مرکزی حکومت کے ذریعے تین طلاق کابل پاس کرناکسی بھی طرح
سے مفیدواچھانہیں ہے،نہ ملکی اعتبارسے ،نہ شرعی اعتبارسے۔یہ سراسرغلط
ہے،مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے۔یہ دستورہند، اورمسلم خواتین کے حقوق کے
خلاف ہے۔یہ بل غیرجمہوری اورمذہبی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔ہندوستان
ایک جمہوری ملک ہے،اس کے اندررہنے والے ہرفردکواپنے مذہب کے مطابق زندگی
گزارنے کامکمل حق ہے۔اس کے خلاف اگرکوئی قانون بنتاہے تویہ کافی تکلیف ودکھ
کی بات ہے،یہ ہمارے اسلام وشریعت پرحملہ ہے،بلکہ ہندوستانی آئین پرحملہ
ہے۔اس سے قبل ہندوستان کی عوام اطمینان وسکو ن کے ساتھ زندگی بسرکررہے
تھے۔اس مسئلہ کوکچھ فرقہ پرست اوراسلام دشمن عناصرطبقہ نے اُٹھاکریہاں کے
اقلیتی طبقہ کوبے چینی وبے قراری میں ڈال دیاہے۔یہ اختلاف وتفریق کاسبب
ہے،اس سے ملک کے اتحادوسالمیت کوخطرہ ہے ۔حکومت ہندسے ہم گزارش کرتے ہیں کہ
اس پرنظرثانی کرے۔تین طلاق دینے کی کئی صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ ایک ہی مجلس
میں تین طلاق دے۔دوسرے یہ کہ یک بارگی نہیں بلکہ تین طہرمیں یکے بعددیگرے
تین طلاق دے۔ایک مجلس میں اگرچہ تین طلاق دیناشرعاً مکروہ وممنوع ہے،لیکن
دینے سے ضرورپڑجاتی ہے اوریقینا پڑجائے گی۔یہ اسلام کاحتمی فیصلہ ہے،جس
پر1440سال سے عمل درآمدہورہاہے۔اب اگرکوئی اسے طلاق نہیں مانتایاایک ہی
مانتاہے تویہ اس کی ذاتی رائے وخیال ہوگا،قرآن وحدیث کافیصلہ اس کے خلاف
ہے۔مسلمانوں کی عدالتیں ایسوں کوقبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہے۔تین طہرمیں
تین طلاق دیناکسی طرح بدعت ومکروہ نہیں۔بلکہ سنت ہے اورطلاقِ احسن کے
مقابلے میں حسن ہے۔جیساکہ ہدایہ وغیرہ میں اس کی صراحت موجودہے۔اب اس بل کے
پاس ہونے پردادوتحسین سے نوازنے والے یہ بتائیں کہ طلاق سنت وحسن کوبھی
شامل کیاہے یانہیں؟اگرنہیں تودرِپردہ شامل کرنے کاارادہ ہے یانہیں؟اس طرح
کے بل کوپاس کرنایااس کی حمایت کرنااسلام اورآئین ہندکے خلاف ہے
یانہیں؟حمیت وغیرت رکھنے والاہرفردبشراسے مداخلت سمجھ رہاہے،ملک وملت کے
لئے اسے نقصان قراردے رہاہے۔
یہ بل دستورہندمیں دی گئی مذہبی آزادی سے متصادم ہے۔مرکزی حکومت کااس بل سے
مقصدسیاسی فائدہ حاصل کرناہے۔نیزطلاق ثلاثہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے
کے بھی خلاف ہے،جس میں سپریم کورٹ کے ذریعے تین طلاق کوبے اثرقراردے
دیاگیاہے۔اس بل کے ذریعے مسلم سماج میں انتشار،برادروطن اورمسلمانوں کے
درمیان بدگمانیاں پیداکرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔طلاق ثلاثہ بل کوبہانہ
بناکربراہ راست اسلامی شریعت کونشانہ بنایاگیاہے۔تین طلاق کاقانون تحفظ کے
نام پرمسلمانوں کوتباہ کرنے کاایک اہم ترین ذریعہ ہے ۔یہ صرف تین طلاق
کامسئلہ نہیں یہ توپہلی کوشش ہے،بلکہ یہ یونیفارم سول کوڈکی جانب پہلاقدم
ہے۔اس بل کے ذریعے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔اس بل کولانے
کامقصدمطلقہ خواتین کے حقوق کاتحفظ بتایاگیا،لیکن جب سپریم کورٹ نے ماناکہ
غصہ کی حالت میں طلاق کااستعمال صحیح نہیں ہورہاہے بلکہ یہ ایک قسم کی مسلم
خواتین پرزیادتی ہے،حکمراں پارٹی بھی عجیب ہے کہ جب عدالت عظمیٰ نے طلاق
ثلاثہ کو طلاق واردہوناماناہی نہیں توپھرسزادینے کاکیامطلب ہے؟۔اگرایک ساتھ
