں کی
جان، مال،عزت وآبرولوٹتے ہیں۔ چنا نچہ قتل، دہشت گردی، زنا، زنا با
لجبر(یاد رہے چاہے وہ نابالغ سے ہو یا بالغ سے ہو ، ز ور زبر دستی ہو یا
راضی بہ رضاسے ہو) چو ری، ڈاکہ بن جائے یا بد کاری(زنا) کو لوگ پیشہ بنا
لیں( جیسا کہ مو جودہ زمانہ میں عام ہو گیا ہے) یا کھلم کھلا اوبا شی پر
اتر آئیں یا اپنی آوارہ گردی جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت
وآبروکے لیے خطرہ بن جائے یا انسا نیت کے کا موں کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ
کھڑ ا ہو یا اغوا تخریب کاری،اور سنگین جرائم سے حکو مت اور عوام کے لیے
امن وامان کا مسئلہ پیدا کرے تو یہ سب فساد فی ا لارض زمرے میں آئے گا ،اور
مجرم کو جرم کی نو عیت پر قا ضی، یا عدالت اس میں جو سزا مناسب سمجھے وہ دے
سکتی ہے۔ خیال رہے موت کی سزا قتل اور فساد فی الا رض کی سزا قتل کے سوا
کسی اور جرم میں نہیں دی جاسکتی اﷲ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں
فر مایاہے،ان دو جرائم کو چھوڑ کر فرد ہو یا حکو مت، یہ حق کسی کو بھی نہیں
حاصل ہے کہ وہ کسی کے جان کے درپے ہو اور اسے قتل کرے جان کاری کے لیے
اسلامی کتب کا مطا لعہ فر مائیں۔
جرائم کی وبا:دور حاضر میں جرائم نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے ،دنیا
کا کو ئی خطہ جرائم سے محفوظ نہیں ہے۔ تمام ممالک، خواہ ترقی یافتہ ہوں، یا
ترقی پذ یر، یا پس ماندہ، جرائم کی لپیٹ میں ہیں جرا ئم کا دائرہ تمام
طبقات تک وسیع ہے۔ خود ہما را ملک ہندوستان بھی اس معا ملہ میں کسی سے
پیچھے نہیں ہے،حتی کہ سپریم کورٹ کے بھیجے آفیسروں کو بھی جان سے مار دیا
جارہا ہے، ہماچل پر دیس میں غیر قانونی ہو ٹلوں کو منہدم کر انے گئی خاتون
افسر شیر بالا کو گولی مار دی گئی اور وہ اسی وقت مر گئی سپریم کورٹ نے سخت
ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے شر مناک بتایا اور چیف جسٹس کے سامنے اس
واقعے کو پیش کیا ہے، جب اتنے بڑے افسروں کی جان کی حفاظت نہیں ہو پا رہی
ہے تو جرا ئم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ہما رے ملک کا شمار دنیا کے ان
چند گنے چنے ملکوں میں ہوررہا ہے۔جہاں جرائم کا گراف بہت اونچا ہے۔زنا با
لجبر کے معا ملات میں ہندوستان کا نمبر 7 واں ہے جوکہ انتہائی شرم اور
ارباب اقتدار وتمام با شندوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اگر اب بھی نہ سوچے اور
کچھ نہ کیا تو پھر اپنی ہی لگائی آگ میں جل کر بھسم ہو جائیں گے آنے والی
نسل و تاریخ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھیں، کو
ئی نیوز چینل کھولیں، دیکھ لیجئے ریپ (rape )بلا تکار اور بعد میں اس کو
مار دینا،قتل ، چوری، ڈکیتی، اغوا،اسمگلنگ،لوٹ کھسوٹ جنسی تشدد اور بڑی بڑی
کمپنیوں کے دھو کہ دہی کی رپو ٹو ں سے بھرا رہتا ہے ملک کے دانشوران اور
