مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے سال2018میں پروفیسرز،پی
ایچ ڈی سکالرز ،اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں اور دس خواتین سمیت416بے گناہ
کشمیریوں کو شہید کیا۔75خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔605رہائشی مکانات تباہ
کئے اور پرامن کشمیری مظاہرین پر پیلٹ گن کی فائرنگ سے 1302افراد کی بینائی
متاثر ہوئی۔ حریت رہنماؤں، کارکنوں ، طلباء ، نوجوانوں اور خواتین سمیت
2ہزار456 شہریوں کو گرفتارکیا گیا۔حریت رہنماؤں سید علی گیلانی، میرواعظ
عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کیلئے آنے والا ہر
سال پہلے سے زیادہ لہورنگ ہوتا ہے۔ 4 جنوری جمعہ کو یوم التقدس کے طور پر
منایا جائے گا اور اجتماعی طور جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ ادا کرکیا
جائے گا۔ قابض بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیرمیں گزشتہ ایک بر س میں اعلی
تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی بڑی تعداد میں شہید کیا۔بھارتی فوج نے مقبوضہ
کشمیر میں تلاشی اور محاصرے کے نام پر تین ہزار کے لگ بھگ کاروائیاں کیں۔جن
میں 416کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔شہداء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ ،
ڈاکٹر منان بشیر وانی ، ڈاکٹر سبزار احمد صوفی ، ڈاکٹر اعجاز الدین خان ،
ڈاکٹر عبدالاحد گنائی،ایم فل کے طالب علم فیاض ملک ، ایم فل کے طلبا جاوید
ملک ،مسیح اﷲ خان ، الطاف ملک ، جان محمد ، رفیع اﷲ ہنگر، پی ایچ ڈی سکالر
طالب افضل شاہ ،ایم ایس سی فزکس عمر احسن ، ایم اے انگلش عاشق حسین ڈار،
ایم نفسیات محمد یونس، ایم اردو نوازاحمد وگے ، ایم اے سلامیات سجاد یوسف،
ایم بی اے اشفاق احمد وانی ، انجینئرنگ گریجویٹس محمد عیسی فاضلی، سید اویس
شفیع شاہ، بی ٹیک کے طلباء خورشید احمد ملک ، مزمل منظور ، نعیم احمدمیر
اور آصف احمدملک جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہیں۔شہداء میں حریت
رہنماء میر حفیظ اﷲ، طارق احمد گنائی ، محمد یوسف راتھر المعروف یوسف ندیم
اور حکیم الرحمان سلطانی بھی شامل ہیں جبکہ ان میں سے 21کشمیریوں کو حراست
کے دوران شہید کیاگیا۔ ان شہادتوں کی وجہ سے 34خواتین بیوہ اور78بچے یتیم
ہوئے جبکہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے اس دوران 75خواتین کی بے حرمتیاں
کیں۔ اس عرصے کے دوران بھارتی فورسز نے 605رہائشی مکان تباہ کئے جبکہ پر
امن مظاہرین پر پیلٹ گن کی فائرنگ سے ایک ہزار302افراد کی بینائی متاثر
ہوئی۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے پرامن مظاہرین کے خلاف
گولیوں،پیلٹ گن ، پاواشیلوں اور آنسو گیس سمیت طاقت کا وحشیانہ استعمال
کرکے اورگھروں پر چھاپوں اور کریک ڈاؤنز کی کارروائیوں کے دوران18ماہ کی
شیر خوار بچی حبہ جان سمیت3ہزار688شہریوں کو زخمی کیا۔ اس سال حریت کارکنوں
، طلباء ، نوجوانوں اور خواتین سمیت 2ہزار456 شہریوں کو گرفتارکرلیا۔ حریت
رہنماؤں شبیر احمد شاہ ، نعیم احمدخان ،دختران ملت کی چیئر پرسن سیدہ آسیہ
اندرابی ، فہمیدہ صوفی ، ناہیدہ نسرین ، الطاف احمد شاہ ،ایاز محمد اکبر ،
پیر سیف اﷲ ، راجہ معراج الدین کلوال ، شاہد الاسلام ، فاروق احمد ڈار ،
محمد اسلم وانی ، کشمیری تاجر ظہور وٹالی ، سید شاہد شاہ اور غلام محمد بٹ
کو جھوٹے مقدمات میں نئی دلی کی تہاڑ جیل میں مسلسل نظربند رکھا گیا۔حریت
رہنماؤں مسرت عالم بٹ ، غلام محمدخان سوپوری، مشتاق الاسلام ، مولانا
برکاتی ، محمد یوسف میر ، فاروق احمد توحیدی ، محمد یوسف فلاحی، حکیم
عبدالرشید،گلزاراحمد گلزار، نثار حسین راتھر، عمر عادل ڈار، حکیم شوکت ،
معراج نندا، ظہور احمد ، سراج الدین ، شکیل احمد بخشی ، محمد امین منگلو،
عبدالغنی بٹ، غلام محی الدین پیر ، اسد اﷲ پرے، فیروز احمدخان اوردیگر سمیت
پانچ سو سے زائد افراد کوکالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقبوضہ کشمیر
اور بھارت کے مختلف جیلوں میں نظربند رکھا گیا۔ حریت رہنماؤں سید علی
گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے کہا ہے کہ کشمیری قوم