تین طلاق تسلیم کی جائیں تب تومردکوسزادینے کاجوازبرسبیل تنزل صحیح بھی
ہے۔عدالت کہتی ہے کہ تین طلاق ایک ساتھ دینے سے واقع نہیں ہوگی،اورحکومت
ایسے مردکوسزادے رہی ہے ،توپھرتین سال تک بال بچوں کے قیام
وطعام(پرورش)کاخیال کون رکھے گا، وہ عورت اپنے بچوں کی کفالت اورتعلیم
وتربیت کس طورسے کرے گی۔کیایہی عورت اوربچوں کے ساتھ ہمدردی ہے؟تین طلاق
مردنے جب دے دیاتوشرعاً اس عورت پرتین طلاق پڑگئیں،عورت شوہرکے نکاح سے نکل
گئی،اس کے بعداسے اس مردکے ساتھ رہنے پرخدائی قانون کوچھوڑکراپنے بنائے
ہوئے قانون نے ایک مان کراسے رکھنے کافیصلہ دے دیا۔ظاہرہے ایک غیرت
مندمسلمان اسے قہراً وجبراً اپنے پاس رکھ بھی لیاتواسے بہت سے حقوق زوجیت
سے محروم رکھے گا۔کیایہ عورتوں پرظلم نہیں ہے ؟کیاصرف کھانا،خرچہ دیناحقوق
زوجیت ہے؟وہ عورتیں حقوق زوجیت سے محروم رہنے کے سبب یاتوخودکشی کرے گی
یاگھٹ گھٹ کرمرے گی یاظالم وجابرشوہراسے قتل کردے گااورراہِ فراراختیارکرلے
گا،اس طرح امن وامان اٹھ جائے گا،چین وسکون کاجنازہ نکل جائے گا۔یامردبے
غیرت ثابت ہواتوزندگی بھرزنااورگناہ کاارتکاب کرتارہے گا۔حرامی بچے
پیداہوکرننگِ قوم بنتے رہیں گے۔
مردکوجیل بھیجنے کے بعدحکومت نے ایسے گھروں کے لئے کیاانتظام کیاہے؟،اس
صورت حال میں اب اگرعورت اپنے مردکے ساتھ رہنانہیں چاہتی تووہ توپولس میں
فوراًیہ شکایت کردے گی کہ میرے مردنے مجھے ایک ساتھ تین طلاق دے دیا،ایسے
حالات میں مردوں کے لئے بڑی مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔حکمراں جماعت کوچاہئے
تھاکہ طلاق ثلاثہ کوبرقراررکھتی اورپھرمردکوسزاکامستحق قراردیتی،اب کیابات
ہوئی کہ سپریم کورٹ کے مطابق طلاق واقع بھی نہ ہوئی ،اوربے چارے
مردکوسزابھی ہوگئی،اب اگرکسی وجہ سے عورت مردکے ساتھ زندگی گزارنانہیں
چاہتی اورمردطلاق دینانہیں چاہتاتواس صورت میں عورت اپنے مردکومقدمہ کاخوف
دیکھاکرطلاق لے لیگی۔دوسری بات یہ ہے کہ مردتین سال کی سزاکاٹنے کے بعدکیا
اس عورت سے پیارومحبت سے پیش آئے گا؟تعلقات بحال رکھے گا۔آئے دن
دیکھااورسناجاتاہے کہ مقدمہ اورسزاکے بعدتعلقات بحال نہیں رہتے ،انتقامی
جذبہ موجزن ہوجاتاہے،دلی نفرت بڑھ جاتی ہے اورکوئی نہ کوئی حادثہ سامنے
آجاتاہے۔بلاشبہ اس طرح کادروازہ کھولناکئی فتنوں کوجنم دیتاہے۔اس معاملے
میں بیرسٹراورحیدرآبادسے ایم پی عالیجناب اسدالدین اویسی صاحب قابل مبارک
بادہیں کہ اسلام اورملک کے وفادارہونے کی حیثیت سے سینہ سپررہے اورحق گوئی
اوربے باکی سے کام لیتے ہوئے مخالفین کودنداں شکن جواب دیا۔
اس سے قبل بھی حکومتوں نے کئی دفعات(ایکٹ)بنائے جیسے بچوں کاجنسی استحصال
ایکٹ،جہیزایکٹ،مادرشکم میں بچوں کاقتل ایکٹ،آج اگرایک سرسری نظرڈالی جائے
توپتہ چلتاہے کہ اس ملک میں مردوں کے مقابلے عورتوں کی تعدادمسلسل گھٹ رہی
ہے ،اس معاملہ میں مرکزی حکومت کتنی سنجیدہ ہے؟کہیں نہ کہیں تواس ایکٹ کی
دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ،مادرشکم میں قتل کامعاملہ صفرکے برابرشاید'تھانوں
میں درج ہوتے ہیں،آخرایساکیوں؟خواتینوں کی تعدادگھٹ رہی ہے اورحکمراں جماعت
خاموش تماشہ بنی ہوئی ہے،کیا موجودہ حکومت کوصرف مسلم خواتین سے ہی ہمدردی
ہے ؟اوردھرموں کے خواتینوں سے کیوں نہیں؟آج ملک کی عدالتوں میں سب سے زیادہ
اکثریتی طبقہ کی عورتوں کے طلاق کے مسائل زیربحث ہیں،مذہب اسلام توایک مکمل