ارباب حل وعقد جرائم کی کمی کی تدا بیر ڈھونڈنے میں لگے ہیں، لیکن جرا ئم
کم ہو نے کے بجا ئے بڑھتے ہی جا رہے ہیں، یہ حالات تقا ضہ کر تے ہیں کہ
اسلام کے تعزیری قوانین کا تقابلی مطالعہ (comparing study ) کیا جا ئے اور
یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اسلامی قوانین جرا ئم کی کمی میں کس حد تک معا
ون ہیں، ان شا ء اﷲ اس کے بے شمار فوائد و نتا ئج ملیں گے اسلام کے ماننے
والوں اور اس کی تر جمانی کرنے والے علما ئے کرام پر بھی اس کی ذمہ داری
عائد ہو تی ہے کہ وہ ان قوانین کی اہمیت وافادیت کو بتائیں اور ان کے بارے
میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ اسلامی شریعت میں جو احکام
مسلما نوں کو اجتما عی یا انفرادی دیئے گئے ہیں ان کو اﷲ رب ا لعز ت نے مقر
ر فر مادیا ہے۔یہ سزائیں کیا ہیں؟ ان کی تفصیل بہت لمبی ہے ایک مقا لہ میں
سب کا ذکر ممکن نہیں ہے۔یہ تفصیل کا تقاضہ کر تی ہے، ابھی جو سب سے اہم
مسئلہ ہے کٹھوا کی 8 سالہ آصفہ کے ساتھ انتہائی درندگی کے ساتھ زنا کاری کے
بعد بے در دی کے ساتھ قتل اور انا ؤ کی لڑکی کے ساتھ بی جے پی ایم ایل اے
کلدیپ سنگھ سنگر کا ریپ کر نا اور بوڑھے باپ کو قتل کر دینا انتہا ئی
شرمناک واقعہ ہے جس سے پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنا می ہوئی ، جس کی وجہ
کر ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا سے آواز اٹھ رہی ہے کہ زانی کو پھا نسی کی
سزا دی جائے ہندو، مسلمان تمام مذاہب کے لوگ یہ مانگ کر رہے ہیں۔ خوشی کی
بات ہے ہما رے ملک میں اس کا قانون بھی بنا دیا گیا ہے، عوام کی زبر دست
مانگ سے مر کزی کا بینہ نے ایک آر ڈ ینینس صدر جمہوریہ ہند کو پیش کیا اس
کا مقصد تعزیرات ہند میں شا مل،CRPC ، EVIDENCE ACTاور POSCO ACT میں نظر
ثانی اور تر میم ہے۔اس کے مطابق اب ۱۲ سال کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی
پاداش میں سزائے موت کا نظم کیا جائے گا۔ مر کزی حکو مت کا یہ قدم
یقیناقابل قدر ہے، لیکن افسوس اس میں نابالغ لگا کر ایک دروازہ کھلا چھوڑ
دیاگیا ہے عام طور پر جوان عور توں سے بھی اس طرح کی گھنا ؤ نی حر کتیں
ہوتی رہتی ہیں،ہندو مسلم دنگا میں فسادی عور توں کی عزت لوٹتے ہیں،گجرات،
مظفر نگر یوپی وغیرہ میں کتنے ایسے شر مناک واقعات ہوئے ہیں جن کے کیس
عدالتوں میں چل رہے ہیں کب انصاف ملے گا’’ آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے؟‘‘
کیا ان ظا لموں کو پھانسی نہیں ہو نی چا ہیے، جنھوں نے حا ملہ عورت کی
اجتماعی عصمت دری کی، پیٹ پھاڑ بچے کو نیزہ میں لگا کر لہراتے رہے ان ظا
لموں کو بھی پھانسی ہونی چاہیے ان کو بھی قا نون کے دائرے میں لا نا
چاہیے۔آواز دو انصاف کو۔۔۔؟ (۱۲ سال نا با لغ کی قید لگا کر ادھو را قانون
بنا ہے) بہر حال دیر آئے درست آئے کچھ تو ہوا لیکن کیا اس کا فیصلہ فاسٹ
ٹریک کورٹ میں دو مہینے یا ۶ مہینے میں ممکن ہوسکے گا۔جہاں عام کیس میں