گزشتہ 7دہائیوں سے ایک بڑی فوجی طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہے اور اپنی آزادی
کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے
جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بارے میں حالیہ رپورٹ کا
سنجیدگی سے نوٹس لیناچاہیے اور تنازعہ کشمیرکو عالمی ادارے کی قراردادوں کے
مطابق حل کرنے کیلئے اپناکردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیاء کے خطے
میں پائیدار امن و استحکام قائم ہو سکے۔ منفی 8 ڈگری کی ٹھٹھرتی سرد راتوں
میں ضعیف بزرگوں، معصوم بچوں اور خواتین کو رات کے اندھیرے میں کھلے آسمان
تلے رہنے پر مجبور کرکے ظلم اور جبر کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں، پوری
ریاست اور جنوبی کشمیر کو خاص طورپر انتقامی کارروائیوں اور درندگی کا
نشانہ بنایا گیا۔ اس سفاکیت پر بھارتی فوج جشن مناکر ایک دوسرے کو مبارکباد
دیتے ہیں کیونکہ بھارت نے انہیں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دے
رکھی ہے۔ہماچل پردیش میں گائے کشی کے الزام میں بھارتی ہندو انتہا پسندوں
نے کشمیری تاجروں پر حملہ کیا اور ان کی دکانیں لوٹ لیں اور انہیں ہماچل
پردیش چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہماچل پردیش پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف
کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جس کے نتیجے میں کشمیری تاجر، مزدور غیر
محفوظ ہو گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماچل پردیش کے شملہ کے روڈو علاقے میں افواہ
پھیلائی گئی کہ کشمیریوں نے گائے ذبح کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سینکڑوں بھارتی
ہندو انتہا پسندوں نے تین کشمیری تاجروں کی دکانوں کو لوٹا اور تین کو بڑے
پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ تاجروں کے مطابق ہماچل پردیش کی پولیس مظاہرین کے
ساتھ رہی تاہم انہوں نے کشمیری تاجروں کے دکانوں کو بچانے کیلئے کوئی بھی
کارروائی عمل میں نہیں لائی اور نہ ہی حملہ آوروں کے خلاف کیس درج کیا۔
کشمیری تاجروں نے بتایا کہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔ کشمیری
تاجروں کے مطابق انہوں نے ہماچل پردیش اور شملہ کی انتظامیہ کو کئی بار
آگاہ بھی کیا کہ جن لوگوں نے ان کی دکانوں کو لوٹا۔ ان کے خلاف کارروائی
عمل میں لائی جائے اور کشمیری تاجروں، مزدوروں اور طلبا کو تحفظ فراہم کرنے
کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاہم ہماچل پردیش انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی
کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق
ممبرپارلیمنٹ اوربااثرسکھ لیڈرسمرنجیت سنگھ مان کو مقبوضہ کشمیر آنے سے روک
دیا گیا۔وہ کشمیری عوام اور حریت رہنماؤں کے ساتھ ملاقات اور یکجہتی کے لئے
سرینگر آ رہے تھے۔ضلع مجسٹریٹ رام بن نے انہیں رام بن سے واپس بھیج دیا۔ جب
سمرنجیت سنگھ مان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رام بن پہنچے توپولیس نے انہیں
وہاں روک لیا اور کہا کہ وہ کشمیر نہیں جا سکتے ۔اس ضمن میں ایک آرڈر جاری
کیا گیا ہے جس میں پولیس کو کہا گیا ہے کہ سمرنجیت سنگھ مان اوراْنکے
ساتھیوں کوکشمیرجانے سے کیونکہ وہاں امن وقانون کی صورتحال بگڑسکتی ہے ۔ضلع
مجسٹریٹ کے جاری کردہ حکمنامہ میں لکھاہے کہ سمرنجیت سنگھ مان کوسی آرپی سی
144کے تحت رام بن میں ہی روک کرواپس پنجاب بھیج دیاجائے۔ سمرنجیت سنگھ مان
کے کشمیرآنے کا مقصد تشدد اورزیادتیوں کے شکارعام شہریوں اور بھارتی فوج کی
جانب سے قتل کئے گئے شہریوں کے غمزدہ اہل خانہ کیساتھ یکجہتی
کااظہارکرناتھا۔ رام بن روکے جانے پر سمرنجیت سنگھ مان نے کہاکہ کشمیریوں
کی جدوجہد ہراعتبار سے برحق اورجائزہے۔ سکھ برادری کشمیریوں کی حمایت کرتی
ہے۔ کشمیرایک بڑاجیل خانہ ہے کیونکہ اس چھوٹے سے خطے میں جتنی فوج
اورفورسزکوتعینات کیاگیاہے ،اْتنی فوج دنیاکے کسی بھی علاقے میں تعینات
نہیں ہے۔ کشمیریوں کی مبنی برحق جدوجہدکوطاقت کے بل پردباناممکن نہیں ہے ،اوریہ
کہ کالے قوانین ،ظلم وزیادتیوں اورسختیوں سے کسی قوم کوہمیشہ کیلئے
دباکرنہیں رکھاجاسکتاہے۔ |