نظام حیات ہے،زندگی کے ہرشعبہ کاحل اس میں موجودہے،اسلامی معاشرہ تودرس
دیتاہے توحید،رسالت ،عدل ومساوات،اخوت،بھائی
چارگی،ایثار،قربانی،سادگی،متانت وسنجیدگی،طہارت وپاکیزگی،سیرت واخلاق
اورنیکی کی تلقین کا۔اسلامی معاشرے کاافرادایک دوسرے کے لئے بڑی سے بڑی
قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے حق کی ادائے گی میں کالے،گورے،عربی
،عجمی،امیر،غریب،چھوٹے،بڑے میں کوئی تفریق وامتیازنہیں برتاگیا۔مگراورمذاہب
میں زندگی کے کسی بھی شعبہ کاتوکوئی طریقہ اوراصول ہی نہیں ،جن کے یہاں
کوئی طلاق کاطریقہ ہی نہیں اس قوم کی عورتوں کی فکرپہلے ضروری ہے؟۔اس بل
میں تین طلاق کوکریمنل ایکٹ کے دفعہ میں رکھاگیاہے۔جس کی وجہ سے بہت سے
مسائل پیداہوں گے۔آج مسلمانوں سے بڑھ کرہندوسماج کی عورتیں اپنے شوہروں کے
ظلم وستم کی شکارہیں،56ماہ کی نریندرمودی حکومت تمام شعبوں میں ناکام
ہوکرعوام کی ناراضگی کاشکارہے،اس سے توجہ ہٹانے کے لئے تین طلاق کے مسئلے
کواچھالاگیا۔اس طرح یہ مسئلہ صرف تین طلاق کانہیں بلکہ یہ بہت سے مسائل
کاپیش خیمہ ہے۔آئندہ پیش آنے والے مسائل کوروکنے کے لئے آپسی اتحادبنانے کی
اشدضرورت ہے۔
برسراقتداربی جے پی حکومت کومسلم خواتین کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں، بلکہ وہ
صرف آرایس ایس کی شاباشی حاصل کرنے کے لئے طلاق ثلاثہ بل کوغیرضروری عجلت
میں منظورکیاہے۔حکمراں جماعت (بی جے پی)نے اپنے 56 ماہ دور ِاقتدارمیں ملک
یاملک کے باشندوں کے لئے ایساکونساکام کیاہے جوتاریخ کے سنہرے لفظوں میں
لکھاجائے،دیش میں بڑھتی مہنگائی ،بدعنوانی،بے روزگاری،سرحدپرجوانوں کی
بڑھتی لاشیں،ان سب پرپردہ ڈالنے کے لئے یہ سب شوشہ بازی ہورہی ہے۔ہمارے ملک
کے وہ اکثریتی طبقہ جوصرف اس بات سے خوش ہیں کہ مسلمانوں کی ایک شرعی
جزکوناکام بنادیاگیا،وہ لوگ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ حکمراں جماعت نے ملک کی
گنگاجمنی تہذیب کوکس قدرکمزورکردیا،ملک کی معیشت کس حدتک گرچکی
ہے،غربت،افلاس پورے ملک میں پیرپسارے ہوئے ہیں،ملک میں تعلیمی سطح کمزورسے
کمزورترہوچکاہے،اقلیتی طبقہ پراکثریتی طبقہ مذہب کے نام پرظلم وستم کی
انتہاکئے ہوئے ہے،اقلیتی طبقہ کاسرعام لوجہاد،گاؤرکشا کے نام پربڑی سفاکی
سے وحشیانہ طورپر خون بہایاجارہاہے،ان کی عزتوں کوپامال کیاجارہاہے ،کیایہ
سب چیزیں ملک کی ترقی کی ضامن ہیں؟ ان حرکات ذمیمہ سے عالمی برادری میں اس
ملک ہندوستان کانام کتنابدنام ہورہاہے۔اس لئے ہم مسلمانوں پرواجب ولازم ہے
کہ اپنے اداروں، تحریکوں اورتنظیموں کے ذریعے اپنی آوازحکومت تک
پہونچائیں۔جے پوراورکانپورکی طرح ہرشہرکی عورتیں بھی شریعت کے دائرے میں رہ
کراحتجاج کریں اوریہ واضح کردے کہ اس قانون میں ہماری بھلائی نہیں بلکہ
خرابی ہی خرابی ہے۔ہمارے لئے اپنے بزرگوں کااسوۂ حسنہ کافی ہے۔اس قبل جب
بھی مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کی بات اٹھائی گئی توہمارے اکابرین آج کل کے
چندضمیروایمان فروش کی طرح نہیں تھے کہ حالات سے سمجھوتہ کرلیتے،حضورحجۃ
الاسلام،حضورمفتی اعظم ہند،حضوربرہان ملت اورقائداہلسنت نے کفن بردوش
ہوکرمیدان میں کودپڑے ،بالآخرحکومت کواپنے نظریے میں تبدیلی لانی پڑی۔
آج بھی ہوجوابراہیم ساایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازگلستاں پیدا |