سالوں بلکہ آدھی زندگیاں بیت جانے کے بعد فیصلہ آتا ہے، کیس کی بھر مار اور
عد لیہ میں ججوں کی کمی کی وجہ سے کیا زانی کو سزائے موت پھانسی جلد ہونے
پائے گی، سیکڑوں مجرم پھانسی کے ابھی بھی جیلوں میں قید ہیں کئی سال ہو گئے
کسی کو پھانسی کی سزا نہیں ملی ہے،(یہ ایک الگ بحث وتوجہ طلب معاملہ ہے)بہر
حال زانی کو سزا ئے موت ہو زیادہ تر لوگ یہی چاہتے ہیں۔
اسلام میں زانی کی سزا اور اس کی حکمت:زنا ایک انتہائی شرمنا ک اور گھنا ؤ
نی حر کت ہے۔عزت وناموس جان سے زیادہ قیمتی چیز ہے، زانی اور زانیہ کنوار ے
ہوں یا شادی شدہ، زنا کی شرعی سزا وہی ہے جو قر آن مجید کی سورہ نور۲۴،آیت
۲ و۳ میں بیان ہوئی ہے،تر جمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مردتو ان میں ہر
ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمھیں ان پر ترس نہ آئے اﷲ کے دین میں اگر تم
ایمان لاتے ہو اﷲ اور پچھلے دن پر اور چا ہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں
کا گروہ حاضر ہو۔(کنزا لا یمان)حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے
میں حمدو ثنا کے بعد فر مایا کہ لو گو اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق کے
ساتھ بھیجا اور آپ پر اپنی کتاب نا زل فر مائی اس کتاب اﷲ میں رجم( پتھر
مار مار کر مار نے) کے حکم کی آیت ہے جسے ہم نے تلاوت کیا اور اس پر عمل
بھی کیا۔ خود حضور ﷺ کے زمانے میں رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے بعد رجم
کیا مجھے ڈر لگتاہے کہ کچھ زمانہ گزر نے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم
رجم کو کتاب اﷲ میں نہیں پاتے، ایسا نہ ہوکہ وہ اﷲ کے اس فریضے کو جسے اﷲ
تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں اتا را ہے چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں۔ (
مسلم،حدیث۴۴۱۸) کتاب اﷲ میں رجم کا مطلق حکم ہے اس پر جو زنا کرے،آج وہی
زمانہ بلکہ اس سے بدتر زمانہ آ گیا ہے جس کی نشاندہی ایک جلیل القدر صحا بی
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فر مائی تھی آج اسلا می سزا کو انسانوں پر ظلم بتا
یا جا رہا ہے اور نا م نہاد دانشور بھی اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں فہرست
لمبی ہے اﷲ ان گمراہوں کو ہدایت نصیب فر مائے۔ زنا کی کثرت علامات قیا مت
میں سے ہے، حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے
فرمایا: علا مات قیا مت میں سے یہ ہے کہ(دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی
جہل ظاہر ہو جائے گا۔(علانیہ) شراب پی جا ئے گی اور زنا پھیل جائے
گا(بخاری،باب علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں ،حدیث ۸۰)۔
مخبرصادق ﷺ کی د ونوں باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں زنا عام ہو گیا شراب مسلم
بستیوں میں عام طور پر پوچ میں بک رہی ہے اور قوم کا نوجوان اپنا مستقبل بر
باد کر ہا ہے اور جاہل اسٹیجی مقرر بھی غیر ذمہ دارانہ بیان کر کے عوام کو
گمراہ کرر ہے ہیں۔ نبی ﷺ نے اپنے زمانے میں زنا کے بعض مجرموں کو رجم،یعنی
سنگ ساری کی سزا دی۔یاد رہے زنا کی سزا کے لیے چار گواہوں کی جو شرط قرآن
مجید میں بیان ہوئی ہے، وہ زنا بالر ضا کے لیے ہے( یعنی دونوں کی رضا سے
حرام کاری کر نا، جسے آج کورٹ زنا ہی نہیں مانتا) اس کا اطلاق زنا با لجبر
پر نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اگر کوئی عورت اپنے خلاف زنا کی شکایت لے کر
آتی ہے تو وہ قاذف (تہمت لگانے والی) نہیں، بلکہ فر یادی ہے ۔ قانون اس کا
پا بند ہے کہ اس کی فر یاد سنے اور جس شخص پر الزام لگا یا گیا ہے، اس کا
جرم جس طریقے سے بھی ثا بت ہو جا ئے،(جیسے آجکل ڈی این اے ٹسٹ وغیرہ) اسکو
اس بر بر یت گھنا ؤ نے جرم کی سزا ضرور دی جائے۔ جدید زما نے میں زانی کو
پتہ لگانے کے بہت سے معتبر طریقے موجود ہیں جیسے نار کو ٹسٹ وغیرہ وغیرہ جو
فا رنسک رپورٹ میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی کا پتہ دے دیتی ہے اگر ایمان
داری سے کیا جائے، جیسے کٹھوا آصفہ کے کیس میں جموں کشمیر کی فارنسک لیب نے
گول مول کر دیا تھا لیکن ایماندا رپولیس آفیسر نے رپورٹ دہلی بھیج دی اور
دہلی کی فارنسک لیب نے ۱۱؍ پیج کی رپورٹ میں سبھی مجرموں کی نشاندہی کر دی
اور یہ کیس کی اہم کڑی ثابت ہوئی( بھلا ہو دہلی کے ایمان دارڈاکٹروں و لیب
کے ذمہ داروں کا) آگے دیکھئے کیا ہو تا ہے دعا کریں اﷲ ظالموں کی پکڑ فر
مائے۔ جو لوگ ا سلا می سزا ؤں کو ظالما نہ،وحشیانہ،غیر انسانی طریقہ بتا تے
ہیں ان کا اسلا می تعلیم سے دور دور تک واسطہ نہیں اسلامی تعلیمات کا
مطالعہ نہیں، وہ صرف اسلام سے بغض و عناد کی وجہ سے اسلام کو بدنام کرتے
ہیں۔ وہ ذرا اپنے گر یبا نوں میں جھانکیں وہ کتنا غیر انسانی اور وحشیانہ
بر تا ؤ انسانوں پر کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں ،نا گا ساکی،ہیرو شیما پر
بمبا ری کر کے لا کھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا چکے ہیں اور لاکھوں آج
بھی کراہ رہے ہیں آج لیبیا ، عراق ، شام ، افغا نستان، قندوز ، غوطہ وغیرہ
کے دلدوز مناظر ان کو نہیں دکھا ئی پڑتے اندھے ہیں کیا ؟یہ صرف اسلام دشمنی
و مسلمان دشمنی ہے۔ اسلا می سزا ؤں میں حالات وکوائف کا بڑا خیال واحترام
کیا جا تاہے قاضی اس بات کا خیال رکھتا ہے جرم کی نوعیت اور مجرم کی صورت
حال کیا ہے وغیرہ وغیرہ خود حضور ﷺ کے زمانہ میں اورصحا بہ کے زمانہ میں
کئی واقعات بڑے دلچسپ ہیں ضرورت ہے اسلا می لٹریچر کے اسٹڈی کر نے کی․․․․․․․کہ
شاید اتر جائے تیرے دل میں میری بات اے ساقی ۔۔؟ ایک حدیث مطالعہ فر مائیں:
نبی رحمت ﷺ نے فر مایا کہ: قحط سالی کے زمانے میں چو روں کے ہاتھ نہیں کاٹے
جائیں ، چنا نچہ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے مر وی ہے’’لا قطع فی زمن
المجاع‘‘ قحط سالی کے زمانے میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔(کنز ا لعمال
:ج،۳ص،۷۹) اس حدیث کی بنیاد پرحضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے زمانہ قحط سالی میں
یہ سزا موقوف فر مادی۔ اسلام نے سزاؤں پر شہادت کا ضابطہ بڑا سخت اور مضبوط
بنا یا ہے یہ دنیا وی کورٹ نہیں ہے جس میں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر جھوٹھی
گواہیاں دے کر دلاکر گواہوں کو ڈرا کر دھمکا کر دولت مند لوگ اور دبنگ مجرم
اپنے کو قا نو نی پکڑ سے بچا لیتے ہیں آپ دن رات دیکھ رہے ہیں چا ہے وہ امت
شاہ ہوں ،اسیما نند جی ہوں، دیس کے سب سے بڑے عہدہ پر فائز ہوں، مکہ مسجد
بم بلاسٹ کے مجرم ہوں ، سادھوی پرا چی ہوں، ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر
اعلیٰ یو گی جی جن کے اوپر ۳۶ سنگین جرم کے الزام لگے ہیں اور وہ وزیر اعلیٰ
بنے ہوئے ہیں ۱۵۰ سے زیادہ ار کان پار لیمنٹ کے اوپر سنگین الزامات ہیں مگر
وہ سر کاری خزانے پر عیش کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ دنیا کی عدالتوں میں تو
چل جا رہا ہے لیکن اﷲ کے یہاں ممکن نہیں۔اﷲ رب ا لعزت قادر مطلق ہے سب کی
پکڑ کی قوت رکھتا ہے وہاں کسی پر بال کی نوک کے برابر ظلم نہیں ہو
گا۔وَلَایُظْلَمُوْنَ فَتِیْلَاً (القر آن، سورہ نساء۴،آیت۴۹) تر جمہ: اور
ان پر ایک دھا گہ کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اﷲ کے یہاں سب کے
ساتھ برابر کا انصاف ہو گازنا انتہائی برا کام ہے۔زنانہ صرف مذ ہبی طور پر
بری چیز ہے بلکہ سماجی طور پر بھی انتہائی غلیظ مانا جاتاہے،اس کے باوجود
اتنے زیادہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں اس کے جو عوامل ہیں ان سے بھی عوام کو
دور کر نے کی ضروت ہے،اسلام اس کی پہلی سیڑھی سے ہی روک لگا تا ہے ارشاد
باری تعالیٰ ہے۔تر جمہ:اور تم زنا(بد کاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے
حیائی کا کام ہے،اور بہت بری راہ ہے۔(القر آن،سورہ بنی اسرا ئیل۱۷،آیت۳۲)
بے حیا ئی ،فیشن کے نام پر ننگاپن ، ادھ ننگے جسم کے ساتھ آزادا نہ گھو منا
پھر نا،اخبارات سے لیکر ٹی وی تک اور اب تو ساری کسر موبائل نے پوری کردی
ہے گندی تصویریں، فحش گانے، جنسی ہیجان پیدا کر نے والی فلمیں،اس طرح کے
عوامل سے انسانی دل و دماغ شہوت زدہ ہوجاتا ہے اور انسا نی عقل پر پردہ پڑ
جاتاہے۔ پھر انسان وہ کر بیٹھتا ہے جو اس کے اور سماج دو نوں کے لیے شرم کا
باعث ہو تا ہے،تصوف کے امام حضرت امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ فر ماتے
ہیں،انسانی عقل کی نافر مان چیزوں میں غصہ سے بھی زیادہ نا فرمان شہوتSEX
ہے جب انسان شہوت زدہ ہو جاتا ہے تو کچھ نہیں سمجھ میں آتا ہے جا نوروں سے
بھی زیادہ بد تر ہو جاتا اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کیسے کیسے ذلیل و دل ہلا
دینے والے واقعات ہورہے ہیں،آٹھ سالہ بچی آصفہ جب مر گئی اس کے بعد بھی ۶۵
سالہ بڈھے نے اس مری ہو ئی بچی سے ریپ کیا اس سے زیادہ شرم اور گری ہو ئی
اور کیا بات ہو سکتی ہے،اسکے بعد جان سے مار دینا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔
اسی لئے کلا م الٰہی میں زناکے مجرموں کی سزا ’’رجم‘‘ (موت) اور قتل کے
بدلے ،قتل کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ان سزا ؤں کا مقصد محض جرم کا خاتمہ ہی
نہیں کر نا ہے بلکہ دوسروں کے لیے عبرت ناک ( نصیحت،خوف،سبق حاصل کرنا )بنانا
ہے تا کہ دوسرے بھی دیکھ کر ڈریں ۔موجودہ صورتحال اس بات کا تقا ضہ کرتی ہے
کہ اسلام کے تعزیری قوا نین(قوا نین کا وہ مجموعہ جس میں جرائم کی تعریف
اور ان کی سزاؤں کا مفصل بیان ہو)PENAL CODE کا مطالعہ کیا جائے اور لو گوں
کو بتا یا جائے کہ اسلامی قوانین جو کہ حقیقت میں خدائی قوانین ہیں اس سے
جرائم کو کم کر نے میں بہت مدد ملے گی، اسلام کے علم بر داروں خصوصاً علماے
کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی قوانین کی اہمیت و معنو یت
کوبتائیں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں۔
اسلامی قوانین آزمودہ ہیں، لمبے عرصے سے یہ ایک خطۂ زمین میں نافذ رہے ہیں
اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ سماج میں ان کے اثرات کتنے بہتر رہے ہیں کیسا
امن و امان کا دور رہا ہے۔حضرت عدی بن حاکم رضی اﷲ عنہ جو ۹ھ میں مشرف بہ
اسلام ہوئے، فر ماتے ہیں کہ ایک مو قع پر اﷲ کے رسول ﷺ نے انھیں مخا طب کر
کے فر مایا:’’ اے عدی، اگر تم کچھ عرصہ مزید زندہ رہے تو ضرور دیکھ لو گے
کہ ایک عورت’’حیرہ‘‘ سے سفر کر کے مکہ پہنچے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے
گی، پورے سفر میں اسے اﷲ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہو گا‘‘ حضرت عدی بیان
کرتے ہیں کہ رسو ل اﷲ ﷺ کی اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے میں اپنی آنکھوں
سے دیکھ چکا ہوں۔( صحیح بخاری، کتاب ا لمنا قب، باب علاما ت النبوۃ فی ا
لاسلام،حدیث۳۵۹۵) اﷲ سے دعا ہے اﷲ ہم سب کو اسلامی قوانین کے جاننے اور اس
پر عمل کی توفیق دے اور زنا جیسے موذی گناہ سے بچنے کی توفیق دے آمین ،۔
ہم پر ورش لوح و قلم کر تے رہیں گے ٭ جو دل پہ گزر تی ہے رقم کرتے رہیں
گے
ہاں تلخی ایام اور بھی بڑھے گی ٭ ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ ٭ دم ہے تو مداوء علم کرتے رہیں گے
کھلی فضا میں چلوں اور سر اٹھا ئے رکھوں ٭ مجھے بھی حق ہے کہ میں اختلاف
رائے رکھوں
انھیں کے سر قلم ہو تے ہیں جن کے ہا تھوں میں قلم ہوتا ہے،انھیں کی زبان
کٹتی ہے جو منھ میں زبان رکھتے ہیں اور انھیں کے ہاتھ تراشے جاتے ہیں جن کے
پاس دست ہنر ہو تاہے۔ ہم پر ورش لوح وقلم کرتے رہیں گے۔ ان شاء اﷲ |